سیکھو، پڑھو، لکھو، جانو، دیکھو۔۔۔ عمر کے پہلے دن سے قبر تک زندگی اسی کام میں گزر جاتی ہے۔
ہے، سیکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن اس سے بہت ضروری بعض چیزیں ایسی بھی ہیں، جنہیں زندگی میں انسان نے ان سیکھا کرنا ہوتا ہے، مطلب بالکل فراموش کر دینا ہوتا ہے کہ یہ کبھی سیکھا بھی تھا!
ان لرن Unlearn کرنا، سیکھی ہوئی باتوں کو بھول جانا زندگی میں سکون پانے اور اوکھے سوکھے وقت کو گزار دینے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔
فرض کریں ایک گھنا جنگل ہے، جو کوئی تین چار سو کلومیٹر پہ پھیلا ہوا ہے۔ لاہور سے اسلام آباد تک ملا لیں علاقہ، اتنا بڑا اور سرسبز جنگل سمجھ لیں
اس جنگل میں لاکھوں درخت موجود ہیں۔ سب بہترین چل رہے ہیں، پھل پھول رہے ہیں، ایک دوسرے کی شاخوں میں شاخیں پھنسائے سکون سے کھڑے ہیں اور نیچے جنگل کے اندر گھنا اندھیرا ہے
اب کیا ہوتا ہے کہ پچھلے سو برس سے اس علاقے کا جو موسم تھا، وہ بدل جاتا ہے۔ اگست ستمبر میں بارشوں کی بجائے وہی کڑاکے دار گرمی جاری رہتی ہے
زمین کے اندر پانی کم ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ علاقہ، جو سال کے تین چار مہینے شدید بارشوں کی زد میں ہوتا تھا، پانچ سال گزر جاتے ہیں، وہاں بارش نہیں ہوتی۔۔
کیا ہوگا؟ درخت باقی رہ پائیں گے؟ جن کو سال میں تین چار مہینے بھرپور پانی چاہیے ہوتا تھا، وہ پانچ برس کسی بارش کے بغیر کیسے گزاریں گے؟
ہوگا یہ کہ بالفرض اس پورے سینکڑوں کلومیٹر کے علاقے میں اگر بیس لاکھ درخت تھے تو چار لاکھ بچ جائیں گے۔ وہ اپنی جڑیں زمین میں گہری کر چکے ہوں گے یا راتوں کی شبنم سے پتوں کے ذریعے اپنا ماڑا موٹا گزارا چلانے کے عادی ہو چکے ہوں گے
اب درخت کم ہوں گے تو جنگل میں اندھیرا بھی کم ہو جائے گا۔ وہ جنگل، جہاں دن کے وقت بھی آدھی رات لگتی تھی، اب ادھر سورج چمکے گا
تو دھوپ کی وجہ سے انہی درختوں کے گرے ہوئے بیج جب ننھے پودوں میں تبدیل ہوں گے اور مستقبل کے درخت بننا شروع ہوں گے تو ان کو شروع سے ہی کم پانی کی عادت ہوگی اور وہ سورج کی تپش سہنا بھی جانتے ہوں گے۔
وہ پہلے سے موجود سینیئر درختوں کی نسبت بدلتے موسموں سے زیادہ اچھا لڑ بھڑ سکیں گے۔ ان کا سسٹم زیادہ بہتر ہوگا اور جڑیں زمین کے اندر گہری ترین ہوں گی
تو اس وقت بدلتے موسموں کا زمانہ ہے۔ سینیئر درخت ان لرن کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کے سائے میں جو چھوٹے درخت موجود ہیں، ظاہری بات ہے وہ بھی انہی کے نقشِ قدم پر ہیں
گویا سیکھنے سے زیادہ اس وقت پہلے سے جانی ہوئی چیزوں کو فراموش کرنا زیادہ ضروری ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی چیز تو خود جاننے کی طلب کم کرنا ہے۔ کتنا جانیں گے؟ کتنا سیکھیں گے؟ جس چیز کی جب ضرورت ہوگی، اب کمپیوٹر پہ سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جان لیجے گا۔
ہر وقت کا علم کیوں چاہیے؟ وہ سب جمع ہو کے کدھر نکلے گا؟ کیا ہر وقت کی سوال بازی اندر بے چینی پیدا نہیں کرتی؟ سوال کا چکر یہ ہے کہ آپ کی زندگی ختم ہو سکتی ہے، سوال کی نہیں۔۔ اس نے پھیلتے جانا ہے.
