دو کوڑی کی عورت (تیونسی ادب سے منتخب افسانہ)

حیات بن الشیخ (مترجم: فوزیہ مقبول)

اس نے جب مجھے پہلی بار دیکھا، توصیفی نظروں سے دیکھا۔ اس نے کہا کہ میں خوش طبع اور دل کش ہوں۔

جب وہ مجھ سے ہم کلام ہوا تو کہنے لگا کہ میں ترغیب دلانے والی اور کمال کی عورت ہوں۔

جب اس نے میرا بوسہ لینے کے لیے اپنے ہاتھوں کو میرے شانوں پہ رکھنے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ میں پیچیدہ مزاج کی مالک ہوں، اس لیے کہ میں نے اس وقت اس کے ہاتھ خود سے دور جھٹک دیئے تھے اور اسے بوسہ لینے سے منع کر دیا تھا۔

جب اس نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور میں نے انکار کر دیا تو اس نے کہا کہ میں عجیب ہوں۔

جب میں اس کے پاس سے واپس آئی تو اس کی برا بھلا کہنے کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔ وہ مجھے ایک مغرور اور سر پھری لڑکی کے القابات سے نواز رہا تھا۔

میں وہاں سے شراب کے پیالے اور سگریٹ کی تلاش میں بھاگ کھڑی ہوئی تھی اس لیے کہ میری ناکامی اور بد حالی کے سٹ پٹا دینے والے سوالات میرے دماغ میں گونج رہے تھے!

میں نے جیسے ہی شراب کا جام پینا شروع کیا، میں نے خود کلامی کی کہ شاید یہ سچ ہی ہو کہ میں عجیب ہوں۔۔ میں عجیب کیوں ہوں؟ مجھے بالکل بھی علم نہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میں تمہارے علاوہ کسی کو بھی نہ چاہ سکی اور نہ ہی تمھیں بھلا سکی۔

شراب کے دوسرے جام کے ساتھ ہی مجھے محسوس ہوا کہ میں عجیب نہیں بس اڑیل ہوں اور ایک ہوش شیرنی کی طرح ہوں، جسے کسی جسمانی سرگرمی میں ملوث ہونے کی شدید ضرورت ہے۔

تیسرے جام تک میں اس بات سے بخوبی آگاہ ہو چکی تھی کہ میں ایک بے مثال عورت ہوں، ایک با کمال عورت۔۔ میں کیسے با کمال ہوں؟ اس بات کو چھوڑو۔ میں باکمال ہوں اور جتنے بھی مردوں کو میں جانتی ہوں، وہ سب کے سب بے وقوف اور احمق ہیں۔ وہ مجھے سمجھ ہی نہ پائے۔

میں نے قہقہہ لگایا۔۔۔۔ میں اس لیے نہیں ہنس رہی تھی کہ وہ بے وقوف اور احمق تھے، اس بات کا تو مجھے ہمیشہ سے علم تھا۔ میں اس لیے ہنس رہی تھی کیوں کہ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ میں غیر معمولی ہوں۔۔۔۔

چوتھے جام تک میری سوچوں نے میرے ذہن میں جنگ آرائی شروع کر دی۔مبینہ سچائیوں نے میری آنکھوں کے سامنے جمع ہو کر ایک ہجوم کی شکل اختیار کر لی۔ میں نے اپنی آنکھیں بھینچنے کی کوشش کی تا کہ میں ان آنکھوں کے سامنے چمکتی ہوئی، خبردار کرنے والی سرخ بتی کو نہ دیکھ سکوں۔

میں ابھی مزید دریافت کے مرحلے میں تھی کہ میں ایک باکمال عورت نہیں ہوں، بے مثال عورت بھی نہیں ہوں۔میں ایک بے وقوف عورت نہیں ہوں، ایک ناکام عورت، ایک مایوس کن عورت۔۔ مجھے یہ پتہ ہی نہ تھا کہ مجھے کیسے جینا ہے یا کیا کرنا ہے۔ بس یہ کہ میں پاگل پن کی حد کو چھو رہی تھی۔ یہ ایک سادہ سی سچائی تھی جسے میں نے سال ہا سال سے نہ دیکھنے کی کوشش کی تھی۔۔ آخر کار وہ آج مجھ پہ منکشف ہو گئی تھی۔

پانچویں جام تک میں اس بات کی قائل ہو چکی تھی کہ جب تک میں تم سے محبت کرتی رہی، تمہارے علاوہ کسی بھی اور چیز کو اہمیت نہ دے سکی۔ اس لیے کہ تمہارے لیے میری محبت نے میری زندگی کی تمام معقولیات کو تباہ کر دیا۔تمہاری چاہ میرے نام پہ اور میری زندگی کی تمام بہترین چیزوں پہ ایک تہمت تھی۔

