فاطمہ برناوی کی کہانی

وسعت اللہ خان

بیت المقدس کا ایک محلہ افریقن کوارٹرز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں آباد سیاہ فام فلسطینیوں کے آباؤ اجداد کا تعلق سینیگال، نائجیریا، چاڈ اور سوڈان وغیرہ سے ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی میں مغربی و مشرقی افریقی خطوں سے جو لوگ حج کے لیے آتے تھے، ان میں سے کئی اہلِ و عیال سمیت قبلہِ اول کی زیارت کے لیے حجاز سے بیت المقدس بھی جاتے اور کچھ کو یہ جگہ اتنی پسند آتی کہ وطن واپسی کا ارادہ ترک کر کے مقامی تہذیب میں رچ بس جاتے۔ تب کے زمانے میں پاسپورٹ ویزے کا وجود نہ تھا۔ مقامی عربوں نے بھی نوواردوں سے کوئی تعرض نہ برتا بلکہ خوش دلی سے ان ’بلالیوں‘ کو اپنے قومی وجود کا حصہ بنا لیا۔

انہیں افریقن کوارٹرز میں آباد ایک نائجیرین باپ اور عرب ماں کے گھر میں فاطمہ محمد برناوی کا انیس سو انتالیس میں جنم ہوا۔ دونوں میاں بیوی نے انیس سو چھتیس تا انتالیس فلسطین میں جبری یہودی آبادکاری کے خلاف برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کی مزاحمتی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ گویا فاطمہ جب پیدا ہوئی تو اس کی گھٹی میں ہی مزاحمت ڈال دی گئی تھی۔

انیس سو اڑتالیس کے نقبہ (قیامتِ صغریٰ) میں جب لاکھوں فلسطینیوں کو جبراً گھروں سے نکال کے چھینی گئی زمین پر صیہونیت کا تاج محل اٹھایا جا رہا تھا تو نو سالہ فاطمہ برناوی یہ سب اپنی آنکھوں کے ذریعے دل و دماغ میں اتار رہی تھی۔

فاطمہ اور اس کی والدہ کو بھی نقبہ کے ریلے میں اردن کی جانب دھکیل دیا گیا اور کئی برس وہ دونوں عمان کے قریب ایک پناہ گزین کیمپ میں رہیں۔ اس وقت مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارہ اردن کی ہاشمی سلطنت کی علامتی عمل داری میں تھا، چنانچہ فاطمہ اور اس کی والدہ کو بالآخر مغربی کنارے پر گھر واپسی کی اجازت مل گئی

انیس سو پینسٹھ میں جب تنظیم آزادیِ فلسطین (الفتح) قائم ہوئی تو چھبیس سالہ فاطمہ برناوی سعودی تیل کمپنی آرامکو میں بطور نرس کام کر رہی تھی۔ اس نے الفتح کے قیام کی خبر سن کے بیت المقدس واپسی کا فیصلہ کیا اور خاموشی سے الفتح میں شمولیت اختیار کر لی۔

یوں جدید فلسطینی مسلح مزاحمت کے عمل میں شرکت کرنے والی وہ پہلی قرار پائیں۔ جون انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل نے جزیرہ نما سینا، گولان کی پہاڑیوں اور پورے غربِ اردن و غزہ پر اچانک فوجی قبضہ کر لیا۔ الفتح کی مقامی تنظیم زیرِ زمین چلی گئی اور فیصلہ ہوا کہ بھرپور مسلح مزاحمت کے سوا اب آزادی کا کوئی راستہ نہیں۔

اسرائیلی فوجی قبضے کے لگ بھگ چار ماہ بعد انیس اکتوبر انیس سو سڑسٹھ کو مغربی یروشلم کے زایون سینما میں عربوں پر اسرائیلی فتح کے بارے میں ایک فلم دکھائی جا رہی تھی۔ زیادہ تر تماشائی فوجی تھے۔ وہاں ایک بم نصب کیا گیا لیکن پھٹ نہ سکا۔ مگر اپنی نوعیت کی اس پہلی واردات نے ایک کھلبلی مچا دی اور فاطمہ برناوی کو یہ بم رکھنے کے جرم میں ان کی والدہ سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ سرسری سماعت کی فوجی عدالت نے فاطمہ کو عمر قید سنا دی۔ یوں فاطمہ پہلی خاتون مزاحمت کار بن گئیں، جنہیں کسی اسرائیلی عدالت نے سزا دے کے جیل میں ڈال دیا۔

فاطمہ نے دس برس قید کاٹی اور پھر انہیں انیس سو ستتر میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔ فاطمہ یاسر عرفات کے قریبی حلقے کا حصہ بن گئیں۔ انہیں الفتح کی مشاورتی کونسل میں بطور تاحیات رکن شامل کیا گیا۔ وہ عمان، بیروت، تیونس اور قاہرہ میں متحرک رہیں۔ انیس سو چورانوے میں جب اوسلو امن معاہدے کے تحت مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو فاطمہ کو غزہ میں خواتین پولیس کا یونٹ قائم کرنے اور تربیت کی ذمے داری دی گئی۔ رفتہ رفتہ اس یونٹ کی افرادی قوت پانچ سو بتیس لیڈی آفیسرز تک پہنچ گئی۔

فاطمہ نے ادھیڑ عمر میں ایک فلسطینی مزاحمت کار کامریڈ فوزی النمر سے شادی کی، جو انیس سو پچاسی میں اسرائیلی قید سے رہا ہوئے تھے۔ مئی دو ہزار پندرہ میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے فاطمہ کی عسکری و سیاسی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہِ تکریمِ فلسطین (ملٹری) سے نوازا۔

اس موقعے پر منعقد تقریب میں یہ تعارف پڑھا گیا کہ فاطمہ محمد برناوی یکم جنوری انیس سو پینسٹھ کو مسلح فدائی جدوجہد کے جدید مرحلے کی صفِ اول میں شامل ہونے والی اور اس مزاحمت کے دوران اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھ قید ہونے والی پہلی فلسطینی خاتون ہیں، جو اب تک ہر آزمائش میں پوری اتریں اور نظریے پر استقامت کے ساتھ کاربند رہیں۔

فاطمہ برناوی نے زندگی کے آخری ایام قاہرہ میں گزارے اور تین نومبر دو ہزار بائیس کو تراسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ تین دن بعد انہیں غزہ میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جنازے میں ہزاروں خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ غربِ اردن اور غزہ میں فلسطینی اتھارٹی، الفتح اور حماس کے پرچم تین روز سرنگوں رہے۔

غزہ میں جہاں فاطمہ سپردِ ِخاک ہوئیں، وہاں ٹھیک ایک برس بعد سات اکتوبر سے اسرائیل نے آگ اور لوہے کی بارش کر دی۔ ہزاروں فلسطینی سپردِ خاک ہو چکے ہیں۔ نہ جانے فاطمہ محمد برناوی کی قبر کتنی سلامت ہوگی۔۔ مگر ان کی روح یقیناً آسمانوں میں آرام کے بجائے بندوق اٹھائے غزہ میں کہیں نہ کہیں حملہ آوروں سے لڑ رہی ہوگی۔

اگر کبھی فلسطین ایک حقیقی آزاد و خودمختار ملک بنا تو اسکولی نصاب میں فاطمہ محمد برناوی پر ایک باب ضرور آنے والی نسلیں پڑھیں گی۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close