شمال انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کے اترکاشی میں زیر تعمیر سلک یارا ٹنل میں پھنسے تمام اکتالیس مزدوروں کو سترہ دنوں کی کاوشوں کے بعد منگل 28 نومبر کی شام کو بالآخر بحفاظت نکال لیا گیا۔ پورے ملک اور بالخصوص متاثرہ مزدوروں کے اہل خانہ میں خوشی کا سماں ہے۔ بعض مقامات پر پٹاخے پھوڑ کر مسرت کا اظہار کیا گیا
انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں سترہ دن سے سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو گذشتہ رات بحفاظت نکال کر ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے
میڈیا کو دی گئی وڈیو میں انھیں ہسپتال کے بستر پر بیٹھے کھانا کھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور بظاہر ان کے حوصلے بلند ہیں
یہ مزدور 12 نومبر کو سرنگ میں تب پھنسے تھے جب لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے سرنگ کا ایک حصہ منہدم ہو گیا تھا۔ انھیں منگل کی شام کو وہاں سے ایک بڑی امدادی کارروائی کے بعد نکالا گیا اور انھیں آخر تک بہت سی مشکلات کا سامنا رہا
جب امدادی ٹیموں نے 41 میں سے آخری مزدور کو اندھیرے میں سرنگ سے باہر نکالا تو ایسا محسوس ہوا کہ پوری قوم نے سکون کا سانس لیا ہو
ایک تین فٹ چوڑے پائپ کو ملبے کے درمیان سے گزار کر ان مزدوروں کو اسٹریچر پر لٹا کر انھیں اندر سے باہر کی طرف کھینچ کر نکالا گیا
سرنگ سے نکلتے ہوئے ان مزدوروں کی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ موقع پر موجود لوگوں کے سامنے مسکراتے ہوئے، ہاتھ ہلاتے اور ان کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے باہر آئے
مزدوروں کے ساتھیوں اور گھر والوں کے ہاں جشن کا سماں تھا۔ وہ کئی دن سرنگ کے باہر رہے اور امدادی مشن کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے رہے۔۔ انہوں نے باہر آنے والے مزدوروں کو پھولوں کے ہار پہنائے، مٹھائیاں کھلائی اور گلے لگایا
چوہدری لال کی اپنے بیٹے منجیت کو بوسا دیتے ہوئے تصویر لی گئی۔ منجیت پھنسنے والے مزدوروں میں سے ایک ہیں۔ چوہدری لال نے بی بی سی کو بتایا کو انہیں اپنے بیٹے کو دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس ہوئی
وہ کہتے ہیں ”پہلے ہی میں نے ایک بیٹا تعمیراتی حادثے میں کھو دیا۔ میں ایک اور نہیں کھو سکتا“
رام سندر کی والدہ دھن پتی نے اے این آئی کو بتایا کہ 12 نومبر کو دیوالی کا دن تھا، لیکن ان کے گاؤں میں ان کے بیٹے کے بحفاظت سرنگ سے نکلنے کے بعد منگل کو دیوالی منائی گئی
مہم کا اہم کردار: منّا قریشی
دہلی میں مقیم ریسکیو ٹیم، جس کی قیادت ٹیم لیڈر وکیل حسن اور نڈر چوہا کان کن منا قریشی کر رہے تھے، سرنگ کے دوسری طرف پھنسے ہوئے مزدوروں تک کامیابی کے ساتھ پہنچ گئے، جس سے ان کی آزمائش کا خاتمہ ہوا جو 12 نومبر سے شروع ہوئی تھی
بچاؤ، دہلی ٹیم کی انتھک کوششوں سے نشان زدہ، نہ صرف ان کی مہارت اور بہادری کو اجاگر کرتا ہے بلکہ مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اتحاد اور لچک کے جذبے کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ ریٹ کان کنی کرنے والی ٹیم کے رہنما وکیل حسن، جس نے آخری 18 میٹر کھودے، فخر سے کہا، "ہم نے کھدائی کا کام 28 گھنٹوں میں مکمل کر لیا،” اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہ اس ڈرامائی سرنگ کو بچایا
مزدوروں کو بچانے کی مہم میں منّا قریشی نامی ایک نوجوان کے کردار کو شاندار اور بے مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ منا قریشی کا خاصا چرچا ہے
سرنگ میں پھنسے مزدوروں کو بچانے کے لیے سترہ دنوں کے دوران مختلف طریقے آزمائے گئے، جن میں سے بیشتر ناکام رہے۔ بالآخر ’ریٹ مائنر‘ طریقہ اپنایا گیا، جو کامیاب ثابت ہوا
اس دوران سب سے مشکل ترین حصہ آخری کے دس سے بارہ میٹر کی کھدائی کرکے راستہ بنا کر مزدوروں تک پہنچنا تھا اور ’ریٹ ہول مائنرز‘ نے اس میں اہم کردار ادا کیا
ریٹ ہول کا مطلب ہے، زمین کے اندر تنگ راستے کھودنا، جس میں ایک شخص جا کر کوئلہ نکال سکے۔ چوہے کے تنگ بل سے مشابہت کی وجہ سے اس کا نام ‘ریٹ ہول مائننگ’ پڑا ہے۔ تاہم اسے غیر سائنسی طریقہ قرار دیتے ہوئے سن 2014 میں بھارت نے اس پر پابندی عائد کر دی ہے