میں نے گلاس کو پھینک کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور بھاری قدموں کے ساتھ اپنی ناکام زندگی، جس کے بارے میں میں جان چکی تھی کہ یہ خاک بھی نہیں۔ روتے ہوئے اپنے گھر کے اندھیروں کی جانب روانہ ہو گئی۔ میں پتلی راہداریوں میں دیواروں پہ لحاف اور تکیے پر ذبح ہو جانے والے پرندے کے سینے پہ جمے ہوئے خون سے بھی زیادہ گہرے سرخ رنگ سے لکھے ہوئے ان الفاظ کو دیکھ سکتی تھی۔۔۔ دو کوڑی کی عورت۔۔۔۔!

میں ان الفاظ کے اثرات کو زیادہ دیر برداشت نہ کر سکی، اس لیے میں نے تکیہ اور لحاف، کاغذات اور کتابیں فرش پہ پھینک دیں اور ان سب کو اپنے قدموں تلی روندتی رہی۔

پھر میں شراب کی تلاش میں نکلی جو مجھے بتا سکے کہ میں ایک باکمال عورت ہوں اور عجیب یا بے وقوف ہر گز نہیں ہوں، مگر مجھے شراب نہ ملی۔ ذبح کیے گئے پرندے کے سینے پہ جمے ہوئے خون سے بھی زیادہ گہرے سرخ رنگ میں لکھے ہوئے الفاظ میری آنکھوں کے سامنے ناچتے رہے۔ میں نے گھر کے کونے کونے میں لکھا دیکھا۔۔۔دو کوڑی کی عورت۔۔۔ پس میں ان نفرت آمیز الفاظ اور ان کی مستقل گونج، جو میرے دماغ کو دو لخت کر رہی تھی، کی وجہ سے گھر سے بھاگ نکلی۔۔

میں نے ایک سنسان گلی میں اپنی برہمی پر سوچتے ہوئے، اپنی ہچکچاہٹ کو باہر نکالتے ہوئے، اپنی ناکامی اور نا امیدی کے جام پہ جام چڑھاتے ہوئے ٹہلنا شروع کر دیا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چاند کی چاندنی نے میری آنکھوں کو چندھیا دیا۔ میں بالکل ساکت کھڑی تھی۔ چاند کی جانب تکتے تکتے میں نے خود سے پوچھا ”میرے پاس چاند کیوں نہیں ہے؟ مجھے چاند چاہئیے۔ میں اس تک کیسے رسائی حاصل کر سکتی؟ اگر میں اس تک پہنچنے کی کوشش کروں تو کیا میں اس تک پہنچ پاؤں گی؟“ میں نے قہقہے لگانا شروع کر دیئے اور اس بات کو تسلیم کر لیا کہ میں ایک نادان اور بے وقوف عورت ہوں۔ چاند میں بھلا ایسا کیا ہے، جس کی میں خواہش کروں! چاند بہت فاصلے سے اپنی روشنی تو پھیلا رہا ہے لیکن درحقیقت وہ محض ایک سخت چٹان کے سوا کچھ نہیں۔۔ ایسی چٹان، جس پہ برف جمی ہوئی ہے۔۔ برف، جس سے مجھے نفرت ہے۔۔ چاند نے اپنی خالص روشنی سے ہمیں دھوکا دیا، بہت زیادہ فاصلے نے اس کی اصل حقیقت پہ پردہ ڈال دیا۔ اسی لیے تو یہ ہمارے جیسی بے وقوف لڑکیوں کو، جو ایسی لغویت کی قائل ہیں، اپنی جانب کھینچتا ہے۔۔

ایک دفعہ پھر میں نے اپنی برہمی، اپنی ہچکچاہٹ کو باہر نکال پھینکنے کے لیے اور اپنی ناکامی اور ناامیدی کو گھونٹ گھونٹ کر کے پیتے ہوئے، سوچنا شروع کر دیا۔

