سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط67)

شہزاد احمد حمید

محمد الیاس انصاری جو یہاں کھدائی کے کام سے 1988ء سے وابستہ ہیں (ان کے دادا اور والد اس شہر کی ابتدائی کھدائی کرنے والوں میں شامل تھے) کہتے ہیں؛ ”کھدائی کے دوران ہمیں ہار، چھوٹے کھلونے، مورتیاں، کنگن اور دوسری اشیاء ملی ہیں۔“

اس شہر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے کھنڈرات پر تعمیر ہونے والا اسٹوپا (بدھ مت کی عبادت گاہ) آنے والے 100 سال تک یہاں ہندو نظام کے خلاف جہد و جہد کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ گو مسلمان محمد بن قاسم کی قیادت میں بہت بعد یہاں آئے اور ان کے یہاں سے چلے جانے کے تقریباً پانچ سو (500) سال بعد ہی مقامی لوگوں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا تھا۔ آج اسلام اس خطہ کا سب سے بڑا مذہب ہے گو سندھ کے کچھ اضلاع میں آباد ہندو مذہبی آزادی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

دریاؤں کے کنارے آباد شہر اور بستیاں 2 ہزار سال پہلے ہم سے بچھڑنے لگے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ ان بستیوں کے اجڑنے کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ کچھ کے نزدیک پہاڑوں سے میدانوں میں آنے والے ذرائع آب سوکھ گئے تھے۔ کچھ کے خیال میں جنگلات کم پڑ گئے جو میدانی بستیاں اجڑنے کا سبب بنے ہیں۔ کچھ کے نزدیک آریائی بستیوں کا دفاعی نظام کمزور تھا اور وہ خود سے زیادہ طاقت ور انسانوں کے سامنے اپنی حفاظت نہ کر سکے اور یہی کمزوری ان کے زوال کا سبب بنی۔ کچھ کے نزدیک کچھ بستیاں میرے دوست سندھو کے غصے اور طغیانی کا شکار ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں اور اگر اسی مفروضے کو سچ مان ہی لیا جائے کہ ان بستیوں کی تباہی کا سبب سندھو ہے تو میرے لئے تعجب کی بات نہیں ہے۔ کل بھی دریاؤں کے پانی اگر انسانی بستیاں اجاڑتے تھے تو صورت حال آج بھی مختلف نہیں ہے۔ ایک بات طے ہے کہ ان کی تباہی کا اصل سبب صرف سندھو ہی جانتا ہے مگر کسی کو بتاتا نہیں ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ 1700 قبل مسیح میں یہ بستی نامعلوم وجوہات کی بناء پر ختم ہو گئی۔ وادی سندھ کی اس تہذیب میں نہ تو کسی خاص مذہب کی پیروی کے آثار ملتے ہیں اور نہ ہی کسی شخصی حکومت کے شواہد۔

پروفیسر مائیکل کے مطابق؛
”یہ نظام تاجروں کے باہمی تعلقات، انسانی روابط پر مبنی تھا نہ کہ مذہبی بنیادوں پر۔ موئن جو دڑو کے خاتمہ کے 2 ہزار سال بعد بدھ ازم نے یہاں نئی روح پھونکی تھی اور اس جگہ کو اپنے مقدس مقام کے طور پر آباد کیا تھا لیکن بدھ بھکشو یہاں زیادہ دیر تک آباد نہ رہے۔ یہاں سے ملنے والے چند اسٹوپاز اُسی دور میں تعمیر ہوئے تھے۔“

یاد رہے پروفیسر مائیکل کو ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ستارہِ امتیاز اور ہلالِ امتیاز کے اعزازات سے بھی نوازا ہے۔

