سندھ پولیس کی نئی ’تلاش ڈیوائس‘ سے دو مبینہ ڈکیتوں کو ہلاک کرنے والے پولیس والوں کی بےگناہی کیسے ثابت ہوئی؟

سرسید تھانے کے ایس ایچ او شاہد تاج 26 ستمبر کو شام سات بجے اپنے دفتر میں موجود تھے، جب اچانک وائر لیس پر ابتدائی شور کے بعد اُنہوں نے اپنے تھانے یعنی ’تھانہ سرسید‘ کا نام سُنا

وائرلیس پر اطلاع دی جا رہی تھی کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کو قابو کرنے کے لیے بنائی گئی ’شاہین فورس‘ کا تھانہ سرسید کی حدود میں ’ڈکیتوں‘ سے مقابلہ ہوا ہے، جس میں ایک ڈاکو مارا گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہے

شاہد تاج فوراً اٹھے اور وائر لیس پر بتائے گئے مبینہ پولیس مقابلے کے مقام کی جانب روانہ ہو گئے

نیوکراچی سیکٹر 11 سی کلیانہ چوک وہ مقام تھا، جہاں یہ مبینہ مقابلہ ہوا تھا۔ ایس ایچ او کے پہنچنے سے پہلے گشت پر مامور پولیس موبائل وہاں پہنچ چکی تھی جبکہ ہلاک اور زخمی ہونے والے مبینہ ڈکیتوں کو ایمبولینس میں ڈالا جا چکا تھا

زخمی ڈکیت کو ہتھکڑی لگا کر ایمبولنس میں عباسی شہید ہسپتال روانہ کر دیا گیا تاکہ اس سے معلومات حاصل کی جاسکیں کہ اُن کا کیا نام ہے؟ اور کب سے وارداتیں کرتے آ رہے ہیں؟

شاہد تاج نے مبینہ مقابلہ کرنے والے شاہین فورس کے اہلکاروں کو فوری طور پر تھانے جانے کا کہا اور پھر خود عباسی شہید ہسپتال کے لیے روانہ ہوگئے

ایمبولنس میں موجود پولیس اہلکاروں کو زخمی ڈکیت نے اپنا نام عبدالرحمان اور مقابلے میں مرنے والے ساتھی کا نام وکللاج بتایا اور اپنے گھر والوں کا فون نمبر بھی لکھوایا، جس پر اہلکار نے فوری طور پر گھروالوں کو اطلاع کر دی

ابھی ایمبولنس ہسپتال کے قریب ہی پہنچی تھی کہ زخمی شخص بھی ’زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے‘ انتقال کر گیا، دونوں مبینہ ڈکیتوں کی لاشوں کو عباسی شہید ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھ دیا گیا اور اسی اثنا میں مرنے والے مبینہ ڈکیت کے کچھ رشتہ دار بھی ہسپتال پہنچ گئے

اس موقع پر مبینہ ڈکیت کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ہتھکڑی لگا کر ان کے رشتہ دار کو گولیاں ماری ہیں اور یہ کہ یہ جعلی انکاونٹر ہے

اہل خانہ کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ ہلاک ہونے والے نہ تو ماضی میں کبھی گرفتار ہوئے اور نہ ہی ان پر کوئی مقدمہ درج ہوا اور نہ ہی ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کا ریکارڈ ہے

اہل خانہ کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ ’مرنے والے ڈکیت نہیں مزدور تھے۔‘

یہ سب ایس ایچ او شاہد تاج کے سامنے ہو رہا تھا جبکہ دوسری جانب شاہین فورس کے اہلکار گواہی دے رہے تھے کہ ملزمان کے قبضے سے دو پستول اور پانچ موبائل فون بھی ملے ہیں

مشکل یہ بھی تھی کہ ابتدا میں ہونے والی تفتیش کے نتیجے میں پولیس کو عبدالرحمان اور وکلاج کے نام سے ملزمان کا کوئی کرائم ریکارڈ نہیں مل رہا تھا۔ دوسری جانب پولیس افسران کا بھی ایس ایچ او پر دباؤ تھا کہ معلوم کیا جائے کہ کیا مرنے والے واقعی معصوم شہری تھے؟

یہی وہ وقت تھا، جب شاہد تاج نے مرنے والوں کی حقیقت جاننے کے لیے فوری طور پر ’تلاش ڈیوائس‘ تھانے سے منگوائی

کمپیوٹر سائنس میں بیچلرز کی ڈگری کرنے والے ایس ایچ او شاہد تاج سمیت چند ہی تھانے داروں کو یہ ڈیوائس تجرباتی بنیاد پر ایک ماہ قبل دی گئی تھی۔ جیسے ہی تلاش ڈیوائس عباسی شہید ہسپتال کے مردہ خانے لائی گئی تو مارے جانے والے افراد کی وارداتوں کا ریکارڈ جاننے کے لیے پہلے وکلاج نامی مبینہ ڈکیت کا انگوٹھا ڈیوائس کے اسکینر پر رکھا گیا

