سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط49)

شہزاد احمد حمید

سندھو سرگوشی میں بتا رہا ہے؛ ”بھنگی خیل کے ’بنی افغاناں‘ رقبے جو پہاڑی نالوں کی وجہ سے اکثر ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتے ہیں، بہت زیادہ محنت اور محافظت چاہتے ہیں لیکن جہاں ان نالوں اور میرا پانی مضبوط پشتے باندھ کر ہموار زمینوں پر پھیلا دیا جاتا ہے، وہاں کی لہلہاتی فصلوں اور پھلوں سے لدے باغات پر نہری نو آبادیاتی زمینیں بھی رشک کرتی ہیں۔ ان کی ایک مثال کالاباغ کے جنت نگاہ سرسبز و شاداب باغات ہیں، جو میرے کنارے مضبوط پشتے باندھ کر اور سیلابی پانی روک کر اگائے گئے ہیں۔ ہاں جہاں پانی نہیں پہنچ سکتا وہاں زراعت کا دارومدار محض غیر یقینی بارش پر ہے۔ بارش کے بنا تو یہاں کسان اپنے مویشیوں کے لئے چارہ تک نہیں اگا سکتا ہے۔ کبھی خشک سالی کا سامنا ہو اور اللہ اللہ کرکے بارش برس جائے تو بارش کے منتظر کسان بعض دفعہ ہل جوتنے کے لئے اپنے فاقہ زدہ بیل بھی کھو چکا ہوتا ہے۔ یہ ہے قدرت کا بندوبست میرے دوست۔ بارش اور پانی زندگی ہے۔ نہ برسے تو خشک سالی، فاقہ مستی اور موت۔“

مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ ایک بار میں بہت چھوٹی عمر میں اپنے والد مرحوم کے ساتھ کالا باغ آیا ہوا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھو میں اسٹیمر چلا کرتے تھے۔ (والد صاحب کی پوسٹنگ ان دنوں کندیاں چشمہ رائیٹ کنال پراجیکٹ پر تھی)۔ یہ اسٹیمر دو منزلہ ہوا کرتے تھے۔ مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ایک روپیہ فی سواری کے حساب سے لاتے لے جاتے تھے۔ مسافر اس کرائے میں اپنے سازو سامان کے علاوہ بھیڑ بکریاں بھی سوار کر لیتے تھے۔ مجھے ابھی بھی دھندلا سا یاد ہے کہ میرے والد نے مجھے ایک بار ایسے ہی اسٹیمر میں سندھو کی سیر کروائی تھی۔ میں ان کی گود میں بیٹھا تھا۔ فرق یہ تھا کہ وہ اسٹیمر کمپنی کا تھا اور اس میں کچھ گورے بھی سوار تھے۔

ان یادوں نے دل بوجھل کر دیا ہے میں دوستوں کی محفل میں واپس چلا آیا ہوں۔ رات کافی بیت چکی ہے۔آسمان پر چمکتا چاند اور ستارے رات کا کافی سفر طے کر چکے ہیں۔

کالا باغ کی سفید کوٹھی ’بوڑھ بنگلہ‘ سندھو کنارے، رومانس کے لئے اس سے بہتر جگہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے صحن میں ایک سو پچاس (150) سال سے زیادہ پرانا برگد کا درخت بوڑھ بنگلہ کے نام کی نسبت ہے۔ یہاں نواب صاحب کی بیٹھک منعقد ہوتی تھی۔ اس کے پیچھے اصطبل اور مہمان خانہ ہے۔ بھورے رنگ کے پتھر سے تعمیر کردہ مہمان خانے کی عمارت پرشکوہ ہے۔ اس مہمان خانے آنے والے مہمانوں میں ملکہ الزبتھ، جواہر لال نہرو، ذولفقار علی بھٹو، پرویز مشرف، نین اور میں شامل ہیں۔ یہاں سے بہتے سندھو اور قریبی پہاڑوں کا منظر دلفریب ہے۔ میرے سامنے سندھو کی سطح پر تیرتی چند کشتیوں نے یہ منظر دوبالا کردیا ہے۔ نین، باس اور میں بھی یہاں کشتی کی سیر سے لطف اٹھا چکے ہیں۔

سندھو کنارے کانوں سے نکالا جانے والا سفید اور گلابی نمک دنیا کا خالص ترین نمک ہے۔ کالاباغ کا ریلوے اسٹیشن ویران اور اجاڑ جگہ ہے۔ اس کی تباہ حال پٹری ریلوے کی نالائقی اور حکومت کی بے حسی کا نوحہ سناتی ہے۔ جناح بیراج یہاں سے دور نہیں۔ اس بیراج نے بنجر صحرائے تھل کو زرخیزی میں بدل دیا ہے۔

”ہاں! تم تو بھول گئے ہو لیکن مجھے یاد ہے۔“ سندھو کہنے لگا، ”کالاباغ سے ذرا آگے مجھ پر تعمیر کردہ سو سال سے زیادہ پرانا اسٹیل برج کالا باغ کو ’ماڑی انڈس‘ سے ملاتا ہے۔ اس پل پر دیار کی لکڑی کے تختے بچھے ہیں جن سے گزرتی گاڑی کی چر چر اور نیچے بہتے سندھو کا شور دل دھلا دیتا ہے۔ چھوٹی گیج (اڑھائی فٹ) کی ریل پٹری خیبر پختون خوا کے شہر بنوں اور ٹانک کو ملاتی ہے۔“

