جہاں چند قدم چلنے سے ہی سانس پھول جائے۔۔۔ ایک انوکھے فٹبال ٹورنامنٹ کی کہانی

ویب ڈیسک

بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے چند قدم چل کر ہی انسان کی سانس پھول جاتا ہے، اسی لیے اونچے پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے عموماً آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر گیارہ ہزار فٹ کی اونچائی پر فٹبال کھیلنے کی بات کی جائے تو یقیناً یہ حیران کن ہے۔۔ لیکن یہ حیرت انگیز کارنامہ لداخ کے فٹبال ٹورنامنٹ میں کھیلنے والے کھلاڑی سرانجام دے رہے ہیں

لداخ ہمالیہ کے دامن میں تقریباً گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس خطے سے پاکستان، بھارت اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس کے شمالی حصے پر پاکستان اور جنوبی پر بھارت کا کنٹرول ہے۔ یہاں ہوا میں آکسیجن کا تناسب اتنا کم ہے کہ چند قدم چلنے سے ہی سانس پھولنے لگتا ہے۔ لیکن اسی علاقے میں اپنی نوعیت کا نہ صرف پہلا فٹبال ٹورنامنٹ کھیلا جا رہا ہے بلکہ اس ٹورنامنٹ کو ’کلائمیٹ فرینڈلی‘ یعنی ماحول دوست بھی کہا جا رہا ہے

لداخ کا علاقہ سطحِ سمندر سے گیارہ ہزار فٹ یعنی 3350 بلندی پر واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کے بلند ترین خطوں میں کیا جاتا ہے

بھارتی کنٹرول کے لداخ کا رقبہ تقریباً ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی محض تین لاکھ ہے۔ نوے فی صد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ یہاں گندم، جو اور مختلف قسم کے پھل پیدا ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں بکریاں بھی پالی جاتی ہیں، جن سے حاصل ہونے والی اون کشمینہ کہلاتی ہے، جو مہنگی ترین اون میں شمار ہوتی ہے

ٹورنامنٹ لداخ کے صدر مقام لیہہ میں ہو رہا ہے۔ اس شہر کی آبادی تیس ہزار سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے ہمالیہ کے دامن میں واقع یہ ایک صحرائی شہر ہے۔ جب ہوا چلتی ہے تو ریت اڑنے لگتی ہے اور فٹبال کے اس گراؤنڈ کو، جہاں مصنوعی گھاس بچھائی گئی ہے، ریت کی تہہ ڈھانپ دیتی ہے، جسے صاف کرنا پڑتا ہے

آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرانی ہوگی کہ یہ ایک انتہائی سرد صحرائی شہر ہے۔ یہاں دوپہر میں درجہ حرارت صفر کے قریب ہوتا ہے، اور رات کو صفر سے 30 درجے نیچے تک گر جاتا ہے۔ چونکہ یہاں کی فضا صاف ستھری اور بہت لطیف ہے، اس لیے سورج کی کرنیں بلا روک ٹوک آتی ہیں، جس سے دھوپ چبھتی ہوئی سی محسوس ہوتی ہے۔ پہاڑی مقامات کے برعکس یہاں بارش کا سالانہ تناسب چار انچ سے بھی کم ہے

لیہہ میں فٹبال ٹورنامنٹ کرانے والے منتظمین ، نہ صرف وہاں فٹبال کو فروغ دینا چاہتے ہیں بلکہ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ لداخ کے لوگوں کو آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات سے بھی آگاہی دی جائے تاکہ وہ اس عالمی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کر سکیں

منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ اس علاقے کا پہلا ٹورنامنٹ ہے، جس میں چار ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ ان ٹیموں کے کھلاڑی جب دنیا کے سب سے بلند فٹبال گراؤنڈ میں پریکٹس کے لیے اترے تو انہیں ایک مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ چند قدم بھاگتے ہی ان کا سانس پھول جاتا تھا اور وہ بیٹھ کر ہاپنے لگتے تھے۔ اس کی وجہ کا ذکر ہم ابتدا ہی میں کر چکے ہیں یعنی بلندی کی وجہ سے ہوا میں آکسیجن کی کمی، جس میں کھلینے کا انہیں تجربہ نہیں تھا۔ تاہم دو تین روز میں ان کے اندر لیہہ کے ماحول سے کچھ مطابقت پیدا ہو گئی اور وہ کھیلنے کے قابل ہو گئے