جو نتیجہ شاہد تاج نے دیکھا اس پر یقین کرنا ان کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ شاہد تاج کے مطابق ایک بار پھر انگوٹھے کے نشانات کو اسکین کیا کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی مگر نتیجہ پھر وہ ہی رہا

تلاش ایپ نے ڈکیت کے اصل نام سے پردہ ہٹا دیا تھا اور معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام وکلاج نہیں بلکہ محمد بنی عرف قاری تھا۔ اب ایس ایچ او نے مزید جاننے کی کوشش میں ملزم کا کرمینل ریکارڈ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ملزم رواں سال یکم جنوری کو اقدام قتل کے مقدمے میں گرفتار بھی ہوا تھا۔ اس کیس میں ضمانت پر رہا ہوا تو پیرآباد پولیس نے 6 جولائی کو چوری کے مقدمے میں گرفتار کیا، لیکن چند ماہ میں ہی یہ ضمانت پر دوبارہ باہر آ گیا

اب باری تھی دوسرے مبینہ ڈکیت کے بارے میں جاننے کی۔ اس نے شدید زخمی حالت میں اپنا نام عبدالرحمان بتایا تھا مگر پولیس افسران اس کے انگوٹھے کے نشانات دیکھ کر بھی حیران رہ گئے کیونکہ اس کا اصل نام عبدالرحمان نہیں غیبان خان تھا

غیبان خان جون 2020 میں غیرقانونی اسلحہ برآمدگی کیس میں تھانہ سرسید کی حدود سے گرفتار کیا گیا تھا

ایس ایچ او تھانہ سرسید شاہد تاج کے مطابق اگر اس روز یہ تلاش ڈیوائس ان کے پاس نہ ہوتی تو وہ اور ان کے اہلکار بڑی مشکل میں پھنس سکتے تھے کیونکہ مارے جانے والے ڈکیت نے زخمی حالت میں جو نام ہمیں بتائے وہ بھی غلط تھے اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے بھی انہیں ’بے گناہ‘ قرار دیا جا رہا تھا

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جب بھی ایسی صورتحال درپیش ہوتی تھی، جس میں ملزم کا کرمینل ریکارڈ معلوم کرنا پڑتا تو اس میں کئی روز درکار ہوتے تھے۔ ملزم کا اصل نام اور شناختی کارڈ نمبر پولیس کی کرائم ریکارڈ برانچ یعنی سی آر او بھیجے جاتے، جہاں سے ایک سے دو روز میں تمام معلومات بتائی جاتی تھیں اور اس میں زیادہ وقت ضائع ہو جاتا تھا

سندھ پولیس کی تلاش ڈیوائس کیا ہے؟

سندھ پولیس کی جانب سے تین ماہ قبل ایک ایپ پر کام شروع کیا گیا تھا۔ یہ ایک موبائل ایپلیکیشن ہے لیکن یہ پلے اسٹور یا ایپ سٹور پر موجود نہیں ہے۔ یہ ایپ صرف پولیس افسران کے استعمال کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ لیکن یہ کسی پولیس افسر کے موبائل پر بھی موجود نہیں ہے اور اس تک رسائی کے لیے خاص طور پر ایک ڈیوائس بھی بنائی گئی ہے

17 اکتوبر کو انسپکٹر جنرل آف سندھ پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے سینٹرل پولیس آفس میں تلاش ڈیوائس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا تھا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس انفارمیشن ٹیکنالوجی پرویز چانڈیو کے مطابق اس ایپ پر سندھ پولیس کا آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ گذشتہ تین ماہ سے کام کررہا تھا

اس ایپ میں کل 16 فیچرز موجود ہیں اور اسے نادرا کے ڈیٹا بیس سے لنک کیا گیا ہے یعنی اسی سے شناختی کارڈ کے اصل یا جعلی ہونے کی تصدیق، خاندان کے دیگر افراد کا ڈیٹا، فیملی ٹری میں موجود افراد کے بارے میں معلومات لی جا سکتی ہیں

اس ایپ کے ذریعے ڈرائیونگ لائسنس کی تصدیق بھی ممکن ہے اور اگر کسی کا کریمنل ریکارڈ سامنے آ جائے تو عدالتی ڈیٹا سے منسلک ہونے کی وجہ سے اسی ایپ سے یہ سہولت بھی حاصل ہے کہ دیکھا جا سکے کہ ملزم اس کیس میں ضمانت پر ہے یا نہیں یا پھر پولیس کو مطلوب ہے

اس ایپ میں سندھ بھر کے سترہ سو ہوٹلوں کا ڈیٹا بھی موجود ہے، جب بھی کوئی شہری یا کوئی غیر ملکی شخص ان رجسٹرڈ ہوٹلز یا گیسٹ ہاؤسز میں رکنے کے لیے جاتا ہے تو اس کے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ سے ایک سافٹ وئیر میں آن لائن انٹری کی جاتی ہے، جس سے یہ تصدیق بھی رہتی ہے کہ کون سا شخص کس ہوٹل میں رکا ہے

