گھر کے اندر زعفران اُگا کر پونے 12 لاکھ روپے ماہانہ کمانے کا نسخہ

ویب ڈیسک

انڈیا کے ایک باشندے نے نوئیڈا میں واقع اپنے گھر میں کشمیری زعفران اگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ پینسٹھ سالہ ریٹائرڈ سرکاری افسر رمیش گیرا نے اپنے گھر میں چھوٹے سے رقبے پر زعفران اُگا کر ماہانہ ساڑھے تین لاکھ بھارتی روپے (پونے بارہ لاکھ پاکستانی روپے) کمانے کا نسخہ دیا ہے۔

رمیش گیرا نے این آئی ٹی کروک شیترا (ہریانہ) سے الیکٹریکل انجینیرنگ کی ڈگری لینے کے بعد تین عشروں تک کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کیا۔ اس دوران انہیں وسیع سفر کا موقع بھی ملا۔ اس سے کے نتیجے میں وہ مختلف خطوں کی خصوصیات سے بخوبی واقف ہوگئے۔

2002 میں رمیش گیرا نے جنوبی کوریا میں 6 ماہ قیام کے دوران محدود کاشت کاری کے کئی طریقے (ہائیڈروپونکس، مائیکرو گرینز اور زعفران کی اِن ڈور کاشت کاری) سیکھے

’دی بیٹر انڈیا‘ سے انٹرویو میں رمیش گیرا نے کہا کہ انہوں نے کاشت کاری کے جدید ترین طریقوں میں دلچسپی لی اور اس حوالے سے تجربے کرنے کا سوچا۔ اس دوران انہیں پتا چلا کہ بھارت اپنی ضرورت کا ستر فی صد زعفران ایران سے درآمد کرتا ہے۔ انہوں نے سوچ لیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں زعفران اگانے پر توجہ دیں گے

ریٹائرمنٹ کے بعد رمیش گیرا نے 2017 میں ایک سو مربع فٹ کے کمرے میں زعفران اگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ موزوں ماحول پیدا کرنے کے لیے انہوں نے چار لاکھ روپے خرچ کیے۔ کشمیر سے زعفران کے بیج خریدنے پر انہوں نے مزید دو لاکھ روپے خرچ کیے۔

رمیش گیرا نے بتایا کہ بنیادی سرمایہ کاری ہی کچھ زیادہ ہے۔ اس کے بعد کچھ زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑتا اور خطیر آمدنی ہوتی ہے۔ اگر کسی کو برآمدی تجارت کا تجزیہ ہو تو ایک کلو زعفران چھ لاکھ (انڈین) روپے میں برآمد کر سکتا ہے۔

رمیش گیرا نے دوسروں کو بھی محدود رقبے میں زعفران کاشت کرنا سکھایا ہے۔ اب وہ نوئیڈا میں آکرشک سیفرون انسٹیٹیوٹ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے اب تک 370 افراد کو زعفران اگانے کی کامیاب تربیت دی ہے۔ ان کے دو روزہ آن لائن کورس کی فیس بارہ ہزار روپے ہے.

یاد رہے کہ قبل ازیں نومبر 2023 کی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بڈگام کے پکھرپورہ گاوں میں رہنے والے کمپیوٹر انجینیئر راشد خان نے بھی اس حوالے سے بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ واضح رہے کہ زعفران کی کاشت راشد کا خاندانی پیشہ نہیں ہے اور نہ ہی پکھرپورہ کی زمین اس کے لیے موزوں ہے۔

راشد کے مطابق ایک سیزن میں پانچ لاکھ روپے کمانے کے لیے زعفران کے بیج، ایک خالی کمرہ، چند ریک اور کچھ پلاسٹک کنٹینر درکار ہیں۔

زعفران دودھ اور قہوے میں استعمال ہوتا ہے اور اس کے علاوہ یہ کاسمیٹک پروڈکٹس اور کئی ادویات میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے یہاں زعفران کی پیداوار میں بے حد کمی ہوئی ہے اور اکثر کاشتکاروں کے کھیت بنجر ہو گئے ہیں۔

دنیا کا سب سے مہنگا مسالحہ کہلانے والے زعفران کو زوال کا شکار دیکھ کر راشد خان نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں اس کی کاشت کا کامیاب تجربہ کیا۔