اگرچہ یہ لداخ میں کرایا جانے والا اولین فٹ بال ٹورنامنٹ ہے اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت منفرد بھی، لیکن اس کے باوجود ان مقابلوں کی بڑے پیمانے پر تشہیر نہیں کی گئی اور قصبے میں چند ہی پوسٹر وغیرہ لگائے گئے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کم آبادی والے قصبوں کی طرح یہاں بھی خبر ایک شخص سے دوسرے اور پھر تیسرے سے ہوتی ہوئی سبھی تک پہنچ ہی جاتی ہے، تاہم اس ٹورنامنٹ سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر مہم چلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی اور یوٹیوب پر مقابلے براہ راست دکھانے کا بندوبست بھی کیا گیا

اس ٹورنامنٹ کے ماحول دوست پہلو کو ابھارنے پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ کھلاڑیوں کو گراؤنڈ میں لانے لے جانے کے لیے الیکٹرک ٹرانسپورٹ استعمال کی جا رہی ہے۔ شائقین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کوئی ایسی چیز نہ لائیں، جس میں پلاسٹک کا استعمال ہو۔ یہاں تک کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی لانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ میچ کے مقام پر چپس کھانے اور سوڈا پینے کی ممانعت کرتے ہوئے مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ مقامی طور پر اگنے والے پھل اور گھر میں بنائی گئی خالص اور صحت بخش چیزیں کھائیں

میچ کے ایک مقامی منتظم تاشی گیالسن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ”ہمارا مقصد صرف فٹبال کے مقابلے کرانا ہی نہیں ہے بلکہ لوگوں کو ماحول کو درپیش خطرے سے آگاہ کرنا اور مقابلے کے لیے تیار کرنا بھی ہے۔ ہم نے ماحول کو آلودگی اور گلوبل وارمنگ کے خطرات سے بچانے کی عاجزانہ ابتدا کر دی ہے۔ ہم اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے پُرعزم ہیں۔“

ہمالیہ کے اس خطے کو علاقائی تنازعات اور آب و ہوا کے شدید اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سیاچن کے بلند و بالا گلیشیرز پر پاکستان اور بھارت کی فوجیں صف آرا ہیں، جس سے برفانی تہوں پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ لداخ ہی کے علاقے میں چین اور بھارت کی فوجیں بھی آمنے سامنے ہیں۔ بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حمل یہاں کے قدرتی ماحول کو منفی طور پر متاثر کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت بھی اپنے نقش ثبت کر رہا ہے، جس سے دو ارب انسانوں کے لیے بقا کے خطرات بڑھ رہے ہیں

ہمالیہ کے اس علاقے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ ایسے گلیشیئرز اور برفانی تہیں موجود ہیں، جن کا رقبہ آدھے کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہاں سے نکلنے والے دریا ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی کی پانی اور آبپاشی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ لیکن حال ہی جاری کی گئی ماحولیاتی رپورٹس کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کا باعث بن رہی ہے

گلوبل وارمنگ کے اثرات اور گلیشیئرز پر انسانی نقل و حرکت میں اضافے نے برف پگھلنے کی رفتار میں اضافہ کر دیا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر سیلاب آ رہے ہیں اور خطے میں موسموں کی شدت بڑھ رہی ہے

گلیشیئرز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ لداخ کے خطے میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار 1971 سے 1999 کی مدت کے مقابلے میں 1999 سے 2021 کے عرصے میں چھ گنا زیادہ رہی، جو خطرے کی گھنٹی ہے

اس سے پہلے کہ پہاڑوں کی چوٹیاں چاندی جیسی اجلی برف سے خالی ہو جائیں، لیہہ میں ہونے والے فٹ بال کے ٹورنامنٹ سمیت، ہر علاقے میں، ہر سطح پر، ہر انداز میں لوگوں میں اس خطرے کا شعور پیدا کرنا اور انہیں اپنی بقا کے لیے اقدامات پر تیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close