مجھے یاد آیا ماڑی انڈس نامی ریل گاڑی کندیاں سے لاہور کے درمیان چلتی تھی۔ کئی بار میں نے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ اس ریل گاڑی پر سفر کیا تھا۔ ماڑی تاریخی اور قدیم جگہ ہے۔ کبھی یہاں کئی مندر تھے جن کے کھنڈر قدیم زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ سکندر اعظم بھی یہاں رکا اور ایک خیال کے مطابق چندر گپت موریا کا جنم بھی ماڑی کے قریبی گاؤں ’پپلاں‘ میں ہوا تھا۔ اس گاؤں کی ایک جانب سے سندھو بہتا ہے تو ’سلاگر‘ کا پہاڑی سلسلہ دوسری طرف ہے۔ سلاگر کے معنی ہیں ’مسلسل یا لگاتار‘۔ مقامی روایت کے مطابق کیونکہ اس پہاڑ کی ڈھلوان بتدریج بڑھتی ہے لہٰذا سلاگر کہلاتا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر کچھ قبروں کے بارے مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی ہیں لیکن یہ صرف خیال ہی ہے۔ صحابہ کرام ؓ کی قبروں کا یہاں ہونا تاریخی حوالے سے ممکن نہیں ہے۔

ماڑی کا ریلوے اسٹیشن 1891؁ء میں تعمیر ہوا۔یہاں سے ریل بنوں اور ٹانک تک جاتی ہے۔ اس پرسکون اسٹیشن کی خاموشی ریل کی کوک ہی توڑتی ہے۔ ناشتے سے فارغ ہوئے سامان جیپوں میں پہلے ہی رکھا جا چکا ہے۔ میانوالی سے گزرتے کلور کوٹ (بھکر) سے ہوتے لیہ جانے کو تیار ہیں۔ دن کا پہلا پہر گزر گیا ہے۔ سورج کی تمازت آج صبح سے ہی کافی ہے۔ یکایک آسمان پر بادل چھانے لگے ہیں۔ ہوا بھی ٹھنڈی محسوس ہونے لگی ہے۔ سورج کی تپش بھی کم پڑ گئی ہے۔ میرے ماتھے، سر اور گردن پر آیا پسینہ خشک ہونے لگا ہے۔ میری کمر پر رینگتے پسینے کے قطرے غائب ہو گئے ہیں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پتوں کی تالیاں بجنے لگی ہیں شاخیں ایک دوسرے سے الجھ رہی ہیں۔ درخت اور پودے ہوا کی موسیقی پر ناچنے لگے ہیں۔ آسمان پر اُمڈتے بادلوں نے ہر طرف سائے کا خیمہ تن دیا ہے۔ جون کے مہینے میں موسم کا اس طرح سے خوشگوار ہو جانا وہ بھی میانوالی جیسے گرم علاقے میں کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

کالاباغ سے آگے سندھو ایک نرالی شان سے بہتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں اس کے ایک کنارے سے دوسرا کنارا نظر نہیں آتا ہے جبکہ موسم سرما میں یہ تنگ دھاروں کی بھول بھلیوں میں بہتا ہے۔ سردیوں میں دریا میں چھوٹے چھوٹے ریت کے جزیرے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ سندھو کے کنارے اس مقام پر کھڑا میں ہمالیہ کی عظمت کا قائل ہو گیا ہوں۔ سندھو کے حجم کو دیکھ کر ہمالیہ کی وسعت اور بلندی پر حیران ہونا بنتا نہیں۔ سب سے بڑی بات میری نظر میں یہ ہے کہ سندھو کا احترام اور عظمت مجھ پر واجب ہے کہ وہ دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع، خطرناک اور دلچسپ ترین علاقے سے اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 10 ہزار ندی، نالے، چشمے، چھوٹے بڑے دریا اس میں اترتے اسے سلام کرتے پانی مہیا کرتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں سندھو میں کمال نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ صبح کے وقت سندھو کے کنارے ہلکی سی دھند چھائی رہتی ہے اور اس دھند میں سر اٹھائے کھجور اور دوسرے اونچے درخت منظر کو سحر انگیز کر دیتے ہیں۔ کہیں کہیں گوالے پانی میں ہلورے کھاتے دریا کے آر پار آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آبادیوں میں مختلف قوموں اور نسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ ان کے رنگ، رسم و رواج، تمدن، پیشوں اور رہن سہن میں فرق ہے لیکن لباس سبھی کا ڈھیلا ڈھالا ہی ہے۔ مرد زیادہ تر ڈاڑھی رکھتے اور بالوں پر خضاب لگاتے ہیں۔ قد لمبے اور رنگ سانولے ہیں۔ یہی حال عورتوں کا بھی ہے۔ سانولا رنگ، گداز پر کشش جسم، قد لمبے۔ اکثر پاؤں سے ننگے۔ مہمان نواز بھی اور جرائم پیشہ بھی۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close