بیسویں صدی کے ’سب سے بڑے آرٹ فراڈ‘ مجرم کی نصیحت کیا تھی؟

حسنین جمال

کروڑوں روپے مالیت کی ایک چیز آپ خریدیں اور اگلی صبح اخبار سے پتہ لگے کہ آپ سے فراڈ ہوا ہے اور وہ چیز دو نمبر تھی، آپ کیا کر سکیں گے؟

پپینٹنگز کی دنیا میں ہمیشہ سے معاملہ اصلی اور ’نسلی‘ ہونے کا رہا ہے۔ جس طرح کسی گھوڑے یا کتے کی نسل اہم ہوتی ہے، جسے ہم پیڈیگری کہتے ہیں، بالکل ویسے ہی کسی مصور کی تصویر کو برتا جاتا ہے۔

تو ایک تصویر جتنی مرضی اچھی یا بری بنی ہو، اصل سودا اس کے ساتھ جڑے نام کا ہوتا ہے اور اس سَنَد کا ہوتا ہے، جو ثابت کرتی ہے کہ یہ تصویر اصل ہے اور فلاں ’ماسٹر پینٹر‘ نے بنائی ہے۔

مئی 1990ع میں ایک جاپانی آرٹ کلیکٹر نے سوا آٹھ کروڑ ڈالر کی تصویر خریدی، جو وان گو نے بنائی تھی، 2006ع تک اسے مہنگی ترین پینٹنگ کا اعزاز حاصل تھا۔

’پورٹریٹ آف ڈاکٹر گیشے‘ ۔۔۔ وان گو کے ڈاکٹر کی ایک تصویر تھی۔ کاغذوں میں آج تک ایسی دو تصویروں کے وجود کا ثبوت ملتا ہے، ایک وہ جاپانی خریدار والی اور دوسری ڈاکٹر گیشے کے لواحقین کی طرف سے لائی گئی، جو بعد میں ایک میوزیم کو فروخت ہوئی۔ کاغذوں کے مطابق دونوں وان گو نے بنائی تھیں لیکن جاپانی خریدار والی پینٹنگ کا ’اصلی ہونا‘ آج تک مشکوک ہے۔

جاپانی خریدار جب مرے تو وہ تصویر پُراسرار طور پہ غائب تھی۔ پہلے اس کے جلائے جانے کی خبر چلی پھر یہ سامنے آیا کہ 1998 میں اسے آگے کسی کو بیچا گیا لیکن اس وقت وہ تصویر کہاں ہے، کوئی نہیں جانتا۔

کیا خبر یہ تصویر ان دو سو تصویروں میں سے ایک ہو، جنہیں جون میاٹ نے بنایا تھا؟

جون میاٹ ایک مصور ہیں جو اس وقت زندہ ہیں۔ یہ کہانی 1986 سے شروع ہوتی ہے، جب یکدم انہیں آئیڈیا ہوا کہ وہ قدیم کلاسیکی تصویروں کی ہوبہو ایسی کاپیاں بنا سکتے ہیں، جن پر کوئی بھی آرٹ ڈیلر جعلی ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

انہوں نے ایک اخبار میں اشتہار دیا کہ ’انیسویں اور بیسویں صدی کے آرٹ کی تصویریں 250 ڈالر میں بنوائیں۔‘

(19th- and 20th-century fakes for $240)

جون میاٹ کو ڈریو نامی صاحب کا فون آیا اور انہوں نے دو مصوروں کی نقول ڈیمانڈ کیں۔ یہ جون میاٹ کا جیل کی طرف پہلا قدم تھا۔

ڈریو نے اگلے چھ سات برس کے دوران جون میاٹ سے 200 جعلی تصاویر بنوائیں، مختلف عجائب گھروں سمیت نیلام گھروں کو بھی بیچیں۔

