سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط69)

شہزاد احمد حمید

دادو کبھی پرسکون خطہ تھا، سندھو خاموش اور تنہا بہتا تھا۔ آج یہ پرشور جگہ ہے۔ سندھو پر بنے پل سے لاریاں، ٹرک اور رنگ رنگ کی گاڑیاں دھواں اڑاتی اور مشینی دور کا انسان شور مچاتا گزرتا ہے۔ سیہون شریف میں حضرت لال شہباز قلندرؒ کی درگاہ بھی واقع ہے

داستان گو کہانی سناتے اب رکنا شروع ہو گیا ہے، شاید یاد داشت پرزور ڈالنا پڑتا ہے۔ بوڑھا جو ہو گیا ہے یا شاید اسے کہانی کے اختتام کا علم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میری کہانی مکمل ہوئی تو کئی مہینوں سے جاری یہ سفر اختتام پذیر ہوگا تو میرا دوست بھی مجھ سے جدا ہو جائے گا۔ دوستی کی انتہا جدائی ہی ہے۔ جو بھی ہے اس کہانی میں اب اداسی کا پہلو نظر آنے لگا ہے۔۔ کہنے لگا؛ ”سندھ برصغیر کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے اسی دھرتی پر قدم رکھے۔ اسلام کا پیغام بھی اسی دھرتی سے پھیل کر پورے ہندوستان کو منور کر گیا ہے۔یہیں سے مغل سلطنت کو دوبارہ دوام ملا کہ بابر کا بیٹا ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر بھاگا تو سندھو کی دھرتی میں اسے عمر کوٹ میں پناہ ملی اور اس بیٹے اکبر کو جنم بھی یہیں ہوا۔ ہمایوں نے ہی شیر شاہ سے دوبارہ حکومت حاصل کی اور اکبر اعظم نے اسے عروج پر پہنچا دیا۔ نادر شاہ کے دور میں کلہوڑے یہاں کے حکمران تھے اور انہوں نے تالپوروں سے شکست کھائی۔ وقت اور بادشاہت کی ہوس نے انہیں بھی تقسیم کرکے کمزور کیا اور شیعہ اور سنی میں بانٹ دیا ہے۔ سولہویں صدی میں پرتگالی بحریہ سندھ کے مشرقی ساحلوں پر بالا دستی قائم کر چکی تھی۔ یہاں پہلی بار سندھ میں گرجا گھر تعمیر ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پرتگیزیوں کی جگہ انگریز آ گئے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کلہوڑا اور تالپور دونوں ہی انگریز اور یورپین کے مخالف ہی رہے اور وہ ان سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے۔

”آؤ تمھیں کچھ دادو کے بارے بتاؤں؛ ”جبل کھیرتھر“ کا سلسلہ جو سندھ اور بلوچستان کے درمیان سلمان رینج سے شروع ہو کر بحیرہ عرب تک پھیلا ہے اس شہر سے دور نہیں۔ جبل کھیرتھر کا مقام ’گورکھ ہل‘ سندھ کا واحد پہاڑی صحت افزا مقام سطح سمندر سے پانچ ہزار سات سو فٹ (5700) بلند ہے جبکہ اس سلسلے کی سب سے اونچی چوٹی ’زردک پیک‘ (zardak peak) سات ہزار چارسو تیس (7430) فٹ بلند ہے۔ کھیرتھر سنسکرت لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”بھیڑوں کی چرواگاہ“ پرانے شہروں گاجی ل شاہ، واہی پاندھی علی اور مراد مونڈ کے کھنڈر بھی اسی سلسلے کے دامن میں واقع ہیں۔ کہتے ہیں کھیرتھر کے اس سلسلے میں ایک ہندو گرو ”گورکھ ناتھ“ بھی پوجا کے لئے آیا کرتا تھا۔ نیا گاج ڈیم کھیرتھر سلسلہ کے دریا گاج پر تعمیر کیا گیا ہے دادو شہر سے تقریباً ساٹھ (60) کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے اور یہاں ۲،۴ میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔“

”سیہون بھی دادو میں ہے، جہاں قلندر لال شہبازؒ کا مزار ہے۔ تم لال شہباز قلندرؒ کی بستی سے دور نہیں ہو۔ لاکھوں ہر سال آپؒ کی درگاہ پر حاضری دیتے ہیں، دھمال ڈالتے ہیں۔ مذہب، رنگ، نسل، عقیدے کی قید سے آزاد۔ ہندو بھی آتے ہیں اور مسلمان بھی۔ آپ ؒ ۸۷ (78) برس کی عمر میں ایران سے سیہون تشریف لائے اور 1274ء میں چورانوے (94) برس کی عمر میں کو اس دار فانی سے ابدی دنیا چلے گئے۔“

