انتہاؤں میں بٹے ہوئے اس معاشرے میں، اعتدال کسی کونے میں اداس بیٹھا سب کو اداس آنکھوں سے تک رہا ہے.
جی ہاں، ایک طرف معاشرے کی روایتی انتہا پسندی ہے، جہاں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے… اور دوسری طرف "روشن خیال” انتہا پسندی ہے، جو مثبت معاشرتی روایات کو بھی روندنے پر تُلی ہوئی ہے.
بات عجیب سی ہے، لیکن سچ پوچھیں تو حقیقت یہی ہے کہ مقصد دونوں کا ایک ہی ہے.. عورت کا استحصال! بس طریقۂ واردات کا فرق ہے!
روایتی طریقے کو جدت کے خوشنما ریپر میں لپیٹ کر غلامی سے ایک اور غلامی کی طرف ایک سفر لاحاصل.. مردوں کی خواہشات کی ایک ایسی غلامی، جس کا نام آزادی رکھ دیا گیا ہے.
گورباچوف نے اپنی کتاب پروسترائیکا میں ایک بڑی دلچسپ بات کہی تھی، اس نے لکھا تھا کہ معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ہم نے عورت کو ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کر کے، معاشی طور پر تو بڑی حد تک استحکام حاصل کر لیا، لیکن ہم نے اس کی بھاری قیمت خاندانی نظام کی تباہی کی صورت میں ادا کی ہے. اپنے تجربات کی روشنی میں گورباچوف نے اس معاشرتی تباہی کی تلافی کے طور پر جو اقدامات تجویز کیے تھے، اگر وہ میں یہاں تحریر کروں تو یقین مانیے کہ روشن خیال مفتیوں کی طرف سے دقیانوس کا خطاب پا لوں.
اٹھارویں صدی میں فرانس میں برسر اقتدار طبقے نے کلیسا کے مذہبی ادارے کو عوام کے استحصال کے لیے بطور جذباتی ڈھال استعمال کیا. اس مقصد کے لیے "انسان پیدائشی گناہ گار ہے” کے عقیدے کو فروغ دیا گیا، جس کا مقصد لازمی طور پر لٹنے والی رعایا کو یہ باور کرانا تھا کہ اے پیدائشی طور پر گناہ گار انسانو! تمہاری زندگی محض ایک تلافی ہے، چپ چاپ اسے بگھتتے رہو.. ان حالات میں جین جیک روسو نے فطرتیت کے نام پر فطری آزادی کا نعرہ بلند کیا، جو دوسرے الفاظ میں بے مہار آزادی تھی. استحصالی طبقے کی طرف سے استحصال کے لیے روایتی ہتھکنڈے جس قدر شدید تھے، اس کا مخالف رد عمل بھی اتنا ہی شدید تھا.. معاشرے کا ایک طبقہ خالی کھوپڑی، بند آنکھیں، خاموش زبانیں اور اندھی حکم بجا آوری چاہتا تھا، دوسرے طبقے نے معاشرے کو ہی تمام برایوں کی جڑ قرار دے کر اس کی مثبت روایات تک کو ماننے سے انکار کر دیا.. یعنی ایک طرف مکمل غلامی اور دوسری طرف بے مہار آزادی.. یہ معاشرے کے دو انتہاؤں میں بٹنے کی ایک واضح مثال ہے. بعد ازاں اس حیاتیاتی فطرتیت کے مقابلے میں معتدل طبقے نے کرداری فطرتیت کی تحریک شروع کی، اور مندرجہ بالا دونوں طبقات کو غلط ثابت کیا.
آج کے حالات پر ذرا نظر دوڑائیے، کہ کیا ہو رہا ہے. کھل کر لکھنے کے لیے میرے پاس مشاہدات بھی بہت ہیں اور الفاظ بھی.. لیکن میں اپنے نظریات آپ پر تھوپنے کی بجائے یہ چاہوں گا کہ آپ موجودہ معاشرتی حالات کا خود جائزہ لیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں کہ کس طرح عورت پرانے شکاریوں اور نئے شکاریوں کے بیچ ایک شکار بن کر رہ گئی ہے. ایک طرف روایات کا پنجرہ ہے تو دوسری طرف خوبصورت نعروں سے ڈھکا ایک خوشنما جال، جسے آزادی کا نام دے دیا گیا ہے. اس تمامتر شور میں عورت کے اصل مسائل کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں..
اور انتہاؤں میں بٹے ہوئے اس معاشرے میں، اعتدال کسی کونے میں اداس بیٹھا سب کو اداس آنکھوں سے تک رہا ہے…
یہ بھی پڑھیں :