کوہ باران ـ انسانی اور حیوانی زندگی، ماحولیاتی اور تہذیبی تباہی

حفیظ بلوچ

کھیرتھر نیشنل پارک کے ایریاز کرچات، ٹِکَو باران اور تونگ میں وبائی مرض سے سیکڑوں جنگلی حیاتیات مر چکی ہیں، کھیرتھر نیشنل پارک تھدو، مول، سَری، تھانہ بولاخان کے کوہستان میں ہزاروں ایکڑ زمینیں ملک ریاض جیسے بلڈر مافیا قبضہ مافیاز ہڑپ رہے ہیں اور سب چپ ہیں۔

کھیرتھر نیشنل پارک، سندھ کا قومی اثاثہ ہے۔ جب قوموں کے اثاثے برائے فروخت ہوں اور قوم خاموش تماشائی بن جائے تو ان کے مقدر میں سوائے بربادی کے کچھ نہیں ہوتا، کارونجھر سے کینجھر اور کینجھر سے کھیرتھر سب کچھ تو نیلام ہو رہا ہے، اور ہم سیاسی فرقوں میں مذہبی فرقوں میں بٹے بس ایشوز کو دیکھتے ہیں۔ شاید ہماری سوچنے سمجھنے اور دیکھنے کا کینوس بہت چھوٹا اور قریب کا ہے۔

کراچی کے ساحل سندھ کے داخلے کے دروازے ہیں، یہیں سے ملیر اور اس سے جڑا کھیرتھر کا کوہستان ہے، کھیرتھر نیشنل پارک ہے۔ آج ہم سب کو نظر آ رہا ہے کہ سندھ کو تقسیم کرنے کی تیاری ہو رہی ہے مگر یہ ہمارے سندھ کے اہل دانش اور اہل سیاست کو نہیں دکھائی دے رہا۔ل، نہ ہی انہیں سمجھ میں آ رہا ہے۔ یہ سب کچھ جو کوہستان میں ہو رہا ہے ایسے تو نہیں ہو رہا، کراچی سے لے کر حیدرآباد، کینجھر سے جھرک تک اور وہاں سے لے کر پوری سمندری پٹی تک سب کچھ نیلام ہو رہا ہے ـ یہاں تک کہ اب کوہستان کے جنگلی حیاتیات بھی مر رہی ہے اور وہ بھی سیکڑوں کی تعداد میں۔۔۔ کون اس کی ذمہ داری لے گا اور جن کی زمہ داری ہے ان کی حفاظت کرنا وائیلڈ لائیف ڈیپارٹمنٹ ہو کہ اور ادارے، سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اورکوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں

وہاں کے انڈیجینئس لوگ چیخ رہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں کہہ رہے ہیں کہ خدارا کچھ کریں یہ جنگلی حیاتیات جن میں جنگلی ہرن، اڑیال انڈس آئی بیکس سمیت دوسرے جاندار شامل ہیں، کھیرتھر کی شان ہیں ہمارے اثاثے ہیں ـ یہاں کئی سوال اٹھتے ہیں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے یا صرف ایک وبائی مرض؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے ان کی پناہگاہ اور ان کا مسکن بلڈر مافیا نے چھین لیا ہے

سوال یہ ہے کہ دھرتی کو بیچا جا رہا ہے، کون بیچ رہا ہے، ایک تہذیب کو تباہ کیا جا رہا ہے، پہاڑوں کو کاٹ جا رہا ہے، ندیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، کون کر رہا ہے؟ نہ کوئی قانون ہے، نہ کوئی عدالت ، نہ شنوائی، نہ انصاف۔۔ سندھ دھرتی کو یوں پامال کیا جا رہا ہے۔۔ کس کے ایما پر اور سوال یہ بھی ہے کہ اس پہ بات کیوں نہیں ہو رہی؟

کھیرتھر نیشنل پارک، جسے کوہِ باران بھی کہا جاتا ہے، آج سرمایہ داروں کے گھیرے میں ہے، جنگلات کاٹے جا رہے ہیں، جنگلی حیاتیات ماری جا رہی ہیں، وبا سے مر رہی ہیں۔ وہاں کے انڈیجینئس لوگ آج بےیقینی عدم تحفظ کا شکار ہیں یہ سب اتفاق سے نہیں ہو رہا، اس کے پیچھے سازش ہے، سرمایہ ہے ریاست ہے. سردار ہیں، وڈیرے ہیں اور ہم سب ہیں ، کیونکہ ہم خاموش ہیں اور اس ظلم کو دیکھ کر بھی اپنے لب نہیں کھولتے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close