گوادر میں جاپانی ایٹمی ری ایکٹر کا زہریلا پانی سمندر میں چھوڑنے کے خلاف ماہیگیر سراپا احتجاج

ویب ڈیسک

دنیا بھر کی طرح گوادر کے ماہیگیر بھی جاپانی حکومت کی ٹوکیو پاؤر کمپنی (ٹیپکو) کے مشورہ سے فوکوشیما کے ایٹمی ری ایکٹر کی تابکاری سے متاثرہ زہریلا پانی سمندر میں چھوڑ دینے کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے

تفصیلات کے مطابق ماہیگیروں نے گوادر پریس کلب کے سامنے خاموش احتجاجی مظاہرہ کیا، انہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر جاپان کی نئی پالیسی کے خلاف نعرے درج تھے

گوادر پریس کلب میں ماہیگیر رہنما عطا بہرام، افضل جان اور دیگر نے پریس بھی کانفرنس کی

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ماہیگیر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ماہیگیروں کا ذریعہ معاش ماہیگیری ہے دنیا بھر کے ماہیگیر اپنی معاش سمندر میں تلاش  کرتے ہیں۔ ہمارے سمندر کو ٹرالرز مافیا نے بانجھ پن کرنے میں پہلے ہی کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب سمندری حیات کو بحری قزاق مختلف طریقوں سے لوٹ کر بانجھ بنا رہے ہیں، ایسے میں دنیا بھر کے ماہیگیروں کو ایک نئے اور خطرناک صورتِ حال درپیش ہیں

انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل ماہیگیر تظیموں نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہیگیروں کو پیغام پہنچایا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے انسانی حقوق کے علمبردار ملک جاپان کی جانب سے ایک خطرناک کھیل کھیلنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ ہم آپ کے توسط سے حکومتِ جاپان کو یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اس کھیل سے باز رہیں اور دنیا بھر کے سمندر اور سمندر سے جڑی ہر چیز کی زندگی کو داؤ پر نہ لگائیں

انہوں نے کہا کہ عالمی ماہیگیر تنظیموں کی جانب سے ہمارے علم میں لایا گیا ہے کہ2011 میں جاپان میں آئے زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کے سانحے سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ فوکوشیما ميں آج بھی تقريباً ایک لاکھ لوگ اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں وہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ابتدائی طور پر زلزلے اور سونامی میں ہلاک ہونے والوں سے بھی زيادہ ہے۔ اِن میں سے کئی اموات کی وجہ خودکشی، ذہنی دباؤ اور بیماریوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگرچہ ایٹمی تابکاری ان ہلاکتوں کی براہ راست وجہ نہیں ہے تاہم اس پورے علاقے میں اور ری ایکٹر کے آس پاس پھیلی ہوئی ایٹمی تابکاری کے سبب وہاں رہنے والے لوگ اب مکمل بے گھر ہو چکے ہیں اور اپنے گھروں سے بے دخلی  اور وہاں سے نقل مکانی کا غم انہیں مار رہا ہے۔  انہوں نے کہا جہاں ایک جانب یہ ساری صورتحال دکھ دیتی ہے وہیں دوسری جانب ایک اور خبر اس سے کہیں زیادہ پریشان کن ہے۔ وہ خبر یہ ہے کہ جاپانی حکومت نے ٹوکیو پاور کمپنی (ٹیپکو) کہا جاتا ہے، کا یہ مشورہ قبول کرلیا ہے کہ فوکوشیما کے ایٹمی ری ایکٹر کی تابکاری سے متاثرہ زہریلا پانی سمندر میں چھوڑ دیا جائے گا۔