’’سیہون میرے مغربی کنارے آباد ہے۔ سیہون کا لفظ ”سیوستان“ سے منسوب ہے جو کبھی راجہ داہر کی حکومت کا اہم قصبہ تھا۔ ابن بطوطہ نے بھی اپنے سفر نامے میں سیہون کا ذکر کیا ہے۔ اُن کے مطابق؛ ’اس کا نام سیوستان ہے۔ یہ بڑا شہر ہے۔ ریگستان میں واقع۔ کیکر کے درخت کے علاوہ یہاں اور کوئی درخت نہیں ہے۔ خربوزے کے علاوہ یہاں اور کچھ کاشت نہیں ہوتا ہے۔‘
آگے چل کر ابن بطوطہ لکھتے ہیں؛ ’میں یکم محرم 734ھ کو دریائے سندھ سے گزرا۔‘ اس نے اسے ’دریائے پنجاب‘ بھی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں؛
’اس کا شمار بڑے دریاؤں میں ہوتا ہے۔ گرمیوں میں یہ طوفانی ہوتا ہے۔ جس طرح مصر کی زراعت کا دارومدار نیل کی طغیانی پر ہے اسی طرح یہاں کے باشندے بھی اس دریا کی طغیانی پر جیتے ہیں۔ میں نے ایک بار بانس کا جنگل عبور کرتے ہوئے دریائے سندھ میں گینڈا بھی دیکھا۔ بھاری بھرکم ڈیل ڈول۔ ہاتھی سے چھوٹا مگر اس کا سر ہاتھی سے بڑا تھا۔‘ وہ مزید لکھتے ہیں؛ ’تین بار میرا اور گینڈے کا آمنا سامنا ہوا۔ دریائے سندھ کا قدیم نام جو آریاؤں نے رکھا ’سندھو‘ ہی تھا۔ میں اس شہر کے خطیب ’شیبانی‘ درویش سے بھی ملا ہوں۔ جس کے پاس امیر المومینن حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا جاری کردہ پروانہ ہے۔ جو ان کے دادا کو بطور خطیب جاری ہوا تھا اور یہ وراثتاً اُن تک پہنچاہے۔ یہ پروانہ 0099ھ کو جاری ہوا اور اس پر ”الحمد اللہ واحد“ کے الفاظ بھی لکھے ہیں۔ یہاں شیخ عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندرؒ بھی ہے۔ یہ خانقاہ زیارت گاہ عام ہے۔ منچھر جھیل بھی قریب ہی ہے۔“

”تم تو جانتے ہو کہ حضرت لال شہبازؒ کون تھے؟ کہاں کے رہنے والے تھے؟“ سندھو نے پوچھا۔“ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اس نے مجھے جواب دینے کا موقع دیا ہے؛ ”اصل نام سید عثمان مروندی، شہر ’مروند’ ایران۔ سیہون تشریف لائے اور پھر یہیں کے ہو گئے۔ محمد شاہ تغلق کے دور میں ان کی درگاہ کی تعمیر ہوئی یہ 1356ء کی بات ہے۔ بعد میں اس درگاہ میں کئی بار توسیع کی گئی۔ مزار کو سفید سنگ مر مر اور روغنی اینٹوں سے سجایا گیا۔ مزار پر سونے سے بنا دروازہ ایران کے فرماں روا محمد رضا شاہ پہلوی نے 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش پر عطیہ کیا۔ ایسا ہی دروازہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کے لئے بھی عطیہ کیا گیا تھا۔“

