ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی اپنے عدم تشدد کے فلسفے اور غالباً اپنی گُھٹنوں سے اوپر دھوتی اور چرخہ کاتنے کی وجہ سے مغربی صحافیوں میں مقبول تھے۔
ان سے ایک دفعہ گورے صحافی نے پوچھا کہ آپ کا مغربی تہذیب کے بارے میں کیا خیال ہے؟ مہاتما گاندھی نے انگریزی میں جو جواب دیا اس کا سلیس ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے کہ اگر مغربی تہذیب نام کی کوئی چیز ہوتی تو بڑا اچھا ہوتا۔
ہمارے سرکاری سکول کے مشفق استادوں نے مہاتما گاندھی کے بارے میں تو نہیں پڑھایا لیکن علامہ اقبال کے کلام کو رٹا ضرور لگوایا۔ کلام سمجھ میں آئے نہ آئے خون ضرور گرماتا تھا۔ کبھی کبھی کنفیوز بھی کرتا تھا کہ نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی خاک میں بسنے والے سب اکھٹے ہو کر حرم کی پاسبانی کریں یا پھر اس وقت کا انتظار کریں جب وہ وقت آئے کہ پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
شاعری سمجھ نہ بھی آتی ہو تو بچپن میں رٹا لگائے ہوئے شعر نہیں بھولتے۔ گذشتہ چند دنوں سے علامہ کا ایک شعر بہت یاد آ رہا تھا کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
بچپن میں شک تھا کہ شاید اس شعر میں اشارہ گوروں کی تہذیب کی طرف ہے لیکن بڑے ہو کر جب اپنوں کے خنجر اپنوں کے گلے پر اور کبھی پیٹھ پر چلتے دیکھا تو لگا کہ شاید ہماری اپنی تہذیب سے ہی خبردار کر رہے ہوں گے۔
ابھی پوری غزل دوبارہ پڑھیں تو مذکورہ بالا شعر سے اوپر والا شعر بھی یاد آ گیا کہ
دیار مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زر کم عیار ہوگا
دیار مغرب اور ان کی تہذیب نے اپنی برتری کچھ اس طریقے سے ثابت کی کہ ہم اور ہمارے بزرگ بھی اپنے آپ کو مغربی پیمانوں سے ناپنے لگے۔ مغرب کی چار سو سال سے پرانی یونیورسٹیاں، ان کے جمہوری ایوان، ہاتھ میں ترازو پکڑے انصاف کی اندھی دیوی، اور ان پر نظر رکھے ہر گھڑی مستعد مغرب کا آزاد میڈیا اور سب سے بڑھ کر مغرب کی یہ قابلیت کہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے۔
اگر امریکیوں نے سیاہ فاموں کو منڈیوں میں جانوروں کی طرح بیچا اور خریدا تو آخر انھوں نے ایک سیاہ فام کو صدر بھی تو منتخب کیا (اور صدر بن کر اس نے اپنے گورے ہم منصبوں سے کہیں زیادہ بم برسائے)۔
اگر عراق میں ابو غریب جیسے واقعات ہوئے تو سب سے پہلے ان کی رپورٹنگ بھی تو مغربی ذرائع ابلاغ نے ہی کی۔
اب بھی ہمیں درد مند لوگ سمجھاتے ہیں کہ دیکھیں کہ جب سے اسرائیل نے غزہ کو نیست و نابود کرنے کی جنگ شروع کی ہے اور تمام مغربی طاقتیں یہ الاپ رہی ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، مغربی ممالک کے تمام بڑے شہروں میں لاکھوں لوگ فلسطین کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔
ان مظاہروں میں ہر مذہب، رنگ، نسل کے لوگ شامل ہیں، کئی بہادر یہودی بھی پیش پیش ہیں لیکن مجھے ان مظاہروں کو دیکھ کر تھوڑا ڈر بھی لگتا ہے کیونکہ یہ ڈراؤنی فلم ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔
عراق کی جنگ سے پہلے مغرب کے سیاستدانوں نے بتایا کہ عراق دنیا کو تباہ کر دے گا، مغربی میڈیا کے جغادری صحافیوں نے سمجھایا کہ عراق پر اب حملہ نہ ہوا تو سب مارے جاؤ گے، اس کے ساتھ ہی مغرب کے بڑے شہروں میں لاکھوں لوگ نکلے۔ میں نے زندگی میں اتنے بڑے مظاہرے نہیں دیکھے جتنے لندن اور نیویارک کے مراکز میں ہوئے لیکن کیا ہوا۔
عراق میں لاکھوں شہریوں کے قتل کے بعد مغرب کے چند صحافیوں نے ہمیں بتا دیا کہ وہ جو آپ کو بتایا گیا تھا کہ عراق کے پاس دنیا کو تباہ کرنے والے ہتھیار ہیں وہ ایک جھوٹ تھا۔
آپ نے کسی مغربی لیڈر پر، کسی چیتے صحافی پر عراقی شہریوں کے قتل کا مقدمہ چلتے دیکھا؟
آج بھی مغربی تہذیب اپنے خنجر سے آہستہ آہستہ خود کشی کر رہی ہے۔ پوری دنیا میں انسانی حقوق کا درس دینے والی یونیورسٹیوں میں ان طلبا پر پابندیاں لگ رہی ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ فلسطینی بچوں کا قتل عام بند کرو۔ یہ خود کشی ان نیوز روموں میں جاری ہے جہاں اداریوں میں یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ قتل عام دراصل انسانیت کی فتح ہے اور مغرب کے ان جمہوری ایوانوں میں ہو رہی ہے جہاں مغربی عوام کے منتخب نمائندے نہ صرف بچوں پر بم گرانے میں وقفہ نہیں چاہتے بلکہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر اسلحے بارود کی کمی ہے تو ہم حاضر ہیں۔
مجھے شک ہے کہ مغربی جمہوریتوں کے یہ نمائندے یہ سب اس یقین کے ساتھ کر رہے ہیں کہ ان کے اقتدار کو سڑکوں پر نکلے بمباری بند کرنے کی فریاد کرتے اپنے لاکھوں لوگوں سے کوئی خطرہ نہیں۔
آئندہ الیکشن میں جب وہ اپنے ووٹروں کے پاس جائیں گے تو بہت کم کو ان کے ہاتھوں پر خون نظر آئے گا اور مغربی تہذیب کے یہ نمائندے پھر ہنسی خوشی ساتھ رہنے لگیں گے اور مغربی تہذیب کا یہ خنجر ہماری گردنوں پر چلتا رہے گا۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)