ایک قسم کا سمندری گھونگھا یا سی سلگ خطرے کی صورت میں اپنا سر خود کاٹ لیتا ہے اور پھر اس سر سے پورا جسم اُگا لیتا ہے
سمندر میں گھونگھوں سے مشابہہ جانور کثرت سے پائے جاتے ہیں، جنہیں سی سلگ کہا جاتا ہے۔ جاپانی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ’سی سلگ‘ کی دو ایسی اقسام بھی ہیں، جو خطرے کے وقت اپنا سر خود ہی کاٹنے باوجود زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں
سائنسدانوں کے مطابق وہ کٹا ہوا سر غذا کھاتا ہے اور دھیرے دھیرے گردن کے نیچے سے پورا دھڑ، اعضا اور دیگر نظام تشکیل پاتا ہے اور ایک نیا سی سلگ بن جاتا ہے۔ اس پرانے سر پر ایک نیا دھڑ اُگ آتا ہے
حیرت انگیز طور پر اپنا سر قلم کر دینے کے بعد بھی سی سلگ کھاتا ہے، حرکت کرتا ہے اور فضلہ بھی خارج کرتا ہے۔ اس کے دو سے تین ہفتے بعد جانور کا دل اور اس سے وابستہ نظام سمیت پورا جسم بن جاتا ہے۔ جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بغیر سر کا دھڑ بھی کئی ماہ تک زندہ رہتا ہے۔ اس کا دل دھڑکتا رہتا ہے۔ لیکن جسم اپنا سر نہیں بنا پاتا اور آخرکار گل سڑ کر ختم ہوجاتا ہے
جاپان کی نارا وومن یونیورسٹی کے سائنسداں سایاکا مائٹو اور ان کے ساتھیوں نے یہ حساس تجربات کئے ہیں۔ ان کے مطابق سر میں دماغ اور دانت سمیت قلبی خلیات پائے جاتے ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ خلیات ایک پورا جسم تشکیل دیتے ہیں
مائٹو نے تجربہ گاہ میں سی سلگ کی ایک قسم کو پالا جسے ’سیکوگلوسان‘ کہتے ہیں۔ انہوں نے مجبور کیا کہ گھونگھا اپنا سر خود اتارے۔ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ سلگ کی گردن کے پاس خاص نشانات تھے جو انہیں گردن توڑنے میں مدد دیتے ہیں
اس کے بعد چھ عدد گھونگھوں کی گردن پر دھیرے سے باریک دھاگہ باندھا گیا، تو سب نے ایک ہی دن میں اپنا سر کاٹ ڈالا۔ سر الگ ہونے کے بعد الجی کھانے لگے اور ماہرین نے دیکھا کہ سر میں موجود غدود کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دے رہے تھے۔ تجربہ گاہ میں 160 سی سلگ رکھے گئے تھے جو دوسال کے اندر طبعی موت م رگئے
تجربہ گاہ میں پالے گئے پندرہ میں سے پانچ اور ماحول سے پکڑے گئے 145 جنگلی سلگ میں سے تین نے اپنے سر کاٹ ڈالے۔ 39 جانوروں نے اپنے جسم کے مختلف اعضا اور پیروں کو الگ کر دیا
ہم دیکھتے ہیں کہ عام چھپکلی خطرے کی صورت میں دم الگ کر دیتی ہے اور دیگر جانور بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس عمل کو آٹو ٹومائز کہا جاتا ہے۔ تاہم سی سلگ کا معاملہ ان کے مقابلے میں بہت انوکھا اور مختلف ہے کیونکہ وہ اپنا سر ہی نکال دیتے ہیں
ماہرین کا خیال ہے کہ جب سلگ کے جسم میں کوئی پیراسائٹ پہنچ جائے تو وہ اپنے بیمار بدن سے جان چھڑالیتے ہیں۔ ان پیراسائٹس کو سیپوپوڈز کہا جاتا ہے۔ اگر سی سلگ اس سے جان نہ چھڑائیں تو وہ خود موت کے شکار ہو سکتے ہیں۔ تسائنسدانوں نے اس ضمن میں مزید تحقیق پر بھی زور دیا ہے.