سینیٹ الیکشن میں صورتحال کیا ہوگی؟

سالار سلیمان

سینیٹ کے انتخابات سر پر آچکے ہیں۔ یہ بات تو کنفرم ہی کہہ لیجیے کہ بولیاں لگ رہی ہوں گی، ضمیر خریدے جا رہے ہوں گے۔ حکمران جماعت کا یہ کہنا ہے کہ ہم اس بازار کے سوداگر نہیں ہیں۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔ دادا جی کا تو قول ہے کہ جو جرم یہ لمحہ موجود میں کر رہے ہوتے ہیں، اس کا الزام یہ دوسروں پر لگاتے ہیں۔ تو دیکھ لیجیے، ابھی سینیٹ کی خرید و فروخت کی ویڈیو مارکیٹ میں آگئی ہیں ناں؟ ’کیسے آئی، کیوں آئی‘ کو چھوڑیئے، لیکن اس نقطے پر غور کیجئے، کب آئی اور وائرل ہوئی۔ آج کل جماعت اسلامی کے دیر سے ایک ایم پی اے کا قصہ بہت مشہور ہے جس نے نو کروڑ روپے نقد اور 50 لاکھ روپے کی ویگو کے باوجود اپنا ووٹ بیچنے سے انکار کردیا تھا۔

پاکستان سمیت بیشتر دنیا میں سیاست ایک کاروبار بن چکی ہے، اس میں سرمایہ کاری ہوتی ہے اور لوگ منتخب ہو کر سود سمیت منافع لیتے ہیں، حتیٰ کہ جو ہار جاتے ہیں، نقصان ان کو بھی نہیں ہوتا۔ اس کاروبار میں صرف عام آدمی نقصان میں ہوتا ہے، سیاستدان جیتے یا ہارے، اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔

سینیٹ کے انتخابات ہر 3 سال کے بعد ہوتے ہیں جن میں سینیٹرز کو 6 سال کےلیے منتخب کیا جاتا ہے۔ سینیٹ کے آخری الیکشن 2018 کے انتخابات سے پہلے ہوئے تھے۔ اس ڈیٹا کو بنانے میں میرے دوست ماجد نظامی صاحب نے خاصی محنت اور مدد کی ہے۔ مارچ 2021 میں الیکشن ہونے ہیں، جس میں 52 نشستوں پر انتخاب ہوگا۔ اس میں خیبر کی 12 سیٹیں، پنجاب کی 11 سیٹیں، سندھ کی 11 سیٹیں، فاٹا کی 4 سیٹیں اور اسلام آباد کی 2 سیٹیں ہوں گی۔ موجودہ سینیٹ سے ن لیگ کے 17، پی پی کے 7، پی ٹی آئی کے 7، بلوچستان عوامی پارٹی کے 3 جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2، خیبرپختونخوا ملی عوامی پارٹی کے 2، نیشنل پارٹی کے 2، جماعت اسلامی کا ایک، عوامی نیشنل پارٹی کا ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک سینیٹر سمیت 5 آزاد سینیٹرز ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔

فی الوقت، یعنی اگر کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی ہے تو سینیٹ میں انتخاب کا طریقہ کچھ یوں ہے کہ سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ سسٹم کے تحت انتخابات ہوتے ہیں۔ اس میں اسمبلی کے ارکان کو 4 پرچیاں دی جاتی ہیں، جس میں وہ اپنی ترجیحات کے مطابق اول، دوم اور سوئم کا انتخاب کریں گے۔

موجودہ سیٹ اپ میں اگر ’’کچھ‘‘ نہیں ہوتا ہے تو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اکثریت کے باعث پنجاب سے 6 سے 7 سیٹیں پی ٹی آئی کے حصے میں آسکتی ہیں اور چونکہ مسلم لیگ ق کے بھی ایم پی ایز ایوان میں موجود ہیں، لہٰذا ق لیگ بھی ایک سینیٹر منتخب کروانے کی پوزیشن میں ہے۔ ن لیگ کو یہاں سے 3 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ اگر ق لیگ کا حکومت سے مکمل اتحاد ہوجاتا ہے تو بھی نمبرز گیم میں کوئی اتنا بڑا فرق نظر آنے کا امکان نہیں ہے، کیونکہ سیاست میں لین دین ایک سطح پر ہی چلتا ہے اور یہ تو پھر سینیٹ کا انتخاب ہے۔

سندھ اسمبلی میں پی پی کو 8 سیٹیں مل سکتی ہیں اور ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی اتحاد 3 سیٹیں حاصل کرے گا۔ ویسے، کوئی علم نہیں کہ اگر زرداری فیکٹر چل جائے تو وہ 8 کو 11 میں بدل دے۔

خیبر اسمبلی میں پی ٹی آئی کو 9 سیٹیں ملنے کا امکان ہے، جبکہ مخالف اتحاد 3 سیٹیں نکال سکے گا۔ یہاں بھی اگر خٹک فیکٹر چل گیا تو 9 کا 12 ممکن ہے۔

بلوچستان میں نمبرز گیم اتنی سادہ نہیں ہے۔ یہاں سے پی ٹی آئی اور بی اے پی مل کر 8 سیٹیں نکال سکتے ہیں، جس میں 2 سیٹیں پی ٹی آئی کی ہوں گی۔

فاٹا سے 3 امیدواران آزاد آئیں گے، جبکہ ایک نشست پی ٹی آئی نکال سکتی ہے۔

اسلام آباد میں دلچسپ مقابلہ ہوگا۔ یہاں سے بظاہر دونوں سیٹیں پی ٹی آئی کے پاس جائیں گی لیکن یوسف رضا گیلانی صاحب کا اسلام آباد سے الیکشن لڑنا کسی اور بات کی جانب اشارہ دے رہا ہے۔

موجودہ گنتی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کو سینیٹ میں 104 کے ایوان میں کچھ سبقت حاصل تو ضرور ہوگی۔ لیکن یہ یاد رہے کہ واضح اکثریت نہ ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اصل لگام کسی اور کے پاس ہے۔ کس کے پاس ہے؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ شمالی علاقہ جات میں ابھی بھی ٹھنڈ بہت ہے اور اس موسم میں لگنے والی چوٹ بہت درد کرتی ہے۔

بشکریہ ایکسپریس اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close