بھارت کی خلائی ایجنسی ’اسرو‘ نے بتایا ہے کہ چندریان 3 نے چاند کی قطب جنوبی پر تاریخی لینڈنگ کے ایک روز بعد پہلی مرتبہ حرکت کی ہے
خیال رہے کہ بدھ کی شام وکرم لینڈر نے چاند کی سطح پر کامیاب لینڈنگ کی تھی جس کے بعد بھارت چاند پر سافٹ لینڈنگ کرنے والا چوتھا اور چاند کے قطب جنوبی پر پہنچنے والا ملک بن گیا ہے
اب وکرم روور چاند کی سطح پر موجود پتھروں اور گڑھوں کے اطراف گھومتے ہوئے اہم ڈیٹا اکٹھا کرے گا، جسے بعد میں زمین پر جائزے کے لیے بھیجا جائے گا۔ پرگیان میں دو سائنسی آلات نصب ہیں جو چاند کی سطح پر معدنیات اور اس کی مٹی کے کیمیائی تجزیے کریں گے
بھارت کے چاند مشن کی خاص بات یہ ہے کہ آج سے قبل دنیا کا کوئی بھی ملک چاند کے اس حصے (قطب جنوبی) پر سافٹ لینڈنگ میں کامیاب نہیں ہوا تھا، یہ جگہ چاند کے اس حصے کے مقابلے میں بہت مختلف اور پراسرار ہے جہاں اب تک دنیا بھر کے ممالک سے خلائی مشن بھیجے جا چکے ہیں
چاند پر بھیجے گئے زیادہ تر مشن چاند کے خط استوا تک پہنچے ہیں، جہاں قطب جنوبی کے مقابلے میں زمین زیادہ ہموار ہے
اس کے ساتھ ساتھ چاند کے قطب جنوبی پر بہت سے آتش فشاں ہیں اور یہاں کی زمین بہت ناہموار ہے
چندریان 3 کی طرف سے بھیجی گئی چاند کی سطح کی تازہ ترین تصاویر میں گہرے گڑھے اور کھردری سطح واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے
چاند کا جنوبی قطب تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر چوڑے اور آٹھ کلومیٹر گہرے گڑھے کے کنارے پر واقع ہے، جسے نظامِ شمسی کا سب سے پرانا ’امپیکٹ‘ گڑھا سمجھا جاتا ہے
امپیکٹ کریٹر سے مراد کسی سیارے میں موجود وہ گڑھے ہیں، جو کسی بڑے شہابی پتھر یا سیاروں کے تصادم سے بنتے ہیں
امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے پراجیکٹ سائنسدان نوح پیٹرو چندریان 3 کے اس مقام پر پہنچنے کی اہمیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں ”جنوبی قطب پر اترنے سے آپ اس (تاریخی) گڑھے اور اس کی اہمیت کو سمجھنا شروع کر سکتے ہیں“
ناسا کے مطابق سورج چاند کے قطب جنوبی پر افق سے نیچے یا تھوڑا سا اوپر رہتا ہے
چاند کے اس حصے پر جن دنوں سورج کی تھوڑی سی بھی روشی پڑتی ہے تو وہاں درجہ حرارت 54 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، لیکن اس علاقے میں بہت سے بلند و بالا پہاڑ اور گہرے گڑھے ہیں، جو روشن دنوں میں بھی اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں
ان میں سے ایک پہاڑ کی اونچائی ساڑھے سات ہزار میٹر ہے۔ ان گڑھوں اور پہاڑوں کے سائے میں آنے والے علاقوں میں درجہ حرارت منفی 203 ڈگری سینٹی گریڈ سے منفی 243 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے
ناسا نے بتایا ہے کہ اس کے پاس جدید ترین سینسرز موجود ہیں لیکن چاند کی ناہموار سطح اور انتہائی کم روشنی کی وجہ سے چاند کے قطب جنوبی پر اترنے والے روور سے مزید معلومات اکٹھی کرنا مشکل ہوگا
اس کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت بڑھنے اور گرنے سے اس کے کچھ نظام متاثر ہو سکتے ہیں۔
ان دنوں چاند نہ صرف بھارت بلکہ روس اور چین کی خلائی ایجنسیوں کے لیے بھی دلچسپی کا موضوع بنا ہوا ہے
روس نے چندریان 3 کے زمین سے روانہ ہونے کے بعد اپنا مشن لونا 25 چاند کی طرف بھیجا تھا اور اسے بھی چاند کے جنوبی قطب پر اترنا تھا۔
تاہم رواں ہفتے لینڈنگ سے کچھ گھنٹے قبل ’کنٹرول سے باہر ہونے کے بعد‘ یہ چاند کی سطح پر گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ یہ گذشتہ 47 سالوں میں چاند کی طرف بھیجا گیا روس کا پہلا خلائی مشن تھا
اس کے ساتھ ساتھ چین آنے والے وقت میں چاند کے لیے اپنی مہم بھی شروع کرنے والا ہے۔ چین کا ’چانگ ای 4‘ نامی مشن سنہ 2019 میں چاند کی غیر مرئی سطح پر اترا تھا
چندریان -3 اور چندریان -4 کے بعد بھارت 2026 میں جاپان کے ساتھ مشترکہ پولر ایکسپلوریشن مشن پر بھی کام کرے گا، جس کا مقصد چاند کے تاریک حصوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے
تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام ممالک چاند کے اس حصے تک پہنچنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں، جہاں تک پہنچنا بہت خطرناک ہے
ماہرین کے مطابق اس دوڑ کے پیچھے ایک وجہ چاند پر پانی دریافت کرنا بھی ہے۔ ناسا کے لونر ری کنیسانس آربٹر کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاند پر گہرے گہرے گڑھوں میں برف موجود ہے۔ یہ آربٹر گذشتہ چودہ برس سے چاند کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ برف کی موجودگی کی بنیاد پر یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس سے انسانوں کو چاند پر بھیجنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
کم کشش ثقل کی وجہ سے چاند کا اپنا کوئی ایٹماسفیئر (آب و ہوا) نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں یہاں پانی صرف ٹھوس یا گیسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے
بھارت کا چندریان 1 دنیا کا پہلا قمری مشن تھا، جس نے سنہ 2008 میں چاند پر پانی کی دستیابی کا پتہ لگایا تھا
امریکی یونیورسٹی آف نوٹریڈیم میں ماہرِ فلکیات پروفیسر کلائیو نیل کہتے ہیں ”اب تک یہ برف اس طرح سے ظاہر نہیں ہوئی کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے“
سائنسدانوں کے لیے چاند پر پانی کی تلاش کا امکان بہت سی امیدوں کو جنم دیتا ہے۔
چاند کے سرد قطبی خطوں پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی اور یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ برفیلا پانی پچھلے لاکھوں سالوں کے آہستہ آہستہ سطح تک پہنچ سکتا ہے
اگر سائنسدانوں کو اس قسم کی برف کا نمونہ مل جائے تو انھیں ہمارے نظام شمسی میں پانی کی تاریخ کو سمجھنے کا موقع ملے گا
یورپی اسپیس ایجنسی کے ساتھ کام کرنے والی برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی میں سیاروں کی سائنسدان سیمون باربر کہتے ہیں ”ہم ان سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں کہ جیسے پانی کب سے آیا، کہاں سے آیا اور زمین پر زندگی کی نشوونما پر اس کے اثرات کیا ہیں۔“