بلوچستان: پاک۔ایران سرحد پر تجارت کی بندش کے خلاف افراد کا احتجاج

ویب ڈیسک

پاک-ایران سرحد سے ملحقہ علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کے خلاف نیشنل پارٹی، حق دو تحریک اور دیگر جماعتوں کے کارکنوں اور حامیوں سمیت لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ’بارڈر بچاؤ تحریک‘ کے عنوان سے احتجاجی ریلی میں شرکت کی اور تربت شہر میں دھرنا دیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا تھا

تربت شہر میں پارٹی رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا کر مختلف سڑکوں اور گلیوں میں مارچ کیا، جن پر ان کے مطالبات درج تھے، نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کی قیادت میں شرکاء نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی

مارچ کے بعد مظاہرین نے تربت شہر کی مرکزی سڑک پر دھرنا دیا، جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکاء سے خطاب کیا، انہوں نے تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کی شدید مذمت کی، جسے حکومت نے اسمگلنگ کے خلاف اقدام کے طور پر جائز قرار دیا ہے

احتجاجی ریلی اور جلسہ عام میں سخت الفاظ میں قرارداد منظور کی گئی، قرار داد میں انہوں نے پابندی کو ’بلوچستان کے عوام کے خلاف سازش‘ قرار دیا۔

جلسہ دھرنا اور ریلی کی قرارداد میں کہا گیا ”آج کا یہ احتجاجی جلسہ بلوچستان کے سرحدوں پر ہونے والے تجارتی سرگرمیوں پر حکومت پاکستان کی جانب سے عائد پابندی کو بلوچستان کے عوام کے خلاف ایک سازش تصور کرتے ہوئے اس کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتا ہے۔“

قرارداد میں کہا گیا کہ بلوچستان کے بارڈز سے ہونے والی تیل سپلائی کو اسمگلنگ کا نام دے کر حقائق سے چشم پوشی کی جارہی ہے سرحدی تجارت ہمارے عوام کی قومی ضرورت ہے، جس سے ہزاروں لوگ برسر روزگار ہیں

قرارداد میں کہا گیا ہے ”بلوچستان بارڈر پر کام کرنے والے تمام ٹرانسپورٹ ایف سی اور انتظامیہ کے پاس رجسٹرڈ ہیں اور انتظامیہ کی اجازت سے بارڈر جاتے رہتے تھے۔ انتظامیہ کے رجسٹریشن کے بعد لوگوں نے ہزاروں گاڑیاں اس لیے خریدیں کہ یہ ایک قانونی کام ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ریاست نے اچانک اپنی پوزیشن تبدیل کر دی اور ایک قانونی کام کو غیر قانونی قرار دے کر بند کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئی، جس سے بلوچستان کے لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں“

احتجاج کرنے والی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومت کے موقف میں اچانک تبدیلی کی مذمت کی، جس کے تحت ایرانی تیل اور دیگر اشیاء کی قانونی سپلائی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے

قرار داد میں مزید کہا گیا ہے ”آج کا یہ جلسہ حکومتی کی بارڈر بندش پالیسی کو رد کرتے ہوئے اس کی فوری طور پر بحالی کا مطالبہ کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان اور ایران کے سرحد پر ہونے والے تجارتی عمل کو قانونی شکل دی جائے۔“

دریں اثنا، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی۔عوامی) کے صدر میر اسد اللہ بلوچ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ لاکھوں گھرانوں کے گزر برس کا انحصار سرحدی تجارت پر ہے اور اس کی بندش کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا

انہوں نے بطور احتجاج 21 ستمبر کو پورے مکران ریجن میں ہڑتال کا بھی اعلان کیا

گزشتہ حکومت میں بطور صوبائی وزیر خدمات انجام دینے والے اسد اللہ بلوچ نے بتایا کہ نگران حکومت کا کام صاف اور شفاف انتخابات کروانا ہے، اور اس کے پاس سرحد بند کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے

ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق عوامی نمائندوں پر مشتمل منتخب حکومت کو حاصل ہے، مکران کے عوام ایسے کسی بھی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے۔

بی این پی ۔ عوامی کے رہنما نے اس عمل کو خوفناک اور متعصبانہ قرار دیا، جس سے صوبے میں صرف انارکی آئے گی۔

دوسری جانب نیشنل پارٹی کے مرکزی سکریٹری جان محمد بلیدی نے دھرنا و ریلی (بارڈر بچاؤ تحریک) میں بھرپور انداز میں شرکت کرنے پر آل پارٹیز کیچ میں شامل تمام سیاسی جماعتوں، تاجر برادری، ڈپو مالکان بارڈرز یونینوں اور زمباد مالکان، بلیدہ و زاعمران، کولواہ و ہوشاپ تجابان، ھیرونک، شہرک و سامی، دھشت و بلنگور، مند و تمپ ناصر آباد اور تربت کے عوام کا شکریہ ادا کیا

نیشنل پارٹی کے زیراہتمام بارڈر کی بندش کے خلاف تربت میں جلسہ عام
مختلف سیاسی جماعتوں، تربت سول سوسائٹی، پی ٹی آئی، حق دو تحریک، ٹریڈ یونین، بارڈر کمیٹی، رابطہ کمیٹی، انجمن تاجران تربت کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں نے حمایت کی تھی۔ جلسہ کے آغاز میں بلوچی زبان کے عہد ساز شاعر مبارک قاضی کی رحلت پر دو منٹ کھڑے ہوکر انہیں خاموشی کے ساتھ خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close