ہم موئن جو دڑو کے ویران اور اجڑے شہر میں اترے ہیں جبکہ تازہ اور نئی دھوپ کچھ دیر پہلے ہی یہاں اتر کر ان کھنڈر عمارتوں پر چمک رہی ہے۔ اس برباد شہر کی ایک گلی سے گزرتے مجھے کسی آریائی کی سرگوشی سنائی دی ہے ”یہ بستی تو حضرت عیسیٰؑ سے پہلے آباد تھی۔ یہاں بھی صاحب ثروت، تہذیب یافتہ اور باشعور انسان بستے تھے۔ یہ شہر تمھارے جدید شہروں سے بھی بہتر منصوبہ بندی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ سندھو کا پانی اس کی حدوں کو چھوتا گزرتا یہاں کی زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔ بستی کے تالابوں پر سیڑھیاں بنی تھیں جن سے اتر کر مستورات پانی بھرتی تھیں۔ وہ نین سے بھی زیادہ شعلہ جوان اور مستانی تھیں۔ پانی بھرتی اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے کو بیان کرتی، ماھیے گاتی، سجنوں کے قصے و لطیفے سناتی گھروں کو لوٹ جاتی تھیں۔ تم آنکھیں بند کرو اور ذرا 5 ہزار سال قبل کے زمانے میں پہنچ جاؤ۔“ میں نے آنکھیں موندیں اور نین کو ساتھ لئے ایک آنگن میں چلا آیا ہوں۔ نین نے چولی والی قمیص اور کھلا گھاگرہ پہنا ہے جبکہ میں تہمند باندھے گلے سے ننگا ہوں۔ میرے گرد کہیں چوبارے ہیں کہیں طاق اور کہیں دریچے۔ خرید و فروخت کرتے لوگ، قہوے سے لطف اندوز ہوتے امراء، بحث و مباحثہ کرتے سیانے،گلیوں اور بازاروں میں بھیڑ۔ سامنے دھندلی سی عمارت بھی نظر آ رہی ہے شاید کوئی اسٹوپا ہے یا مندر۔ پھر یہ منظر اچانک نظر سے اوجھل ہو گیا ہے بس نین،میں اور یہ اجڑی بستی ہی باقی رہ گئی ہے۔ میرا دل چاہا میں کسی دیوار، کسی آنگن، کسی گلی سے پوچھوں کہ تم کیوں اجڑ گئے تھے، کیا ہوا تھا تمھارے ساتھ، کہاں چلے گئے ہیں یہاں بسنے والے لیکن دیواروں کے کان تو ہوتے ہیں زبان نہیں۔ یہ تو کچھ نہ بولے پر نین بول پڑی ہے؛ ”کیا سوچ رہے ہو جی۔“ میں نے جواب دیا؛”سوچ رہا تھا کہ یہ بستی کیسے اجڑی کس سے پوچھوں؟“ وہ کہنے لگی؛”واہ شہزادے! کیا کبھی رازوں سے بھی پردہ اٹھا ہے؟ ان کو راز ہی رہنے دو۔ تاریخ کا ایسا راز جسے دنیا باقی عمر کھوجتی ہی رہے گی۔“ میں اس بستی کے راز جاننے کی تمنا لئے باہر کی طرف چل دیا تو مجھے لگا کہ کوئی میرے پیچھے آ رہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو میرا وہم تھا اور وہم کا کوئی علاج نہیں ہے البتہ باس کی آواز وھم نہیں تھی؛ ”میاں کہاں کھوئے ہو تم؟“

دریائے سندھ اور پنجند کے دوسرے دریاؤں کے کنارے بہت سی بستیاں دریافت ہوئیں لیکن ان میں مہر گڑھ، موئن جو دڑو اور ہڑپا بڑی اور اہم بستیاں تھیں۔ شاید ان کی حیثیت دارالحکومت کی سی تھی۔ یہاں کی طرز حکومت کے بارے زیادہ معلوم نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی شہنشاہ یا بادشاہ کا کوئی مقبرہ دریافت ہوا ہے البتہ یہاں کی اہم شخصیت ”پروہت“ کہلاتی تھی۔ ان بستیوں کی باقائدہ ایک منظم حکومت تھی۔ ان دونوں مقامات سے ملنے والی مہروں، کھلونوں، باٹوں، مجسموں، نقشے اور تجارت اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ یہاں آبادیاں، تجارت اور سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔ کوئی پارک یا تفریحی مقام بھی نہ تھا۔

