کیا قدیم یونانیوں اور رومیوں میں الزائمر کی بیماری موجود تھی؟

ویب ڈیسک

کیا آپ کو لگتا ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ یادداشت سے متعلق ڈیمنشیا اور الزائمر کے امراض قدیم دنیا تک پھیلے ہوئے ہیں؟

کلاسیکی یونانی اور رومن طبی تحریروں کے ایک نئے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یادداشت کا شدید نقصان – جو آج وبائی سطح پر موجود ہے دو ہزار سے ڈھائی ہزار سال پہلے، ارسطو ، گیلن اور پلینی دی ایلڈر کے زمانے میں انتہائی نایاب تھا۔

جی ہاں، قدیم یونان اور روم میں بوڑھے لوگوں کو شاید یادداشت کے شدید مسائل کا سامنا نہیں ہوا ہوگا، جیسا کہ آج بہت سے عمر رسیدہ لوگوں کو ہے۔

یو ایس سی کی زیرقیادت تحقیق، جو ’جرنل آف الزائمر ڈیزیز میں شائع ہوئی‘ ، اس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ الزائمر کی بیماری اور اس سے متعلقہ ڈیمنشیا جدید ماحول اور طرز زندگی کی بیماریاں ہیں، جس میں فضائی آلودگی کا اہم کردار ہے۔

کیلیفورنیا کے محققین نے انسانی صحت پر آٹھویں صدی قبل مسیح اور تیسری صدی عیسوی کے درمیان لکھی گئی کئی کلاسیکی تحریروں کا مطالعہ کیا ہے، اور حیرت انگیز طور پر بڑی عمر کے لوگوں میں علمی خرابی کے حوالے سے چند حوالہ جات پائے ہیں۔

اگرچہ قدیم یونانیوں میں عمر بڑھنے سے یادداشت کے مسائل عام طور پر آتے ہیں جن کو ہم ہلکے علمی خرابی، یا MCI کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں جو کہ یادداشت، تقریر اور استدلال کے بڑے نقصان کے قریب بھی پہنچتا ہے، جیسا کہ الزائمر اور دیگر قسم کے ڈیمنشیا کی وجہ سے ہوتا ہے۔

یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں عمر بڑھنے کے طریقہ کار کا مطالعہ کرنے والے کیلیب فنچ اور کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مؤرخ اسٹینلے برسٹین کے مطابق، 2000 سال سے یادداشت میں شدید کمی زیادہ عمر کے بڑھنے کا ایک انتہائی نایاب نتیجہ ہو سکتا ہے۔

اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قدیم رومی اور یونانی پختہ عمر تک زندہ نہیں رہتے تھے

جبکہ عام دور سے پہلے متوقع اوسط عمر آج کے مقابلے میں تقریباً نصف تھی ، اس وقت 35 سال کی عمر کو شاید ہی ’بوڑھا‘ سمجھا جاتا تھا۔ قدیم یونان میں موت کی درمیانی عمر، کچھ اندازوں کے مطابق ، 70 سال کے قریب تھی، جس کا مطلب ہے کہ معاشرہ کا نصف اس سے بھی زیادہ عرصہ تک زندہ رہتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مشہور یونانی طبیب اور طب کا نام نہاد باوا ہپوکریٹس خود 80 یا 90 کی سال کی عمر میں مرا تھا۔

اِس وقت بڑھتی عمر ڈیمنشیا کے لیے واحد سب سے بڑے خطرے کے عنصر کے طور پر جانی جاتی ہے، جس میں آج کل 85 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں سے تقریباً ایک تہائی لوگ اس حالت میں مبتلا ہیں۔ 65 سال سے زیادہ عمر کی تشخیص ہر پانچ سال بعد دوگنی ہو رہی ہے۔

یادداشت کا نقصان جدید دنیا میں بڑھتی عمر کی ایک بہت عام خصوصیت ہے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ قدیم ماضی میں، فنچ اور برسٹین کو ہپوکریٹس، اس کے بعد کے پیروکاروں، یا یہاں تک کہ ارسطو کی طبی تحریروں میں یادداشت کی کمی کا کوئی ذکر نہیں ملا۔

چوتھی اور تیسری صدی قبل مسیح کی یونانی تحریروں میں، بڑھاپا جسمانی زوال کی بہت سی علامات سے منسلک تھا، جن میں بہرا پن، چکر آنا، بے خوابی، اندھے پن اور ہاضمے کی خرابی شامل ہیں، کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن یادداشت کی کمی کا کوئی ذکر نہیں

فنچ اور برسٹین لکھتے ہیں ، ”ہمیں [الزائمر کی بیماری اور متعلقہ ڈیمنشیا] کے جدید کیس رپورٹس کے برابر نہیں ملا۔

”علمی نقصان کے ان قدیم کھاتوں میں سے کسی کو بھی جدید معنوں میں کلینیکل گریڈ ڈیٹا نہیں سمجھا جا سکتا۔“

تاریخی جائزے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیمنشیا کی آج کی بیماری ، جس کا تجربہ دنیا بھر کی متعدد اقوام نے کیا ہے، واضح طور پر جدید زندگی کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ درحقیقت، حالیہ مطالعات نے ڈیمنشیا اور اس کی سب سے عام ذیلی قسم، الزائمر کی بیماری کو قلبی مسائل، فضائی آلودگی، خوراک اور شہری ماحول میں پسماندہ محلوں سے جوڑا ہے ، یہ سب جدیدیت کی عام پریشانیاں ہیں۔

تاہم، قدیم زمانے میں، فنچ اور برسٹین نے اس بات کا ثبوت پایا کہ اس دور میں، جب ’ذہنی زوال کو تسلیم کیا گیا تھا‘، اسے ’غیر معمولی سمجھا جاتا تھا۔‘