دونوں برابر کا جرم کر رہے تھے۔ جون میاٹ کو پتہ تھا کہ ان کی بنائی گئی تصویریں برطانیہ کے مشہور و معروف عجائب گھروں کو بیچی جا رہی ہیں، نیلام گھروں میں فروخت ہو رہی ہیں، پرائیویٹ کلیکٹر لے رہے ہیں، لیکن وہ خاموش رہے اور طلاق کے بعد اکیلے بچے پالنے سمیت اپنی گھریلو زندگی کو کسی طرح دھکیلے جانے کی خاطر ان کے بقول یہ واحد آپشن ان کے پاس تھا۔

دوسرے مجرم، ڈریو صاحب کا پورا نام جان ڈریو تھا اور جب اسکاٹ لینڈ یارڈ نے انہیں گرفتار کیا، تب دنیا کو پتہ لگا کہ وہ بچپن سے ایک فراڈیے تھے اور ان کے نام، تعلیمی ریکارڈ، سرکاری ملازمتوں کے دعووں سمیت ہر وہ چیز جو ان سے منسلک تھی، اس میں بہت بڑے بڑے دھوکوں کی بھرمار تھی۔

جون میاٹ کو تصویر بنانے کے بہت تھوڑے پیسے ملتے تھے لیکن آرٹ اسکولوں میں پڑھانے والی ان کی پرانی نوکری کی نسبت یہ پیسے ایک تو دربدر ہوئے بغیر ملتے تھے اور پھر یقیناً اُن نوکریوں کی نسبت اس کام کا پیسہ پھر بھی کافی زیادہ تھا، نیویارک ٹائمز کے مطابق انہوں نے جعلی تصویروں سے ایک لاکھ 65 ہزار ڈالر کمائے تھے۔

اصل کام جان ڈریو کرتے تھے۔ وہ تصویروں پہ چائے، کافی، ویکیوم کلینر کی جمع شدہ مٹی اور پتہ نہیں کیا کچھ پھینک کر انہیں اس طرح پراسیس کرتے کہ وہ ٹھیک ٹھاک پرانی لگنا شروع ہو جاتیں۔

پھر تصویروں کے فریم کھرچے جاتے، رنگ کہیں کہیں سے ہلکا سا اڑایا جاتا، کینوس کے پچھلے حصے پر ٹھیک ٹھاک محنت کی جاتی، الغرض پورے ٹیکنیکل مرحلوں سے گزرنے کے بعد ایک فیک پینٹنگ تیار ہوتی۔

پھر جان ڈریو اس پینٹنگ کی پیڈیگری تیار کرتے۔ کس سے کس نے خریدی، کون وارث مرا ہوا ہے، کون زندہ ہے، ان لوگوں کے دستخط کیے جاتے، پھر آرٹ ماہرین کی تصدیقی سنَدیں جعلی طور پر بناتے، کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد اس جرم کی باری آتی جس کے ڈسے ہوئے برطانوی میوزیم آج بھی پھونک پھونک کر ہی شاید کچھ خریدتے ہوں گے۔

دنیا کی بڑی آرٹ مارکیٹ میں کوئی فراڈ ہوتا ہے تو عموماً اس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جاتیں، تاکہ عام لوگوں کا اعتبار خراب نہ ہو لیکن اس فراڈ کے حوالے سے جو اعداد و شمار سامنے آئے، ان کے مطابق لندن، پیرس اور نیویارک کے مشہور نیلام گھروں کو جان ڈریو نے 200 جعلی تصاویر بیچیں، جن میں سے 73 پکڑی گئیں، جب کہ باقی کہاں ہیں۔۔۔ کوئی نہیں جانتا۔

جان ڈریو نے جو سب سے پیچیدہ کام کیا، وہ یہ تھا کہ انسٹیٹیوٹ آف کنٹیمپریری آرٹ، وکٹوریا اینڈ البرٹ میوزیم، ٹیٹ گیلری سمیت کئی بڑے عجائب گھروں کے خفیہ کاغذات تک رسائی حاصل کی اور وہاں موجود مصوروں کے ریکارڈ میں اپنی جعلی تصویریں باقاعدہ مکمل کاغذات کے ساتھ شامل کر دیں۔ اب مکمل شجرے کے ساتھ 200 تصویریں ریکارڈ کا حصہ تھیں۔

یاد رہے کہ ان میں سے 73 پکڑی گئی ہیں، باقی کس کو کتنا چونا لگا، آج تک کوئی حساب نہیں لگا پایا۔ ان تینوں اداروں کے سابقہ ڈائریکٹرز نے تسلیم کیا کہ وہ کبھی ٹھیک سے نہیں بتا سکتے کہ اندر موجود کتنی تصویریں واقعی اصلی ہیں!