مجھے یاد آیا کہ جب ایک معصوم اور ننھی منی بچی تھی، تب میں سورج کی خواہش کرتی تھی۔ میری ماں جب بھی مجھے گھنٹوں تک سورج کو تکتا پاتی، یہاں تک کہ میری آنکھیں اس کی شعاعوں سے سرخ اور میرا جسم اس کی حرارت کی وجہ سے پسینے سے شرابور ہو جاتا، تو وہ میری خوب پٹائی کرتی تھی۔ میرے والد مجھے مسلسل ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوئے کہتے کہ ’اگر تم نے سورج کی طرف دیکھنا نہ چھوڑا تو وہ ایک دن تمہارے سر پہ گر جائے گا، تمہیں جلا ڈالے گا اور ہڈیوں کا ایک ڈھیر بنا دے گا۔‘ پر میں ہنستی ہی جاتی اور ان کی کہی گئی تمام باتوں کا مذاق بناتی میں اپنی اکڑ میں اچھلتی کودتی پھرتی۔ میں نے اپنی ماں کا ایک ہار توڑ دیا اور اس کے موتی ایک ایک کر کے سورج کی طرف پھینکتی رہی تا کہ میں اسے چوٹ لگا سکوں۔ میں نے یہ عمل جاری رکھا یہاں تک کہ اس کی جلتی ہوئی شعاعوں نے مجھے تقریباً اندھا کر دیا، میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب آ گیا، سورج کی حرارت سے میرے سر کا درد بڑھتا ہی چلا گیا۔ چوری کے ہار کے موتی ادھر ادھر بکھرتے رہے۔ تب میں نے آسمان کی جانب دیکھا، سورج چاند اور اپنی سوچوں کو لعن طعن کرتے ہوئے، لغویت اور پاگل پن کے دو کناروں کے بیچ ڈولتے ہوئے میں نے ایک زور دار چیخ ماری۔

مجھے اب یہ یقین تھا کہ چاہے جو کچھ بھی ہو چکا یا ہوگا، مجھے تمہاری تمنا ہے، کسی اور کی نہیں۔۔ صرف اور صرف تمہاری۔۔ اندھیرے کے پردے سے تمہارا روشن چہرہ نمو دار ہوا۔۔۔ دل کش، خوب صورت اور پیارا۔۔ بالکل ویسا، جیسا میں نے دیکھا تھا یا جس سے میں نے محبت کی تھی۔ میں نے تمہاری آنکھوں کو ہمیشہ حیرت اور تحیّر سے بھرا ہوا دیکھا اور محسوس کیا کہ تمہاری آنکھوں کے سمندر میں تقریباً ڈوب ہی گئی تھی۔ مجھے لگا کہ تم چاند یا سورج سے بھی کہیں زیادہ اچھے اور پیارے ہو۔
میں جانتی تھی کہ میں نے صرف تمہیں چاہا اور تمہارے علاوہ کسی اور کو نہیں چاہا، اسی لیے تو میں بے وقوف اور نادان تھی۔ میں ایک غیر معمولی عورت ہو سکتی تھی اگر میں نے تم سے محبت نہ کی ہوتی یا تمہیں نہ چاہا ہوتا۔ سو میں نے ویسے ہی جینا شروع کر دیا، جیسے میں جی پائی۔۔ تمھارے نقش قدم پہ چلتے ہوئے، بالکل ویسے جیسے ایک وفادار کتا اپنے مالک کے پیچھے دم ہلاتا پھرتا ہے۔ مجھے یہ بھی یقین تھا کہ تم میری ہی طرح نادان، کمزور اور ناکام ہو، واشگاف لفظوں میں کچھ بھی بتانے سے قاصر ہو جو تم چاہتے ہو، کیوں کہ تم نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے اور تمہیں کس چیز کی جستجو ہے۔۔ اور غالباً یہی وجہ تھی کہ میں نے تمہاری پرستش کی۔

میں چاند، سورج اور تم سے فرار حاصل کرتے ہوئے، اپنے تھکے ہوئے قدموں کو گھسیٹتے گھسیٹتے گھر واپس چلی آئی۔ ذبح ہونے والے پرندے کے سینے پہ جمے ہوئے خون سے بھی زیادہ سرخ رنگ میں لکھے ہوئے الفاظ کو جو پتلی راہداریوں، لحاف پر اور تکیے پہ لکھے ہوئے تھے، ان کو پڑھنے سے اب میں زیادہ خوف زدہ نہیں تھی۔۔۔ دو کوڑی کی عورت۔۔۔ ہم دونوں ہی دو کوڑی کے تھے، میں اور تم۔۔ میں اب تک یہ نتیجہ نہیں نکال پائی کہ ہم دونوں میں سے وہ کون تھا، جو دوسرے کو اس حال تک لے آیا تھا۔