ماہیگیر رہنماؤں نے کہا جب سال 2011 میں زلزلہ اور سونامی آیا اور یہ معلوم ہوا کہ فوکوشیما کا ایٹمی ری ایکٹر اس کی وجہ سے لیکج کرنے لگا ہے تو ٹیپکو نے حکام کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ ری ایکٹر سمندر کے کنارے واقع ہے لہٰذا سمندر کے پانی کو ایٹمی ری ایکٹر میں داخل کردیا جائے تاکہ اس میں پیدا ہونے والی تپش ختم ہو اور ایٹمی تابکاری مزید نہ پھیلے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے والا نقصان کم ہو۔ اس تجویز کے نتیجے میں سمندر کے پانی کی مدد سے ایٹمی ری ایکٹر سے خارج ہونے والی تابکاری زدہ نیوکلیئر ویسٹ جس کی مقدار ایک اعشاریہ پچیس ملین ٹن تھی ، کو پلانٹ کے اندر موجود ٹینکس میں اسٹور کر لیا گیا۔ ٹیپکو حکام نے یہ پیشگوئی کی ہے کہ سال 2022 تک ایٹمی پلانٹ کے سبھی اسٹوریج ٹینکس مکمل بھر جائیں گے۔ اس صورتحال کے سبب جاپانی حکومت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ ایٹمی تابکاری سے متاثرہ اس پانی کو واپس سمندر برد کر دیا جائے ۔ اگرچہ اس پانی میں ایٹمی تابکاری کے اثرات موجود ہوں گے۔
اس معاملے پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اس نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ٹیپکو حکام نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے بہت سی تجاویز پر غور کیا۔ جس میں نئے اسٹوریج ٹینکوں کی تعمیر، کسی اور جگہ ٹینکس کی تعمیر ، ایٹمی فضلے کو زمین بُرد کرنا، یا ایٹمی فُضلے کی صفائی کے بعد اسے سمندر بُرد کرنا، یا اسے بھاپ کی صورت فضاء میں خارج کردینا وغیرہ شامل تھا۔ لیکن بالآخر انہوں نے سب سے سستا طریقہ اختیار کیا جسے جاپانی حکومت سب سے بہترین حل قرار دے رہی ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ گرین پیس کے ایسٹ ایشیاء آفس کی جانب سے یہ بتایا جارہا ہے کہ ایٹمی تابکاری اور فُضلے کی صفائی کے لئے پمپنگ اور فلٹریشن کا جو جدید نظام ٹیپکو کے پاس ہے وہ ایٹمی فضلے میں موجود مضر عناصر مثلاً ٹرائیٹم ، کاربن فور ٹین ، اور دیگر ریڈی ایکٹو آئی سو ٹوپس مثلاً سٹورنیٹئیم نائنٹی ، آئیوڈین ون ٹوئینٹی نائن اور کوبالٹ سکسٹین کو تلف کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ ماہیگیروں نے کہا ہے کہ ماحولیاتی ماہرین تجزیہ کار اور ادارے اس معاملے پہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ٹیپکو فوکوشیما ری ایکٹر کے ایٹمی فُضلے کو تلف کرنے کے لئے ایٹمی فُضلے اور تابکاری سے متاثرہ زہریلے پانی کو سمندر میں چھوڑنے سے پہلے صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اور کیا جاپانی حکومت اور ٹیپکو کے ماضی کو دیکھتے ہوئے ان کے اس دعویٰ کو مان لیا جائے کہ ان کا یہ منصوبہ ماحول دوست ہے؟ سال انیس سو ستتر (1977ء) سے لے کر آج تک فوکوشیما ، ڈائیچی اور کاشی وازاکی کاریوا میں واقع 13ایٹمی ری ایکٹروں کی لگ بھگ 200 مرتبہ جانچ کی گئی ہے اور اس دوران ٹیپکو پہ یہ الزامات لگے ہیں کہ وہ دئیے گئے اعداد و شمار میں خرد برد کرتے ہیں اور غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا ٹیپکو کی اہلیت اس لئے بھی مشکوک ہے کیونکہ اس پر ایک اور ایٹمی پلانٹ جو کہ نیگاتا میں واقع ہے ، کے حفاظتی پروٹوکول کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد ہے۔ ٹیپکو کی نااہلی اور نیوکلئیر مواد کی حفاظت سے غفلت کی بنیاد پر جاپان کی نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے عارضی معطلی کی سزا سنائی گئی ہے اور اس کے غلط اقدامات پر درجہ چہارم کی سُرخ وارمنگ بھی جاری کی جا چکی ہے۔ ماہیگیر رہنماؤں نے کہا کہ سائنسدانوں کے مطابق اگر کم مقدار میں بھی ٹریٹیئیم سے متاثرہ پانی کو ایٹمی پلانٹ کے قریبی پانیوں میں چھوڑا گیا تو علاقے میں موجود مچھلی کی صنعت تباہ ہوکر رہ جائے گی۔ ماحولیاتی ادارے اس لئے بھی تشویش کا شکار ہیں کہ  سال دوہزار گیارہ (2011ء) میں جاپانی حکومت نے خود ہی فوکوشیما میں جانوروں کے گوشت میں تابکاری کے اثرات کے خدشات کے بعد علاقے سے ہر قسم کے گوشت کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جاپانی حکومت کا صحت عامہ کے حوالے سے یہ اقدام فوکوشیما کے علاقے میں مارچ  دوہزار گیارہ (2011ء) میں سونامی کے نتیجے میں متاثر ہونے والے جوہری گھر سے پھیلنے والی تابکاری جس نے وسیع علاقے کو متاثر کیا تھا، کے بعد سامنے آیا تھا۔ انیوں نے کہا کہ اس علاقے میں مچھلی کی صنعت ابھی تک بحران سے نہیں نکل سکی اور لوگ ابھی تک فوکوشیما کے علاقے سے آنے والی مچھلی خریدنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ٹیپکو حکام کے اس فیصلے کے بعد کہ وہ تابکاری سے متاثرہ پانی کو سمندر میں پھینکنے کا ارادہ رکھتے ہیں، کچھ اداروں نے صارفین کی آراء معلوم کی کہ کیا وہ اس کے بعد بھی فوکوشیما اور آس پاس کے علاقوں سے آنی والی سمندری غذا خریدیں گے تو اکثریت کا جواب نفی میں تھا۔ جرمنی میں گرین پیس سے وابستہ سینئر نیوکلیر سائنسدان شاؤن برنی جو کہ باقاعدگی سے فوکوشیما کا دورہ کرتے رہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ "تابکاری سے متاثرہ ٹریٹئیم کی معمولی مقدار سے بھی انسانوں جانوروں اور پودوں میں خلیوں کی تباہی ہوسکتی ہے اور ایٹمی فُضلے کو پانی سے مکس کردینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔” ماہیگیر رہنماؤں کا کہبا تھا کہ برنی مشورہ دیتے ہیں کہ حکام کو چاہئیے کہ وہ نئے سٹوریج ٹینکس تعمیر کریں اور یہ تعمیر ایٹمی پلانٹ کے مضافاتی علاقے میں ہونی چاہئیے۔ تاہم خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ لوگ شدید احتجاج کریں گے جو پہلے ہی ایٹمی تابکاری کے خطرات کے سبب اپنے گاؤں خالی کر گئے ہیں اور جن کی زمینوں میں ایٹمی تابکاری اور فُضلے کے اثرات پہلے ہی سے بہت زیادہ ہیں۔ گرین پیس کے جاپان آفس کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔ کیونکہ یہ فوکوشیما ، جاپان اور اس سے بڑھ کر ایشیا پیسیفک خطے میں وسیع تر حقوق انسانی کی شدید خلاف ورزی ہے۔ ماحولیات کے سرگرم ایک کارکن کازوئی سوزوکی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد جاپانی حکومت ایک مرتبہ پھر فوکوشیما کے لوگوں کو خطرے میں دھکیل رہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت جان بوجھ کر بحرالکاہل کے پانیوں کو ایٹمی فُضلے کے زہریلے پانی سے آلودہ کررہی ہے ۔ وہ ایٹمی فُضلے کے خطرات کو نظر انداز کررہے ہیں اور سمندر کو آلودہ کرنے جارہے ہیں جبکہ انہیں اس پانی کو پلانٹ کے آس پاس ہی سٹور کرنا چاہئیے کیونکہ ان کے پاس اس کی صلاحیت موجود ہے۔ ماہیگیروں کے مطابق اقوام متحدہ نے اس معاملے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ماہرین ماحولیات اور کچھ حکومتوں کی جانب سے فکر مندی کے بعد ہمیں حکومت جاپان کے اس فیصلے پر خدشات ہیں۔ ہمارے خدشات علاقے میں مچھلی کی صنعت ، ماحولیاتی اداروں، ہمسایہ ممالک اور جاپان کی سِول سوسائٹی سے رابطوں کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔

ادارے کا مزید کہنا تھا کہ”جاپانی حکومت کا یہ فیصلہ اس لئے بھی افسوس ناک ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے دوسرے حل موجود ہیں”۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ جاپانی حکومت کی جانب سے ایٹمی تابکاری سے متاثرہ زہریلے پانی کو سمندر میں چھوڑنے کا عمل عالم انسانیت اور سیارہ زمین کے لئے بڑےخطرے کا باعث ہے اور اس معاملے پہ افسوس ناک حیرت یہ ہے کہ یہ اقدام جاپانی حکومت کررہی ہے کیونکہ جاپان ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے ایٹمی توانائی کے انسان دشمن استعمال کا حقیقی معنوں میں سامنا کیا ہے۔ اس دوران جاپان کی حکومت یہ کہتی ہے کہ یہ پانی ایٹمی فُضلے سے آلودہ نہیں ہے۔ جبکہ ماہرین کی رائے میں یہ غلط بیانی ہے۔ ان کے مطابق پانی کی صفائی کا پہلا مرحلہ ناکام رہا ہے اور یہ گارنٹی نہیں ہے کہ دوسری بار یہ کامیاب ہوگا۔ ان کے مطابق ٹیپکو کا طریقہ کار ٹرئٹیئم اور کاربن فور ٹین کے عناصر کو تلف نہیں کرسکتا۔ دوسری جانب جاپانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ٹریٹئیم کا درجہ بہت معمولی ہے اور یہ انسانوں یا دیگر جانداروں کے لئے مضر نہیں ہے جبکہ سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ پانی میں ٹریٹئیم کے آئسو ٹوپس دیگر مولیکولز سے مل کر پودوں انسانوں اور دیگر سمندری جانداروں کے لئے شدید خطرات کا باعث بن سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا ہے کہ  سائنسدان کہتے ہیں  کہ یہ خطرات آئندہ ایک سو سالوں تک رہیں گے

وہ کہتے ہیں کہ جاپان کو اپنے عالمی معاہدوں کا پاس رکھنا ہوگا اور خطرناک ایٹمی فُضلے کو سمندر برد کرنے سے باز رہنا ہوگا کیونکہ اس فیصلے کے ماحول دشمن اثرات صرف جاپان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس کے اثرات دیگر ممالک تک بھی پہنچیں گے۔ اس لئے ہم جاپانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یہ فیصلہ واپس لے کیونکہ سمندر مشترکہ عالمی ورثہ ہے اور اس میں موجود سمندری حیات ، ماحولیات اور سمندری خوراک خطے میں موجود تمام ممالک کے لئے از حد اہمیت کی حامل ہے۔ اس فیصلے سے دوررس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہیگیر رہنما  مطالبہ کرتے ہوئے  نے کہا ہم آخر میں پھر میڈیا سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارے خدشات حکومت جاپان تک پہنچائیں اور ان سے کہیں کہ وہ ایک ذمہ دار عالمی معیشت ہونے کے ناطے درست ، ماحول دوست اور انسان دوست فیصلے کرے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close