ارسطو اور ہپوکریٹس کے زمانے میں، وہ کہتے ہیں، صرف چند روایات میں ایسی علامات کا تذکرہ کیا گیا ہے، جو ابتدائی یا درمیانی مرحلے میں الزائمر کی بیماری کی نشاندہی کر سکتی ہیں، جس میں یادداشت، تقریر یا استدلال میں بڑے نقصانات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

یہاں تک کہ رومن سیاستدان، سیسیرو نے بھی بڑھاپے کی ’چار برائیوں‘ پر اپنی تحریروں میں یادداشت کی کمی کا کوئی ذکر نہیں کیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلی صدی قبل مسیح کے وسط تک یہ عمر کی ایک غیر معمولی علامت تھی۔

صدیوں بعد قدیم روم میں، چند تذکرے سامنے آئے۔ جب تک فنچ اور برسٹین پہلی صدی عیسوی کے تاریخی متن تک نہیں پہنچے، دونوں نے عمر سے متعلق یادداشت کے شدید نقصان کا کوئی ذکر نہیں پایا۔ گیلن نے ریمارکس دیئے کہ 80 سال کی عمر میں کچھ بزرگوں کو نئی چیزیں سیکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم پہلا ایڈوانس کیس پلینی دی ایلڈر نے لکھا تھا، جس کا انتقال 79 عیسوی میں ہوا تھا۔ پلینی دی ایلڈر نے سینیٹر اور مشہور خطیب والیریئس میسلا کورونس کا ذکر کیا ہے ، جو عمر کے ساتھ اپنا نام بھول گئے تھے۔

سیسرو نے بخوبی مشاہدہ کیا کہ "بزرگوں کی بے وقوفی۔۔ غیر ذمہ دار بوڑھے مردوں کی خصوصیت ہے، لیکن تمام بوڑھوں کی نہیں۔“

دوسری صدی میں رومی شہنشاہ کے ذاتی معالج، گیلن نامی یونانی طبیب نے دو طاعون سے بچ جانے والوں کے بارے میں لکھا، جو بظاہر خود کو یا اپنے دوستوں کو نہیں پہچان سکتے تھے۔

اس وقت تک، امپیریل روم میں فضائی آلودگی پھیل چکی تھی اور کھانا پکانے کے برتنوں سے سیسہ نکلتا تھا اور تہذیب کا پلمبنگ سسٹم بہت تیزی سے پھیل چکا تھا۔

فنچ کا قیاس ہے کہ جیسے جیسے رومن شہر گھنے ہوتے گئے، آلودگی میں اضافہ ہوا، جس سے علمی زوال کے واقعات بڑھ گئے۔ اس کے علاوہ، رومن اشرافیہ نے سیسہ پکانے کے برتنوں، پانی کے سیسہ کے پائپوں کا استعمال کیا اور یہاں تک کہ اسے میٹھا کرنے کے لیے اپنی شراب میں لیڈ ایسٹیٹ بھی شامل کیا – نادانستہ طور پر طاقتور نیوروٹوکسن سے خود کو زہر آلود کر دیا۔

(کچھ قدیم مصنفین نے سیسہ پر مشتمل مواد کے زہریلے ہونے کو تسلیم کیا، لیکن 20 ویں صدی تک اس مسئلے سے نمٹنے میں بہت کم پیش رفت ہوئی۔)

فنچ اور برسٹین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے عوامل سے عوام کو الزائمر کی بیماری کا زیادہ خطرہ لاحق ہو سکتا تھا، جو بڑھاپے کی غیر معمولی علامات کو متحرک کر سکتا تھا، جو گزرے ہوئے وقتوں میں شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے۔

مزید اعداد و شمار کے بغیر، یہ کہنا ناممکن ہے کہ ڈیمنشیا کی شدید علامات قدیم یونان کی نسبت امپیریل رومن کے ریکارڈ میں زیادہ کیوں نمایاں ہوتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آج کل ایسے معاشرے رہتے ہیں، جن میں ڈیمنشیا کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے، جو اس نظریہ کی تائید کرتی ہے کہ ماحولیاتی عوامل عمر بڑھنے سے زیادہ علمی زوال کو متاثر کر سکتے ہیں۔

اس مقالے کے لیے فنچ نے صرف رومن ایمپائر یا یونانیوں کے بارے میں نہیں سوچا ۔ قدیم یونان اور روم کے ڈیموگرافک ڈیٹا کی عدم موجودگی میں، فنچ نے قدیم عمر رسیدگی کے لیے ایک حیران کن ماڈل کی طرف رجوع کیا: آج کے Tsimane Amerindians ، بولیوین ایمیزون کے ایک مقامی لوگ۔

بولیوین ایمیزون کے جدید Tsimané اور Moseten لوگوں میں ڈیمنشیا کے واقعات امریکہ یا یورپ کے مقابلے میں 80 فیصد کم ہیں۔ ان کے دماغ دنیا کے کسی اور جگہ کے لوگوں کی طرح بوڑھے نہیں لگتے ، اور ان کا طرزِ زندگی صنعت کاری یا شہری کاری پر مبنی نہیں ہے، بلکہ کھیتی باڑی اور چارے کے روایتی طریقوں پر مبنی ہے۔

فنچ اور برسٹین اب قدیم اور جدید دور میں ڈیمنشیا کی تاریخ کے بارے میں ’وسیع تر تحقیقات‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ بڑی عمر کے لوگوں میں یادداشت کے شدید نقصانات کب اور کیوں ظاہر ہونا شروع ہوئے۔

یہ مطالعہ ’جرنل آف الزائمر ڈیزیز‘ میں شائع ہوا۔
ترجمہ: امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close