کسی جواب نے دس فیصد تسلی کر دینی ہے لیکن باقی نوے فیصد نے برابر اپنی جگہ دھمال مچائے رکھنا ہے، تو کیا فائدہ اس مسلسل طلب کا؟ اضطرار کا، بے چینی کا؟
جاننے کی، مزید جاننے کی، شرحِ صدر کی، مکمل جاننے کی، یہ خواہش، کبھی تو ختم ہو؟ فل اسٹاپ کبھی تو لگے؟
یہ ناممکن ہے۔۔ جیسے پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، ویسے سوال ایک اور سوال کو کھینچتا ہے، وہ سوال آس پاس کے بہت سے دوسرے سوال بیچ میں ڈال دیتا ہے اور بندہ غریب آل حریان بیچ میں کھڑا ہوتا ہے
تو مغربی کلچر کے زیرِ اثر بچپن سے جو ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ سوال کرو، کھل کے بولو، سیکھو ۔۔۔ اس میں نری بے چینی ہے، چوبیس گھنٹے کا کھپ سیاپا ہے.
اسے ان لرن کرنا ضروری ہے، سوال آئے بسم اللہ، وہ آپ کو تنگ نہ کرے، بس اتنا لاتعلق ہونا ضروری ہے، جب موقع ہوگا تو جواب بھی ادھری سے آ جائے گا کہ سوال جدھر سے آیا تھا۔
وہی دھوپ، بارشوں اور گھنے اندھیرے کا چکر ہے، سینیئر درخت فراموش نہیں کر پا رہے، نئے درخت ان لرننگ کرنا نہیں چاہتے اور موسم بدل رہے ہیں۔
سوال کی سائیڈ سے افاقہ ہونے کے بعد دوسرا نمبر ان لرننگ میں انسانوں کو سمجھنے کا ہے۔ آپ میں سے جن دوستوں کو اتفاق ہوا ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کو پڑھاتے ہوں، وہ بالخصوص جانتے ہوں گے کہ ہر ایک بچہ بالکل الگ کہانی ہوتا ہے
چار سال سے ایک دم بیبا قسم کا بچہ پانچویں سال وہ گھناؤنی حرکت کرے گا کہ آپ سوچیں گے یار اس نے یہ سارا پلان آخر بنا کس طرح لیا؟
تو انسان ایک دم غیر متوقع اشرف المخلوقات ہے۔ وہ کس لمحے کیا کرے گا، آپ یہ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
نفسیات یا ستاروں کے علم (علم واقعی؟) کو بنیاد بنا کر آپ انسانوں کی گروہ بندی کر سکتے ہیں لیکن ہر آدمی اسی گروہ والی حرکتیں بھی کرے گا جس سے وہ متعلق ہے، ایسا کبھی سو فیصد نہیں ہو سکتا
تو یہ سمجھنا کہ ہم سمجھتے ہیں، اپنے ساتھ والے، آس پاس والے، اپنے قریب کے انسانوں کو، یہ چیز بھی ان لرن کرنے کی ضرورت ہے۔ دماغ سے ایک مرتبہ کسی متوقع رویے کی امید کو باہر کرنا ہوگا، اس کے بعد وہی جنگل والی کہانی، جڑیں گہری ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
تیسری اور آخری سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان لرن کریں، فراموش کریں، نظریہ بدلیں، مگر ساتھ ساتھ آپ کو یہ علم ہو کہ آپ بدل رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے۔
جیسے پانچ برس پہلے اگر میں نے کہیں لکھا ہو کہ سوال کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے اور سوال کرنا بہت ضروری ہے تو ثم الحمدللہ، لکھا ہوگا، مانتا ہوں، لیکن ان پانچ سال میں یہ بھی میں نے ہی جانا ہے کہ سوال سے متعلق میرے خیال تبدیل ہوئے ہیں۔ انسان ہوں، سوچتا ہوں، رائے قائم کرتا ہوں، اسے بدلتا ہوں، پھر نئی بنا لیتا ہوں، آپ کو بھی بتا دیتا ہوں۔
تو چونکہ موسم بدل رہے ہیں اور بارشیں کم ہیں اور سینئر درخت ٹس سے مس نہیں ہوتے، تو چھوٹے درختوں کو بہرحال پہلے سے سیکھی ہوئی عادتیں بھلانی ہوں گی.
اس فراموشی کو حاضر ناظر دماغ کے ساتھ قبول کرنا ہوگا تاکہ ’ان لرن کلچر‘ ان کی نازائدہ پود تک، اندر موجود جینز ہی کے ذریعے سہی، پہنچ جانے کا امکان پیدا ہو، انہیں مشکل نہ ہو، وہ سورج کی تپش سہنا جانتے ہوں۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)