”یہ ملنگوں اور قلندروں کی دنیا کا سب سے اہم مزار ہے۔ملنگوں کے پھٹے لباس، لٹ دار لمبے بال شاید ہندو یوگیوں کا اثر رکھتے ہیں۔ یاد رہے یہ مزار پاکستان بننے سے پہلے ہندو روایت کا بھی بڑا مرکز تھا۔ دھمال اس مزار کا خاص اور مخصوص تحفہ ہے۔ دھمال کا بھی اپنا ہی رنگ اور جمال ہے۔ ملنگ اور درگاہ پر آئے عام آدمی بھی دھمال ڈالتے ہیں۔ ملنگوں کے پیروں میں پڑے لوہے کے کڑے چھن چھن کرتے ہیں۔ دربار پر لمبی لمبی زلفوں والے درویش بھی ہیں بعض کی زلفیں کندھوں سے بھی نیچے جھولتی ہیں۔ ہاتھ کی انگلیاں انگھوٹھیوں سے بھری ہوتی ہیں۔ آنکھیں سرخ اور نظریں نا جانے کہاں کہاں لگی ہوتی ہیں۔ کون کس حال میں ہے کسی کو معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی جاننا چاہتا ہے۔ عرس میں شرکت کے لئے دور و نزدیک سے آئے زائر خواہ ہندو ہوں یا مسلمان سبھی یہاں جمع ہوتے ہیں۔ آنے والے بعض مرید اپنے ساتھ شاعر، مغنی، مرد و زن کے طائفے بھی لاتے ہیں۔ یہ ملی جلی آبادی ہے، جن کے کان ہر چیز سننے کے شیدائی ہیں۔ ہر طرح کے نیم حکیم، سادھو، سنیاسی، شعبدہ باز، فقیر، قوال جمع ہیں اور اپنے اپنے طور پیسے کما رہے ہیں۔“

میں دوستوں کے ساتھ درگاہ میں چلا آیا ہوں۔ مجھے درگاہ میں پہلا انسان جو ملا ایک دس گیارہ برس کا بچہ ”میرل“ ہے۔ یہ مختلف رنگوں کے دھاگے بیچ رہا ہے۔ ایسے بیسیوں بچے درگاہ پر یہی کام کرتے ہیں۔ میں نے میرل سے پوچھا؛ ”یہ کیا ہے؟“ وہ ہنسا، شرمایا اور بولا؛ ”قلندر کا تحفہ ہے سائیں۔ زائر یہ سرخ یا کالے رنگ کے دھاگے خرید کر، منت مانگتے ہیں اور پھر دربار پر باندھ جاتے ہیں۔ اپنی مراد پوری ہونے کی امید میں۔“ یہ بات کہہ کر وہ دوسری طرف مڑ گیا ہے۔

سندھو بتاتا ہے ”تازہ پانی کی جھیل ’منچھر‘ سیہون سے اٹھارہ (18) کلو میٹر دور میرے مغربی کنارے پر جامشورو اور دادو اضلاع میں واقع ہے جبکہ حیدرآباد کا فاصلہ یہاں سے اسی (80) میل ایک سو بیس (120) کلو میٹر ہے۔ منچھر جھیل میں پانی ’کھیرتھر پہاڑی سلسلہ‘ کی مختلف ندیوں سے آتا مجھ تک پہنچتا ہے۔ یہ پاکستان کی ہی نہیں بلکہ ایشیاء کی تازہ پانی کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے اور اس کا شمار دنیا کی قدیم ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہ جھیل کب وجود میں آئی کچھ معلوم نہیں۔ کہتے ہیں یہ جھیل موئن جو دڑو اور ہڑپا کی تہذیبوں سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ شاید پتھر کے زمانے میں بھی اس کا وجود تھا۔ یہ جھیل موسم کے اعتبار سے چھتیس (36) سے دوسو پچاس (250) مربع کلو میٹر رقبہ میں پھیل جاتی ہے۔ اس جھیل کے کنارے اور گرد و نواح میں قدیم بستیاں گاجی شاہ، واہی پاندھی، ٹیلہ مراد وغیرہ شامل ہیں۔ کہتے ہیں 1958ء میں قحط سالی کے دوران یہ جھیل سوکھ ہی گئی تھی۔ جب اس کی کیفیت سیلابی ہوتی ہے تو یہ جھیل اپنے ہی پانی میں ڈوب جاتی ہے اور جب سیلابی کیفیت ختم ہوتی ہے تو جھیل پھر سے اپنی پہچان دینے لگتی ہے۔ اس جھیل سے ہزاروں لوگوں کی قسمت اور روزگار وابستہ ہے۔ کئی سو خاندان کشتی کے گھروں میں اس میں رہتے ہیں۔ یہ ’مہانا قبیلہ‘ ہے۔ اس قبیلے کے افراد ”مہانے“ (ملاح) کہلاتے ہیں۔ ان کی تمام تکالیف اور خوشیاں اسی جھیل سے جڑی ہیں۔ اس جھیل میں مختلف اقسام کی مچھلی پائی جاتی ہے۔ مچھیرے ہر سال لاکھوں من مچھلی اپنے جال کی زینت بناتے ہیں اور اس کی فروخت سے کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ سردیوں میں اس دلکش جھیل کے پانیوں پر ہزاروں کی تعداد میں مہمان پرندے اترتے ہیں تو یوں لگتا ہے رنگوں کی برسات اس جھیل پر اتری ہو۔ ان پرندوں میں ہنس، ہنس راج، جل مرغی، نیل سر، ڈگوش، کنگھا، گنگ مرغیاں، مختلف اقسام کی بطخیں اور مرغابیاں وغیرہ شامل ہیں۔ خشک سالی کے دوران اس کے گرد و نواح میں گندم، جوار، سرسوں وغیرہ کی فصل بھی کاشت ہوتی ہے۔“

