اگرچہ مختلف معاشی، معاشرتی اور طبی وجوہات کی بنا پر دنیا بھر میں حالیہ عرصے میں مرغی اور انڈوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، لیکن اب آنے والے سالوں میں ان کی قیمتوں میں کمی کی امید کی جا رہی ہے اور اس کی وجہ ہے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ نئی مرغی
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آج دنیا بھر میں مرغی خوراک کے حصول کا ایک نسبتاً سستا اور آسان طریقہ ہے۔ تقریباً ہر ملک میں نہ صرف مرغیوں کے بڑے بڑے فارم موجود ہیں بلکہ اکثر دیہی علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر گھروں میں بھی مرغیاں پالی جاتی ہیں
لیکن دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ مرغی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ برڈ فلو کا آسان نشانہ ہے، جس سے فارموں کے فارم دنوں میں خالی ہو جاتے ہیں۔ برڈ فلو ایک خطرناک وبائی مرض ہے جو اپنی ہیت بدل کر دیگر پرندوں، جانوروں اور حتیٰ کہ انسانوں کو بھی منتقل ہو سکتا ہے
یہ خطرہ اتنا سنگین ہے کہ کسی علاقے میں برڈ فلو کے کیس رپورٹ ہونے پر وہاں کی تمام مرغیوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال کروڑوں مرغیاں احتیاطی طور پر تلف کر دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قلت ہونے سے ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے
اس سلسلے میں سائنسدانوں کی جانب سے برڈ فلو کی ویکسین کے حوالے سے مختلف تجربات کیے جاتے رہے ہیں، تاہم اب ان کا ماننا ہے کہ برڈ فلو کی ویکسین پر زرِ کثیر صرف کرنے کی بجائے مرغیوں کی ایسی نسل تیار کرنا آسان اور سستا ہے، جس میں برڈفلو وائرس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہو
یہاں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی 2020 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دینا بے محل نہ ہوگا، جس کے مطابق دنیا بھر میں مرغیوں کی تعداد تینتیس ارب سے زیادہ تھی، جب کہ 1990ع میں یہ تعداد محض ایک کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ تیس سال کی مدت میں یہ ڈرامائی اضافہ اس لیے ممکن ہو سکا، کیونکہ مرغیوں کی ایسی نسل تیار کر لی گئی تھی، جو محض پانچ ہفتوں کے بعد گوشت دینے کے قابل ہو جاتی تھی
اس وقت انڈے سے نکلنے کے چونتیس دن بعد مرغی مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیج دی جاتی ہے۔ اسی طرح انڈوں والی مرغیاں بھی نہ صرف جلد انڈے دینے شروع کر دیتی ہیں بلکہ زیادہ عرصے تک انڈے دیتی رہتی ہیں
یوں مرغیوں کی نئی نسل تیار کرنے سے مرغ بانی کی صنعت میں انقلاب آیا اور مرغی انسان کی غذائی ضروریات پوری کرنے کا ایک نسبتاً سستا اور آسان ذریعہ بن گیا
ماہرین کے مطابق چکن میں موجود ایک اہم جین اے این پی 32 اے ہے۔ یہ جین چکن کے خلیوں کو یہ بتاتا ہے کہ پروٹین کیسے بنانا ہے۔ یہی وہ جین ہے، جس پر فلو کا وائرس آسانی سے غلبہ پا لیتا ہے اور اپنی نقول تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ جین اپنی موجودہ صورت میں فلو کے وائرس کو اپنی نقول تیار کرنے میں سہولت فراہم کرتا ہے اور اس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے
واضح رہے کہ وائرس بڑھنے کا یہ طریقہ کار دیگر جانداروں سے مختلف ہے۔ وائرس کا خلیہ ٹوٹ کر دو خلیوں میں بٹ جاتا ہے، پھر دو خلیے چار خلیوں میں بدل جاتے ہیں اور چار خلیے آٹھ خلیے بنا دیتے ہیں۔ اسے سائنس کی زبان میں ’اپنی نقل تیار کرنا‘ کہتے ہیں۔ وائرس اسی طرح بڑھتے اور پھیلتے ہیں