ڈی آئی جی آئی ٹی پرویز چانڈیو کے مطابق اس ایپ کی کسی بھی شخص کا شناختی کارڈ نمبر یا پاسپورٹ نمبر یا صرف فنگر پرنٹس کے ذریعے اس کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکتی ہیں

اس ایپ میں محکمہ سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کا ڈیٹا بھی موجود ہے، جس سے کسی بھی شہری کی گاڑی کی مکمل معلومات نکالی جا سکیں گی

کیا تلاش ایپ سے شہر میں جرائم کی شرح کم ہو سکے گی؟

ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس ناصر آفتاب کے مطابق یہ ڈیوائس جرائم پیشہ افراد کو پکڑنے میں بہت مددگار ہے اور اس کا استعمال شہر میں جرائم کی شرح کافی حد تک کم کر سکے گا۔ ان کے مطابق بین الصوبائی گروپ کراچی میں بہت وارداتیں کرتے ہیں اور یہ ایپ ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی بہت کارآمد ہے

ناصر آفتاب کے مطابق پہلے تو ملزمان صرف اس سوچ کے ساتھ وارداتیں کرتے تھے کہ اس کی تلاش صرف مقدمے کا تفتیشی افسر کر رہا ہے لیکن اب اس ایپ کے استعمال کے بعد وہ خوف زدہ ہوں گے کہ کہیں اُن کا سامنا تلاش ڈیوائس کے ہمراہ کھڑے اہلکاروں سے ہوگیا تو ان کے تمام مقدمات کھل کر سامنے آ جائیں گے

ڈی آئی جی پرویز چانڈیو کہتے ہیں کہ یہ اس ڈیوائس کی خاصیت ہے کہ اس میں صرف سندھ نہیں بلکہ پنجاب اور بلوچستان کے کرمنلز کا ڈیٹا بھی موجود ہے۔ تاہم ابھی خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے جرائم پیشہ افراد کا ریکارڈ اس میں شامل نہیں ہے

سندھ پولیس کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر تبسم عابد کے مطابق ابتدائی طور پر ایک موبائل فون ایپ پر کام شروع کیا گیا تھا پھر وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس میں مزید جدت لائی گئی اور اب یہ صرف ایپ نہیں بلکہ پوری ڈیوائس ہے جو سندھ پولیس نے ہی تیار کی ہے

انھوں نے بتایا کہ یہ پوری ڈیوائس ستر ہزار روپے کی لاگت سے تیار کی گئی ہے اور اس میں ایک ٹیبلیٹ لگایا گیا ہے اور اسی کے اوپر سکینر لگایا گیا ہے تاکہ اگر کسی شخص کے پاس شناختی کارڈ یا دیگر کوائف موجود نہ ہوں اور اس کی معلومات فوری درکار ہوں تو انگوٹھے یا انگلی کے نشانات کی مدد سے اس کی تفصیلات لی جا سکیں

سندھ پولیس کی ڈائریکٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی تبسم عابد کے مطابق اس ڈیوائس کو ہمیشہ سائن آن کرنا پڑتا ہے یعنی جو پولیس افسر اسے سائن ان کرتا ہے ہمارے ڈیٹا بیس میں اس کی انٹری ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمارا 24 گھنٹے کام کرنے والا کنٹرول روم بھی مانیٹرنگ شروع کر دیتا ہے کہ اس ڈیوائس سے کیا کام لیا جا رہا ہے اور کون سا افسر یہ کام لے رہا ہے

17 اکتوبر کے بعد سے شہر میں تلاش ڈیوائس کے ہمراہ سنیپ چیکنگ کا آغاز کیا گیا ہے۔ ایس پی لیاقت آباد ایاز حسین کے مطابق ماضی میں شہریوں کی جانب سے پولیس کے ناکے کے خلاف بہت باتیں کی جاتی تھیں اور اہلکاروں پر رشوت لینے کے الزام بھی لگتے تھے لیکن اس ایپ کے ذریعے پولیس اہلکاروں کی مانیٹرنگ بھی ممکن ہو پا رہی ہے

سندھ پولیس سے منسلک بند ہو جانے والی موبائل ایپس

سال 2020 میں ایس ایس پی ساؤتھ شیراز نظیر نے ایک این جی او کے تعاون سے موبائل ایپ بنائی تھی جس کا نام تصدیق ایپ تھا جس میں گھریلوں ملازمین کا ریکارڈ نہ صرف درج کیا جا سکتا تھا بلکہ اس کی مدد سے ملازمین کا کرائم ریکارڈ بھی چیک کیا جا سکتا تھا

سندھ پولیس کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کئی ایسی شکایات سامنے آئیں جس میں بلا ضرورت شہریوں کا کرائم ریکارڈ چیک کیا گیا اور اس کے عوض پیسے بھی وصول کیے گئے جس کی وجہ سے اس موبائل ایپ کو بند کردیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close