منّا قریشی وہ پہلے شخص تھے، جو منگل کی شام سات بج کر پانچ منٹ پر سرنگ کے اندر پھنسے لوگوں تک پہنچے اور ان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے بتایا، ”ان لوگوں نے مجھے چوما، خوشی سے نعرے بلند کیے اور میرا شکریہ ادا کیا“
انتیس سالہ منّا قریشی دہلی میں ایک کمپنی میں ریٹ ہول مائنر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ کمپنی سیور اور پانی کی پائپوں کی صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ وہ ان ایک درجن ریٹ ہول مائنرز میں سے ایک تھے جنہیں امریکی مہم بھی ناکام ہو جانے کے بعد پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنے کے لیے اترکاشی لایا گیا تھا
منّا قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ”میں نے آخری چٹان ہٹائی اور انہیں (مزدوروں کو) دیکھا۔ اس کے بعد میں نکل کر دوسری طرف گیا، انہوں نے مجھے گلے لگایا، تالیاں بجائیں اور میرا شکریہ ادا کیا“
انہوں نے مزید کہا، ”میں اپنی خوشی کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا، میں نے اپنے ساتھی مزدوروں کے لیے یہ کام کیا ہے۔ جتنی عزت انہوں نے ہمیں دی، میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتا“
دوسری جانب وزیر اعظم مودی نے پھنسے ہوئے مزدوروں کو باہر نکالنے کی اس مہم میں حصہ لینے والے تمام افراد کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا، ”اس مشن میں شامل ہر شخص نے انسانیت اور ٹیم ورک کی شاندار مثال پیش کی ہے“
اس مہم کی نگرانی کرنے والی حکومتی تنظیم نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (این ڈی آر ایف)کے رکن ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل سید عطا حسین کا کہنا تھا کہ ریٹ مائنرز نے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں دس میٹر کا راستہ بنا کر کمال کر دیا۔ انہوں نے کہا، ”ریٹ ہول مائننگ بھلے ہی غیر قانونی ہو لیکن مائنرز کی صلاحیت اور تجربہ نے کام کر دکھایا۔“
مزدوروں نے کیا بتایا
چنیالیسور کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کی ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مزدور اپنے بستر پر بیٹھے ہوئے اپنا موبائل فون دیکھ رہے ہیں، کھانا کھا رہے ہیں، چائے پی رہے ہیں اور سیلفی لے رہے ہیں
کچھ کو اپنے دانت برش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ دیگر ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں
ستیا دیو بھی ان لوگوں میں سے ایک تھے، جو سرنگ میں پھنس گئے تھے۔ انھوں نے ٹائمز آف انڈیا اخبار کو بتایا کہ ’وہاں جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہے تھے اور باہر نکل کر وہ سکون میں آ گئے تھے۔‘
ایک اور کارکن نے انڈین ایکسپریس اخبار کو بتایا کہ کئی بار وہ سرنگ کے اندر بے چین محسوس کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ انھیں کب باہر نکالا جائے گا
انہوں نے کہا ”لیکن میں نے کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا“ وہ کہتے ہیں کہ وقت گزارنے کے لیے وہ اپنے موبائل فون پر گیمز کھیلتے تھے اور اپنے پورٹیبل چارجر کا استعمال کر کے اس کی چارجنگ کر لیتے۔ اس چارجر کو ریسکیو عملے نے پائپ کے زریعے ان تک پہنچایا تھا۔
انھوں نے اخبار کو بتایا ”ہم کسی کو کال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ نیٹ ورک نہیں آرہا تھا۔ تو ہم نے ایک دوسرے سے باتیں کرنا شروع کر دیں اور اس سے ہماری جان پہچان ہو گئی“
جس مزدور نے وزیراعظم نریندر مودی سے فون پر بات کی تھی، انھوں نے کہا کہ مزدور اپنی سوچ مثبت رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ساتھ کھانا کھاتے تھے
انھوں نے کہا ”ہم سرنگ کے اندر متحرک رہنے کے لیے واک اور یوگا کرتے تھے“
ایک اور مزدور نے بتایا کہ ابتدا میں بیٹری بچانے کے لیے وہ اپنے فون کو صرف وقت دیکھنے کے لیے آن کرتے تھے لیکن جب انھیں امدادی ٹیم کی طرف سے چارجر مل گیا تو انہوں نے کھل کر اپنے فون استعمال کیے
انڈین ہمالیہ میں 4.5 کلومیٹر طویل سلکیارا سرنگ کا ایک حصہ 12 نومبر کو منہدم ہو گیا تھا۔ یہ سرنگ زیر تعمیر سرنگ چاردھام کے پرجوش منصوبے کا حصہ ہے، جو بدری ناتھ، کیدارناتھ، یامونوتری اور گنگوتری کے ہندو یاتری مقامات سے رابطے کو بڑھانے کے لیے ایک اقدام تھا