وائرس کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اسے زندہ رہنے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کسی جاندار کے خلیے میں داخل ہو کر اس کے سہارے زندہ رہتا ہے اور اپنی نسل بڑھاتا ہے، لیکن اپنے میزبان خلیے کو بیمار کر دیتا ہے
برڈ فلو سے بچاؤ کے لیے اگرچہ ویکسینز موجود ہیں لیکن اسکاٹ لینڈ میں قائم یونیورسٹی آف ایڈمبرا کے ایک سائنسدان مائیک مک گریو کہتے ہیں کہ ایک تو یہ طریقہ بہت مہنگا پڑتا ہے اور دوسرا یہ کہ وائرس ویکسین سے بچنے کے لیے تیزی سے اپنی ہیت تبدیل کر لیتا ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مرغیوں کے جین کا ایک حصہ ایسا ہے جو برڈ فلو کے وائرس کو وہاں اپنا ٹھکانہ بنانے اور پھیلنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اگر اس کی جینیاتی طور پر اصلاح کر دی جائے تو وہ وائرس کے حملے سے محفوظ ہو جاتی ہیں
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مرغیوں کے جین کا ایک حصہ ایسا ہے، جو برڈ فلو کے وائرس کو وہاں اپنا ٹھکانہ بنانے اور پھیلنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اگر اس کی جینیاتی طور پر اصلاح کر دی جائے تو وہ وائرس کے حملے سے محفوظ ہو جاتی ہیں
لندن میں قائم امپیریل کالج کے وائرس کے علوم کے ایک ماہر وینڈی برکلے کہتے ہیں کہ کہ برڈ فلو پر قابو پانے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ اے این پی 32 اے نامی جین میں اصلاح کر دی جائے اور اس حصے کو غیر مؤثر بنا دیا جائے، جس سے وائرس کو جین میں اپنی جگہ بنانے اور اپنی نسل بڑھانے میں مدد ملتی ہے
اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں وینڈی برکلے، میک گریو اور ان کے ساتھیوں نے چکن کے جین اے این پی 32 اے میں دو تبدیلیاں کیں، تاکہ وہ فلو اقسام کے وائرسز کے لیے موافق نہ رہے
سائنسی جریدے ’ سائنس نیوز‘ میں شائع ہونےوالی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تبدیلی کے دو سال بعد مرغیاں صحتمند تھیں اور معمول کے مطابق انڈے دے رہی تھیں
اس سلسلے میں کیے جانے والے تجربات میں دو ہفتوں کے چوزوں کے دو گروپ الگ الگ جگہوں پر رکھے گئے۔ ہر گروپ میں دس چوزے شامل تھے۔ ایک گروپ میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ، جبکہ دوسرے گروپ میں عام چوزے تھے۔ دونوں گروپوں کا فلو کے وائرس سے براہ راست سامنا کرایا گیا
بعدازاں معائنے سے معلوم ہوا کہ تمام عام چوزے فلو کے شدید حملے میں مبتلا تھے، جبکہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دس چوزوں میں سے صرف ایک میں وائرس کی علامات پائی گئیں، جو معمولی نوعیت کی تھیں
ایک اور تجربے میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مرغیوں اور عام مرغیوں کو برابر تعداد میں اکھٹا رکھا گیا اور ان کا سامنا وائرس کی بڑی مقدار سے کرایا گیا، جو عمومی طور پر پولٹری فارموں میں پھیلنے والے وائرس سے زیادہ مقدار تھی
عام مرغیاں نہ صرف فلو میں مبتلا ہوئیں بلکہ انہوں نے اپنا وائرس دوسری مرغیوں کو بھی منتقل کیا، جبکہ ان کے مقابلے میں اسی گروپ میں موجود جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مرغیاں محفوظ رہیں
میک گریو کا کہنا تھا کہ وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ مرغیاں پیدا کرنا، ویکسینز بنانے سے زیادہ بہتر اور فائدہ مند ہے
تاہم ابھی یہ صرف شروعات ہے۔ اس سفر میں آگے بڑھنے کے لیے ابھی کافی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وینڈی برکلے کہتے ہیں ”ابھی ہم اس مقام تک نہیں پہنچے، جس سے مرغیاں بڑد فلو کے خطرے سے آزاد ہو جائیں گی۔ وائرس کو چکن کے خلیے کے اندر اپنی نقول تیار کرنے سے روکنے کے لیے جین میں کچھ مزید تبدیلیوں کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔“