امام اور مقتدیوں کی الگ الگ رخ میں اٹھارہ سیکنڈ کی نماز۔۔ معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

بھارت کے شہر لکھنؤ میں حال ہی میں کھولے گئے ایک مال میں چند افراد کی جانب سے ’نماز‘ ادا کرنے کی ایک وڈیو وائرل ہونے کے بعد انتہا پسند ہندوؤں نے ایک تنازع کھڑا کر دیا ہے، جس کے بعد مال کے مسلمان مالک کو یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ ان ’نمازیوں‘ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے

لیکن اس کہانی میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی میڈیا کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ ان ’نمازیوں‘ نے یہ نماز محض اٹھارہ سیکنڈ میں ہی نماز ختم کر دی

مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ وڈیو کے مطابق ان میں سے ایک شخص، جو کہ مبینہ طور پر امام ہے، اس نے تو اپنا رخ بھی قبلے کی جانب نہیں رکھا تھا

مال کے گیٹ سے لے کر سڑک پر لگے سی سی ٹی وی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ‘نمازی’ پیدل ہی شاپنگ مال کے اندر آئے تھے۔ انھوں پہلے گراؤنڈ فلور پر ’نماز‘ پڑھنے کی کوشش کی لیکن سکیورٹی گارڈ نے انہیں روکا تو انہوں نے دوسری منزل پر جا کر ایک کونے میں ’نماز‘ پڑھی۔ مبینہ طور پر انہی کے ساتھیوں نے اس کی وڈیو بھی بنائی

اس خبر کے بعد صارفین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا وہ واقعی نمازی تھے؟

روہنی سنگھ نے سوال کیا کہ ‘تو پتہ چلا کہ لکھنؤ کے لولو مال میں نماز پڑھنے والے اداکار تھے، جو شاید سماج میں اشتعال پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن اس سے ہمارے بارے میں کیا پتا چلتا ہے؟

عطیہ زیدی نامی صارف نے لکھا کہ ”تو ’نماز‘ فرضی تھی، ’نمازی‘ بدمعاش تھے اور سارا واقعہ ایک سازش تھی۔ بیمار ذہنیت ہے۔ نفرت انگیز تعصب۔“

لولو مال کے مالک دبئی میں مقیم یوسف علی ایم اے ایک نامور بھارتی تاجر ہیں۔ لولو گروپ کے مطابق ان کا سالانہ 8 بلین امریکی ڈالر کا کاروبار ہے اور ان کے لیے ساٹھ ہزار سے زیادہ افراد خلیجی ممالک، مشرقی ایشیا، یورپ، امریکہ اور بھارت میں کام کرتے ہیں

کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ان کا لکھنؤ مال پندرہ ہزار سے زیادہ مقامی لوگوں کو براہ راست اور بالواسطہ طریقے سے ملازمتیں فراہم کرے گا۔ یہ دو ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے بنایا گیا ہے اور 2.2 ملین مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے، جسے لکھنو کا سب سے بڑا مال بتایا جا رہا ہے

معاملہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ مال کا افتتاح عید الاضحیٰ کے دن اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا تھا، جو مسلمان مخالف انتہا پسندانہ نظریات رکھتے ہیں

اگرچہ انہوں نے مال میں کوئی تقریر یا بیان نہیں دیا لیکن اس افتتاح میں ان کے ساتھ حکومتی رہنما اور اعلیٰ حکام بھی موجود تھے

مقامی میڈیا میں اس کے افتتاح کی خبر وسیع پیمانے پر شائع اور نشر ہوئی تھی۔ تمام بڑے اخبارات میں کئی صفحات پر مشتمل اشتہارات شائع ہوئے تھے۔ بی بی سی ہندی کے مطابق لکھنؤ کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی کسی مال کے آغاز سے متعلق اتنی تشہیر مقامی اور قومی میڈیا میں دیکھنے میں آئی ہے

مال کے مالک یوسف علی نے خود وزیر اعلیٰ کو گولف کارٹ پر بٹھا کر چار سو میٹر لمبا دو منزلہ مال دکھایا

اس کے افتتاح کے چند ہی دن بعد کچھ افراد کی 16جولائی کو مال میں نماز ادا کرنے کی ایک وڈیو وائرل ہو گئی

تنازعے کے بعد ایک گروپ نے مال کو بلڈوزر سے توڑنے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کو بلڈوزر سے متعلق سیاست کرنے سے انتخابی فائدہ ہوا ہے۔ ان کے مداح انہیں ’بلڈوزر بابا‘ کہتے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ غیر قانونی تعمیرات اور مجرموں پر حملے کی آڑ لے کر مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں

معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ’دی ٹیلی گراف‘ اخبار نے لکھا کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس مال کا افتتاح کیا تھا لیکن اب وہ خود اس کے لیے حملے کی زد میں آگئے ہیں۔ ’بدمعاشوں پر بلڈوزر چلانے کی بات کرنے والے وزیر اعلیٰ سے اب ہندو تنظیمیں لولو مال پر بلڈوزر چلانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔‘

اس دوران مال انتظامیہ نے ’نماز‘ پڑھنے والے لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ پولیس کو لکھے گئے خط میں مال انتظامیہ نے یہ واضح کیا کہ ’مال کے عہدیداروں کے ذریعے کی گئی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ لولو مال میں تعینات کوئی افسر یا ملازم نماز میں شامل نہیں تھا‘

پولیس نے پورے معاملے کی جانچ کے لیے چند افراد کو حراست میں لیا ہے

وڈیو وائرل ہوتے ہی مال میں نماز کے خلاف احتجاج کرنے والی ایک تنظیم کے ترجمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بدھ کو مال میں سر عام نماز ادا کی گئی۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم وہاں سندر کانڈ اور ہنومان چالیسہ پڑھنا چاہتے ہیں‘

انھوں نے الزام لگایا ‘ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مال کے 70 فیصد ملازمین مسلمان اور 30 فیصد ہندو ہیں۔ مال مسلمانوں اور اسلام کو فروغ دے رہا ہے۔‘

چند سوشل میڈیا صارفین نے بھی اس طرح کا الزام لگایا کہ اس میں 80 فیصد ملازم مسلم مرد ہیں اور 20 فیصد ہندو خاتون ہیں اور یہ کہا کہ یہ ’لو جہاد‘ کی کوشش ہے

مال نے ایک بیانیہ جاری کر اس خبر کی تردید کی ہے

صارف زویا رسول نے افسوس ظاہر کیا کہ دائیں بازو کے اثر و رسوخ کی قیادت میں ایک بدنیتی پر مبنی جعلی خبر پھیلائی گئی کہ لولو مال کے 80 فیصد ملازمین مسلمان ہیں اور باقی ہندو خواتین ہیں۔ انھوں نے کہا ’آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنے بیمار ذہن لوگ ہیں۔ مال انتظامیہ نے آج وضاحت جاری کی ہے لیکن میرے خیال میں (بدنام کرنے کا) کام پورا ہو چکا ہے۔‘

فی الحال پولیس مال کے سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ پڑتال کرکے ‘نمازیوں’ کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے

وڈیو وائرل ہوتے ساتھ ہی اس طرح کی منظم مہم سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ ”نماز“ بھی انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے اسی مسلم دشمن مہم کا طے شدہ حصہ تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close