یہ ایک متنازع منصوبہ ہے اور ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے جو کہ یہاں پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
ٹنل کے انہدام پر سوالات
مزدوروں کے بحفاظت باہر آنے پر سب نے اطمینان کی سانس کی لی ہے لیکن حادثے کے بعد بھارت میں زیر تعمیر ٹنل پروجیکٹوں کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ گوکہ اس طرح کے بڑے پروجیکٹوں کے لیے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے لیکن سلک یارا ٹنل کو اس سے مستثنی کر دیا گیا تھا
مرکزی حکومت نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا کو بھارت میں اس وقت زیر تعمیر 29 سرنگوں کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا ہے
سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے مرکزی وزیر نتن گڈکری کا کہنا تھا، ”یہ پہلا موقع تھا جب ایسا حادثہ پیش آیا۔ ہم نے اس حادثے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ہم اس ٹنل کا سیفٹی آڈٹ کرا رہے ہیں اور یہ معلوم کریں گے کہ بہتر ٹیکنالوجی کا استعمال کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ ہمالیائی خطے کی زمین بہت مختلف ہے اور یہاں کام کرنا بہت مشکل ہے لیکن ہم اس کا حل تلاش کرلیں گے۔“
تقریباً ساڑھے چار کلومیٹر طویل سلک یارا ٹنل ہندوؤں کے دو مقدس ترین مقامات اترکاشی اور یمنوتری کو جوڑنے کے لیے بنائی جا رہی ہے، جو کہ وزیر اعظم مودی کے چاردھام پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس کے تحت ہندوؤں کے چار مقدس مقامات بدری ناتھ، کیدارناتھ، یامونوتری اور گنگوتری کے ہندو یاتری مقامات کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے گا
یہ ایک متنازع منصوبہ ہے اور ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بڑھ گیا جو یہاں پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق ٹنل بنانے والی اس کمپنی نیویگ انجینئرنگ لمیٹڈ کے دو ذمہ داران س سرنگ پر کام سنہ 2018 میں شروع ہوا تھا۔
ان میں سے ایک نے بتایا کہ سرنگ پر کام شروع ہونے سے تھوڑا پہلے اسی جگہ پر مٹی کے تودے گرنے سے نقصان ہوا تھا، جہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ٹنل کا ایک حصہ منہدم ہو گیا تھا۔
اس پروجیکٹ پر کنسلٹنٹ کے طور کام کرنے والی برنارڈ گروپ نامی آسٹریئن جرمن کمپنی کے مطابق یہ شروعات سے ہی ایک مشکل پروجیکٹ تھا۔ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر کہا کہ یہ سرنگ کے پروجیکٹ کے آغاز سے ہی ٹینڈر دستاویزات میں پیش گوئی سے زیادہ چیلنجنگ ثابت ہوا۔
ارضیاتی لحاظ سے ہمالیہ ایک نیا پہاڑی سلسلہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ نسبتاً کم مستحکم ہے۔ اس کے وجہ سے یہاں مناسب اقدامات اور بے حد احتیاط کے بغیر کوئی بھی تعمیر مزید تباہی اور خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
اس سرنگ کو کئی حصوں میں تعمیر کیا جا رہا ہے تاہم اس کے گرنے کی اصل وجہ تحقیقات کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔
ہمالیہ میں سرنگوں کے احتیاطی تدابیر کے ماہر معظم ظہیر ملک کا کہنا ہے کہ ’سرنگ گرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ارضیاتی عدم استحکام، سرنگ پر متوقع بوجھ، اس کے اندر بنائی گئی سپورٹ سسٹم کا ناقص ہونا، اس کے اندر پانی کا جانا یا انسانی غلطیاں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب تک سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق اس حادثے کے بنیادی وجہ ارضیاتی عدم استحکام ہی نظر آ رہی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ ہے کہ اگر پہاڑ کی چٹانیں غیر مستحکم ہیں تو یہ سرنگ اوپر کے وزن سے یا بیرونی عوامل جیسے زلزلے یا شدید بارش کی وجہ سے گر سکتی ہیں۔‘
ارضیاتی عدم استحکام کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہ قدرتی وجوہات ہیں اور انسانی کنٹرول سے باہر ہیں۔ یہ عمل ملبے کے مسلسل طور پر گرنے سے نمایاں ہوتا ہے، جس کہ وجہ سے امدادی کارروائیوں میں تاخیر کا سامنا رہا ہے۔