بلوچستان کا احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے

ڈاکٹر توصیف احمد خان

قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں انتہائی کم اراکین شریک ہوئے اور کچھ ایسے فیصلے کیے گئے ہیں جن سے بلوچستان میں محرومی کا احساس مزید بڑھے گا۔

قومی اسمبلی کے ایک رکن نے قرارداد پیش کی کہ گوادر ایئرپورٹ کا نام سابق وزیر اعظم سر فیروز خان نون کے نام پر رکھا جائے جب کہ ایک اور رکن نے گوادر کے نام پر لاہور میں یونیورسٹی قائم کرنے کی قرارداد پیش کی‘ دونوں قراردادوں کو منظور کر لیا گیا

بلوچستان کے دانشوروں، سیاسی کارکنوں اور سماجی رہنماؤں نے ان قراردادوں کو منظور کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد کاکڑ ایڈووکیٹ اور جنرل سیکریٹری جہانگیر حئی بلوچ ایڈووکیٹ کا مؤقف ہے کہ گوادر ایئرپورٹ کو ایک ایسے شخص کے نام سے منسوب کیا جارہا ہے جس کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسرا گوادر کے نام سے لاہور میں یونیورسٹی قائم کرنا، بلوچستان کے عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی سب سے زیادہ خدمت بابائے جمہوریت میر غوث بخش بزنجو نے کی ہے اس بناء پر گوادر ایئرپورٹ کا نام میر غوث بخش بزنجو کے نام پر رکھا جائے۔

کہا جاتا ہے کہ 1947 تک گوادر پر سلطنت عمان کا قبضہ تھا۔ سر فیروز خان نون پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم تھے وہ 16 دسمبر 1957 سے 8اکتوبر 1958 تک وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہے۔ ان کے دورِ حکومت میں عمان نے گوادر کا قبضہ ختم کر کے گوادر کو پاکستان کے حوالے کیا تھا۔

بلوچستان قیام پاکستان کے بعد سے ہی بحرانوں کا شکار ہے۔ بلوچستان میں عسکری شورش کو روکنے کے لیے گزشتہ صدی میں تین سے زیادہ دفعہ فوجی آپریشن ہوئے تھے۔

اسکندر مرزا نے ریاست قلات کے خاتمہ کے لیے آپریشن کرایا تھا اور بہت سے لوگ پہاڑوں پر چلے گئے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے پہاڑوں پر موجود سردار نوروز خان کو قرآن شریف کا واسطہ دے کر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا تھا تاکہ انھیں معافی دی جائے مگر ایوب حکومت نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سردار نوروز خان، ان کے بیٹوں اور بھتیجوں کو پھانسی دے دی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں عسکری شورش کو ختم کرنے کے لیے طویل ترین آپریشن ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں جب کالعدم نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کو حیدرآباد سازش کیس ختم کرکے رہا کیا گیا تو یہ شورش تھمی تھی۔

اس صدی کے آغاز کے ساتھ ایک منظم منصوبہ کے تحت بلوچستان میں شورش شروع ہوئی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس مری کے قتل کے بعد مری قبیلہ کے سردار خیر بخش مری کو حراست میں لیا گیا، پھر ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کیا گیا۔

اس آپریشن کے نتیجہ میں سابق گورنر بلوچستان اور بگٹی قبیلہ کے سردار اکبر بگٹی مارے گئے، اکبر بگٹی واحد سردار تھے جو ہمیشہ متحدہ پاکستان کے علم بردار رہے۔ سردار اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں شورش میں شدت پیدا ہوئی۔

پہلے دیگر صوبوں خصوصاً پنجاب سے آنے والے اساتذہ، خواتین، ڈاکٹر، وکلائ، صحافی اور پولیس افسران کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ اس ٹارگٹ کلنگ کی بناء پر بہت سے اساتذہ، ڈاکٹر اور افسر بلوچستان سے چلے گئے۔ بلوچستان کے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو شدید نقصان ہوا، پھر بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں۔

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا، یوں سیاسی قتل و غارت کے ساتھ مذہبی منافرت کی بناء پر قتل کی بھی نئی تاریخ رقم ہوئی۔

بلوچستان میں 2013 میں نیشنل پارٹی کے رہنما اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبد المالک بلوچ مخلوط حکومت میں ڈھائی سال کے لیے وزیر اعلیٰ بنائے گئے، انھوں نے خود ساختہ جلا وطن رہنماؤں کی ملک واپسی کے لیے ان سے مذاکرات کیے۔بہرحال ڈاکٹر عبدالمالک کی کوششوں سے بلوچستان میں مختصر مدت کے لیے امن قائم ہوا مگر پھر ان کی حکومت پہلے سے کیے گئے معاہدہ کے تحت ختم کی گئی۔جس کے بعد بلوچستان میں حالات پھر خراب ہونے لگے۔

اس دوران چین سے کیے گئے معاہدہ کے تحت سی پیک منصوبہ پر کام شروع ہوا۔ اس منصوبہ کے تحت گوادر کو چین کے صوبہ کاشغر سے ملادیا گیا مگر سی پیک معاہدہ کے تحت گوادر میں جدید بندرگاہ تعمیر ہوئی۔ جدید ترین انداز میں سڑکوں کی تعمیر ہوئی، مگر مستقل سیکیورٹی چیک پوسٹوں کے قیام سے مقامی افراد میں نفرت پیدا ہونے لگی۔ انسانی حقوق کمیشن کے ایک وفد نے تربت، گوادر اور اطراف کے علاقوں کا دورہ کیا۔

اس وفد کے ایک رکن حسین نقی کا کہنا تھا کہ تربت شہر میں داخل ہوتے وقت درجن سے زیادہ سیکیورٹی چوکیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ گوادر کے ماہی گیروں کے لیے حالات اس حد تک خراب ہوئے کہ جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن نے ماہی گیروں کے روزگار کو بچانے کے لیے تحریک چلائی۔

ان کا بیانیہ تھا کہ کوہاٹ اور جہلم سے آنے والے اہلکاروں کو مقامی افراد سے شناخت پوچھنے کا حق نہیں ہے۔ ہدایت الرحمن کا مؤقف تھا کہ ان کا خاندان سیکڑوں سال سے ماہی گیری کے شعبہ سے وابستہ ہے مگر اب ماہی گیروں کو ہی شکار پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ غیر ملکی ٹرالر مچھلی پکڑنے کے جدید جالوں کے ذریعہ شکار کر کے سمندر کو بانجھ کر رہے ہیں۔

وفاقی حکومت نے ماہی گیروں کے کچھ مطالبات تسلیم کیے مگر بلوچستان میں خودکش حملوں، لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی، بلوچ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہونے اور دیگر صوبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بلوچ طلبہ کے لیے ناموافق حالات، بلوچستان کے عوام میں پہلے سے موجودہ احساسِ محرومی کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اس طرح کے فیصلے صورتحال کو مزید خراب کرتے ہیں۔

گوادر ایئرپورٹ کا نام کسی غیر بلوچی کے نام پر رکھنے کے بجائے بلوچستان کی شخصیت کے نام پر رکھنا چاہیے۔ آزادی کی جدوجہد کرنے والے اکابرین کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ حکومت کو گوادر ایئرپورٹ کا نام میر غوث بخش بزنجو کے نام سے رکھنا چاہیے۔ میر صاحب نے ہمیشہ ہتھیار اٹھانے کو بلوچوں کے لیے خطرناک ہتھیار قرار دیا ہے اور ہمیشہ جمہوری طریقہ سے حقوق حاصل کرنے کی وکالت کی ہے۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close