ایک برطانوی ماہر آثار قدیمہ لکھتا ہے؛ ”ایک ایسی بستی کا تصور کریں جس کی گورکھ دھندے جیسی گلیاں تپتے سورج کے نیچے ہوں۔ یہ چیونٹیوں کی طرح محنتی منظم اور بھرپور معاشرہ تھا۔جسے مرکزی حکومت کنٹرول کرتی تھی۔ تفریحی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں، سارا زور مادی اشیاء اور محنت پر تھا۔ لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت تھا۔ گندم، جو، کپاس اور جوار اہم فصلیں تھیں۔ تجارت اہم پیشہ تھا۔ جو مہریں اور برتن یہاں سے ملے ہیں، ویسے ہی فارس اور میسو پویٹیمیا کے کھنڈروں سے بھی ملے ہیں۔گو وہاں مندر یا مقبرے نہیں ملے لیکن مٹی کی جو مورتیاں ملی ہیں، ان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ لوگ ہندو دیوتاؤں کے پیش رو کئی ’ہاتھوں والی دیوی‘ کی پوجا کرتے تھے۔ موئن جو دڑو سے مٹی کا بنا بڑا سا سر بھی ملا ہے جو شاید کسی پروہت کا ہے۔ اس مورت کے ہونٹ موٹے جبکہ اوپر والا ہونٹ کٹا ہوا ہے۔ غالباً یہ کوئی ظالم یا جابر شخص کی مورت ہے۔ بیلوں سے کھنچے جانے والے گڈے بھی ملے ہیں۔ اس قسم کے گڈے آج بھی پنجاب اور سندھ کے دیہاتوں میں چلتے نظر آتے ہیں۔ لوگ ہڈی، ہاتھی دانت، گھونگھوں اور پختہ مٹی کے زیور پہنتے اور شطر نج سے ملتا جلتا کھیل بھی کھیلتے تھے۔“

خیال ہے کہ جب موئن جو دڑو آ باد تھا تو سندھو اس کو چھوکر بہتا تھا۔ گو اب اس کی گزر گاہ اس کھنڈر سے تقریباً آٹھ(8) میل دور ہے۔ اس تہذیب کے شروع ہونے یا ختم ہونے کے بارے میں بہت سی باتوں کا علم نہیں ہو سکا اور شاید کبھی ہو بھی نہ سکے۔ اس بارے میں حتمی اور یقینی طور پر کبھی بھی کوئی رائے قائم نہ کی جا سکے گی۔ جو معلوم ہے وہ یہ کھنڈر ہے یا سرخ اینٹوں سے بنی عمارات ہیں یا تنگ گلیاں یا نہ پڑھی جانے والی مہریں ہیں۔ ہاں سندھو اس تہذیب اور یہاں کی ہر بات سے واقف اور ہر بات کو نہ صرف جانتا بلکہ اس کا چشم دید گواہ بھی ہے لیکن بتاتا کسی کو نہیں ہے۔ اس شہر کے تباہ ہونے کے ہزار سال بعد تعمیر کیا جانے والا بدھ دھرم کا ستر فٹ (70) بلند اسٹوپا اس کھنڈر شہر کی سب سے اونچی عمارت ہے۔ اس کی چھت سے سندھو کا چمکتا پانی نہ صرف دکھائی دیتا ہے بلکہ یہ نظارہ دلکش بھی ہے۔ موئن جو دڑو کا ایک چوتھائی حصہ ابھی بھی تیس فٹ سے زیادہ گہرے پانی میں ڈوبا ہے۔ سیم اور تھور سے ہونے والا نقصان اپنی جگہ ہے البتہ سیم اور تھور سے نجات حاصل کر کے بہت کچھ معلوم کیا جا سکتا ہے لیکن شاید یہ بھی اب ممکن نہیں ہے۔

یہاں کے باشندوں کے بارے میں یونانی مورخ ’نیرچس‘ لکھتا ہے؛ ”ہندوستانی جو لباس پہنتے ہیں، وہ پودوں سے حاصل ہونے والی کپاس سے تیار ہوتا ہے لیکن یہ کپاس دنیا میں کہیں اور پیدا ہونے والی کپاس کے مقابلے زیادہ سفید ہے اور شاید ہندوستانیوں کی کالی رنگت کی وجہ سے اور بھی سفید نظر آتی ہے۔ جسم کے نچلے حصے پر یہ چادر ڈالتے ہیں جو عموماً گھٹنوں تک لمبی ہوتی ہے۔ چادر کا ایک حصہ اپنے کندھوں پر ڈالتے ہیں اور کچھ سر پر بھی۔ کانوں میں ہاتھی دانت کی بالیاں پہنتے ہیں لیکن ایسا صرف امیر لوگ ہی کرتے ہیں۔ دھوپ سے بچنے کے لئے چھتری کا استعمال کرتے ہیں۔ پاؤں میں چمڑے کے جوتے پہنتے ہیں جس کے تلوے موٹے ہوتے ہیں۔“

چھتری کے استعمال سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس دور میں بھی یہاں کے باشندے اپنی ہم عصروں تہذیبوں سے کہیں آگے تھے۔(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close