راشد کا کہنا تھا ’میں روز ٹی وی پر سنتا تھا اور اخباروں میں پڑھتا تھا کہ زعفران کی صنعت ختم ہو رہی ہے۔ میں نے اس پر غور کیا اور یہاں کی ایگریکلچر یونیورسٹی کے ماہرین سے رابطہ کیا۔ ہم نے بیج خریدے اور کمرے میں رکھ دیے، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ زعفران کی فصل تیار ہے۔‘

راشد کے مطابق، گھروں کے اندر زعفران کی کاشت بہترین اضافی آمدن ہو سکتی ہے اور اسکے لیے وسیع کھیتوں کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے بتایا’اس میں کوئی محنت بھی نہیں لگتی۔ صرف درجہ حرارت کا خیال رکھنا ہوتا ہے اور اگر نمی کم ہو جائے تو اسے دیوار پر پانی کا چھڑکاؤ کر کے برابر کیا جا سکتا ہے۔ پیسہ بھی آتا ہے اور اطمینان بھی ہوتا ہے کہ ہماری اہم ترین فصل ختم نہیں ہو جائے گی۔‘

’اب ہم بڑے پیمانے پر گرین ہاوس فارمنگ کریں گے‘
پام پور کے رہنے والے عبدالمجید کا خاندان تین صدیوں سے زعفران کی ہی کاشت کرتا رہا ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کی وجہ سے زعفران کے کھیتوں میں پہلے جیسی رونق باقی نہیں رہی۔

حکام کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران زعفران کی پیداوار میں 60 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی۔ مجید اب خود بھی ’ان ڈور فارمنگ‘ کے ذریعے گھر کے اندر ہی زعفران اُگاتے ہیں اور دوسرے کسانوں کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا ’موسم نے تنگ کیا تو ہم نے انڈور فارمنگ کا آزمایا۔ لیکن پہلے پہلے اس تجربے میں کئی بار لاکھوں روپے کے بیج خراب ہو گئے۔‘

’پھر ہم نے زرعی یونیورسٹی کے ماہرین سے رابطہ کیا، انھوں نے ہمیں تربیت دی اور مدد بھی کی۔ اب کوئی بھی کسان اپنے کمرے میں دو کلو تک زعفران کاشت کر سکتا ہے جس کی قیمت چھ لاکھ روپے تک ہو گی۔‘

عبدالمجید کہتے ہیں کہ وہ انڈیا کی بعض کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

’ہماری بات ہو رہی ہے۔ ہم زمین فراہم کریں گے اور وہ بڑے گرین ہاوس تعمیر کریں گے۔ پھر موسم کیسا بھی ہو، فصل متاثر نہیں ہوگی۔ اس میں کچھ دیر لگے گی، لیکن تب تک کسان گھروں میں بھی کاشت کر سکتے ہیں۔‘

موسم خزاں شروع ہوتے ہی پام پور کے کھیتوں میں بہار ہوتی تھی، ہر طرف لہلاتے زعفرانی پھول دلکش منظر پیش کرتے تھے۔ لیکن اب ان کھیتوں میں پہلے جیسی رونق نہیں رہی، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے بہت کم فصل ہوتی۔

زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر بشیر احمد الٰہی کہتے ہیں کہ ’ہم کھیتوں میں زعفران کی کاشت کو ختم نہیں کر رہے ہیں۔ البتہ ہم نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا ایک راستہ بتایا ہے، اور کسان کامیابی سے ان ڈور فارمنگ کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ زعفران کا بیج (Corm) کئی سال تک فصل دیتا ہے، لیکن زعفران کا پھول توڑنے کے بعد اسے دوبارہ زمین کے اندر رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ اگلے سال دوبارہ فصل کے قابل ہو جائے۔

’اب ہم ایک اور تجربہ کرنے والے ہیں، جس میں انڈور فارمنگ کے ذریعہ بیج اُگا بھی سکیں اور اسے محفوظ بھی کر سکیں۔ اگر یہ کامیاب ہو گیا، تو پھر زمین کا رول ختم ہوجائے گا، اور کوئی بھی اپنے گھر کے کمرے میں زعفران کی کاشت کر سکے گا۔‘

پروفیسر بشیر کہتے ہیں انڈیا کی کئی ریاستوں کے زرعی سائنسدان یہاں آکر ان ڈور فارمنگ کے امکانات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ’لیکن کشمیر جیسی آب و ہوا ہر جگہ ممکن نہیں ہے۔ ممبئی یا دہلی میں ایسا کرنا ہو تو کمرے کا درجہ حرارت کنٹرول کرنے کے لیے مختلف آلات نصب کرنے ہونگے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close