جان ڈریو نے اس سارے عرصے میں تقریباً بیس لاکھ ڈالر کمائے لیکن آرٹ گیلریوں نے ان سے خریدا ہوا مال آگے کس کس کو کتنے میں بیچا، کوئی حساب کتاب لگایا جا ہی نہیں سکتا۔

یہاں سب سے بڑا سوال ان ماہرین کی ذات پر اٹھتا ہے، جو ان تصویروں کو چیک کرتے تھے۔ جون میاٹ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ کئی بار میں ہنس پڑتا تھا کہ یار گھروں میں کرنے والے پینٹ اور کے وائے جیلی کو ملا کر میں تصویریں بنائے جا رہا ہوں اور کوئی ’ماہر‘ ایسا نہیں جو ان کو پکڑ سکے؟ ’خود میں جانتا ہوں کہ بعض تصویریں کس قدر بے کار بنی تھیں لیکن وہ لوگ کیوں نہیں جان پائے؟‘

قصہ مختصر۔۔ یہ دونوں پکڑے اس طرح گئے کہ ایک ایسی ماہر کے پاس جون میاٹ کی تصویر پہنچ گئی، جو واقعی جینوئن تھیں۔ لیزا پامر البرٹو جیوکاماٹی نامی مصور کا سرٹیفائیڈ ادارہ چلاتی تھی، ان کے پاس ڈریو نے جیوکاماٹی کی ایک تصویر بھیجی، جس کے دستخط اور رنگوں پہ وہ کھٹک گئیں۔

لیزا پامر نے مہینوں باقاعدہ برطانیہ کے میوزیم کھنگالے اور کئی جعلی کاغذات بڑی محنت کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے لائیں۔

مصور جون میاٹ کو ایک سال قید کی سزا ہوئی، جب کہ جان ڈریو چھ سال کے لیے جیل چلے گئے۔

جون میاٹ باہر آئے تو انہوں نے ’جینوئن فیکس‘ نامی ایک ادارہ بنایا اور لوگوں کی فرمائش پر ان کے پسندیدہ مصوروں کی تصویریں کاپی کر کے بیچنا شروع کر دیں۔

اس وقت جون میاٹ 78 سالہ کامیاب مصور ہیں جن کی تصاویر دنیا بھر میں فروخت ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں زندگی بھر کا نچوڑ وہ جملہ کہا جو اس طویل تحریر کا سبب بنا۔

’زندگی جب دوسرا چانس دے تو اس سے ہرگز پنگا نہ کریں!‘

(When life gives you the second chance, don’t mess with it)

اس قول کی طاقت کا جون میاٹ اور جان ڈریو زندہ ثبوت ہیں۔

2012 میں جان ڈریو نے ایک میوزیشن سے سات لاکھ پاؤنڈ کا فراڈ کیا اور آٹھ سال ناروے کی ایک جیل میں قیام کیا۔

انہیں سزا دیتے ہوئے جج کے الفاظ تھے ’میں نے زندگی بھر تم سے زیادہ شاطر اور دھوکے باز آدمی نہیں دیکھا!‘

اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بی بی سی کے مطابق جون میاٹ اور ڈریو کے اس جرم کو بیسیویں صدی کا سب سے بڑا فراڈ قرار دیا لیکن ایک مجرم اس وقت سنَد یافتہ لکھ پتی مصور ہیں، جب کہ دوسرے مجرم۔۔۔ جان ڈریو۔۔۔ شاید اس وقت بھی زندگی کے دوسرے چانس سے میس کرنے کے بعد کسی قید خانے میں مقیم ہوں گے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

آرٹ کے نام پر بے وقوف مت بنیں!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close