سندھو یہ بتا کر خاموش ہوا اور پھر اگلے ہی لمحے دوبارہ بول پڑا ہے۔ ”دوست! تمھیں مہانا قبیلے کے بارے تو کچھ بتایا ہی نہیں ہے۔ سنو! صبح صبح منچھر جھیل پر سورج کی شعاعیں قدرت کے رنگ بکھیرتی ہیں تو اڑھائی سو (250) مربع کلو میٹر میں پھیلی جھیل کے اطراف ملاحوں کی رنگ برنگی کشتیاں اور ان کے مکین منفرد رنگ پیش کرتے ہیں۔ کشتیوں کے یہ رنگ اس جھیل کے ’کشتی گاؤں‘ (boat village) کے ہیں جس میں مہانے آباد ہیں۔ تازہ پانی کی سب سے بڑی منچھر جھیل میں موجود آبی حیات ان مہانوں کو صدیوں سے خوراک اور روزگار مہیا کر تی رہی ہے۔ وقت اور حالات نے 50 ہزار نفوس پر مشتمل اس گاؤں کی آبادی گھٹا ہو کر اب صرف چار ہزار (4000) نفوس تک محدود کر دی ہے۔مہانوں کی اکثریت یہاں سے غازی گھاٹ اور تونسہ بیراج کو ہجرت کر گئی ہے۔ اس ہجرت کے بڑی وجہ پانی اور آبی حیات میں کمی ہے اور یہ سب کچھ پچھلی 3 دہائیوں میں ہی ہوا ہے۔“

میرے سامنے ایک نوجوان مہانا اپنی کشتی سے جھیل کے درمیان موجود اپنے خاندان کے دیگر افراد کے پاس جا رہا ہے۔ اسے وہاں تک پہنچنے میں تقریباً 20 منٹ لگیں ہیں۔ یہ دل فریب منظر ہے۔ مجھے اشرف مہانا نے بتایا؛ ”یہ دو سو سال (200) پرانا گاؤں ہے۔ کبھی یہاں چار پانچ سو کشتی گھر تھے اب صرف پچاس (50) ہی رہ گئے ہیں۔ اکثریت تونسہ یا غازی گھاٹ منتقل ہو چکی ہے۔ کچھ خشکی پر بھی آباد ہوئے ہیں۔ کبھی یہ جھیل کشتیوں کی بہتات سے دلکش نظارہ پیش کرتی تھی اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ وقت اور زمانے نے جھیل سے آبی حیات کم کر دی ہے، رہی سہی کسر گندے پانی کی ملاوٹ نے پوری کرکے ہمارا روزگار چھین لیا ہے۔ آبی حیات ملاوٹ شدہ پانی میں زندہ رہنے سے مر جانا بہتر سمجھتی ہے۔ شاید زیادہ غیرت مند ہے۔ آبی حیات سے بھری اس جھیل کا پانی ہمیں خوراک اور کثیر تعداد میں آمدن مہیا کرتا تھا۔ اب اس پانی میں بیماری ہے، کڑواہٹ ہے، ملاوٹ ہے۔ پاکستانیوں کے مزاج کی طرح۔۔ یہ پانی دھیرے دھیرے زہر میں بدل گیا ہے۔ موت دیتا ہے وہ بھی تڑپا تڑ پا کر۔۔ کم بارشوں اورصنعتوں کے گندے پانی نے اس جھیل کی آبی حیات کو ہی نہیں بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ ہماری آمدنی اور جھیل کی رونق بھی گھٹا دی ہے۔ یہاں اب مہمان پرندے بھی کم آتے ہیں۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close