میں تمہاری تصویر بنانے کی کوشش کرنے کے لیے واپس آئی۔ تمہاری تصویر بنانے وقت مجھے اس بات نے حیرت میں مبتلا کر رکھا تھا کہ اگر میں تمہاری تصویر بناؤں تو تم کیسے لگو گے؟ میں نے تمہیں جسم کے بغیر تصور کیا، بغیر دل اور چہرے کے، صرف دو خوب صورت آنکھیں، ایک شہد بھرا سمندر، جس میں میں اپنی زندگی کی تمام ناکامیوں اور انتشار بھری سوچوں کو غرق کر دوں۔۔ میں اس کو اس کے قعر تک پی جاؤں، حتیٰ کہ یہ سمندر خشک ہو جائے اور۔۔۔۔۔

لیکن کیا ہو اگر میں تمہارے کی آنکھوں کے بغیر ہی تصویر بناؤں؟ جیسے چاند بغیر چاندنی کے، یا آسمان بغیر سورج اور چاند کے، یا پھولوں کے بغیر موسمِ بہار، شبنم کے بغیر گلاب، یا پھر بن پانی کے دریا۔۔ دور دراز کی پہاڑی پہ کھڑے ہوئے اس اندھے دیوتا کے بت کی طرح اور میں ایک تمہاری ٹانگوں کے بیچ سے گرنے والے ایک چھوٹے سے سنگریزے کی طرح، جسے میری مرضی کے بغیر سمندری طوفانی ہوائیں ادھر ادھر لیے پھرتی رہیں اور جو اپنے اندر کی توانائی کے باعث تیزی سے حرکت کرتا پھرے۔۔ مگر میں ہمیشہ خود کو تمہارے قدموں میں گرانے کے لیے، تمہارے قدموں کے تلووں سے لپٹی ہوئی گرد کو چومنے کے لیے واپس ضرور آتی۔

میں نے تصویر بنانے والا مو قلم فرش پہ پھینک دیا، صفحات پھاڑ ڈالے اور اپنے آپ کو بستر پر سونے کے لیے جیسے گرا دیا۔ میں نے اپنے آپ کو اس بات پہ قائل کر لیا کہ تم ایک دھوکے باز تھے، مٹی اور گارے سے بنے ہوئے کمتر خدا، جو پوجنے کے لائق نہیں تھا۔ تمہاری آنکھوں میں جو شہد ہے، وہ شہد کڑوا تھا، اس میں زہر ملا ہوا تھا۔۔ یہ ہر اس انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا، جو بھی اس کا ذائقہ چکھنے کی کوشش کرے۔۔ اور یہ کہ میں تمہیں چاہنے کے معاملے میں ضدی اور نادان تھی، ساری دنیا ہی احمق، قابلِ نفرت تھی، لوگ بے وقوف، حقیر اور الو تھے۔ ہر ایک آگ میں جلتے دس سینگ، زہر ٹپکاتی آنکھیں اور تین بڑے بڑے منہ تھے جو خود تک آنے والے ہر شخص کو کاٹ کھانے کے منتظر تھے۔

لوگ ہمیشہ کہتے تھے کہ میں بے سوچے سمجھے عمل کرنے والی ہوں اور مجھے بالکل نہیں پتہ کہ کیسے رہنا ہے۔میری خواتین دوست کہتی تھیں کہ میں مغرور ہوں اور ہچکچاہٹ کا شکار ہوں اور بالکل نہیں جانتی کہ میں کیا چاہتی ہوں۔۔ اور مرد جب مجھے دور سے دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ میں اچھی اور باکمال ہوں، لیکن جب وہ میرے قریب آتے تو وہ کہتے کہ میں عجیب و غریب ہوں اور تم۔۔۔ مجھے ہمیشہ کہتے تھے کہ میں ضدی اور سرپھری ہوں۔ مجھے پتہ تھا کہ تم ایسا کیوں کہتے تھے، اس لیے کہ میں نے تم سے محبت کی، تمہیں چاہا۔ میں ابھی تک سمجھ نہیں پائی کہ میں کیا ہوں۔ جو میں جان پائی، وہ یہ تھا کہ میں ایک ناکام عورت ہوں، ایک مایوس کن عورت اور دو کوڑی کی عورت ہوں۔۔ ایک ایسی عورت، جو اپنی تلاش میں ہے، جس نے ابھی تک خود کو دریافت نہیں کیا کہ وہ کیا ہے۔۔۔
شاید میں اپنے آپ کو پا لوں۔۔ ہاں اگر میں تمہیں کبھی بھول سکوں تو شاید۔۔۔۔۔۔

English Title : A Worthless Woman
Written by:
Hayat Bin al-Shaykh

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close