❖ طوطا
میری یہ عادت بن گئی کہ میں صبح اٹھ کر خدا کا شکر ادا کرتا کہ جس نے مجھے زندگی دی اور ہر نعمت سے نوازا۔ یہ حقیقت ہے کہ مجھے اس جزیرے میں ہر نعمت میسر تھی. اگر کوئی دکھ تھا تو صرف تنہائی کا.. جب میں شدید تنہائی محسوس کرتا تو میں اپنے پالتو طوطے اور کتے سے باتیں کر نے لگتا.. وہ میری باتوں کو تو کیا سمجھتے، لیکن اس طرح سے میرے دل کی بھڑاس نکل جاتی اور کبھی میں یوں بھی سوچتا کہ میں ان کی زبان سیکھ گیا ہوں، جو خاص اشاروں پر مشتمل تھی. جب طوطا دو بار ٹائیں ٹائیں کرتا تو میں سمجھ جاتا کہ وہ یہ کہہ ر ہا ہے کہ وہ بھوکا ہے. جب وہ تین بار ٹائیں ٹائیں کر کے پر پھڑپھڑاتا تو وہ گویا مجھے یہ کہتا تھا کہ وہ جنگل کی سیر کے لئے جانا چاہتا ہے. میں اس کے پاؤں کی رسی کھولتا اور اپنے کند ھے سے اڑا دیتا۔
طوطے کی عادت تھی کہ وہ ایک دو گھنٹے جنگل میں جا کر اپنا پیٹ بھر کے واپس میرے پاس آ جاتا، رات وہ کیبن کے درخت پر سوتا تھا۔
مجھے کئی باتیں سوجھتی تھیں، جو میری ضرورت سے تعلق رکھتی تھیں ۔ وہ پرانی کشتی جو میرے پاس تھی ، اب اس قابل بھی نہیں رہی تھی کہ اس کی مرمت کر کے اسے کام میں لایا جا سکے ۔ اس لئے میں نے نئی کشتی بنانے کا فیصلہ کر لیا ۔ میرے پاس ہر طرح کے اوزار اور سامان تو موجود تھا ہی اور درختوں کی بھی کیا کمی تھی ۔ میں ایک ایسی کشتی بنانا چاہتا تھا، جیسی جنگلی قبیلوں کے پاس میں نے دیکھی تھی ۔ ایسی کشتی تیار کرنے پر مجھے پورا ایک مہینہ لگا۔ میں نے دن رات کام کیا تھا۔ جس حد تک ممکن تھا ، میں نے اپنی مرضی کی کشتی بنانے کی کوشش کی ۔ لیکن میری ایک ماہ کی انتہائی محنت اکارت گئی، کیونکہ ایک بات تو میرے ذہن سے ہی نکل گئی تھی.. وہ کشتی اتنی بھاری اور وزنی بنی کہ میں اسے ہلا بھی نہیں سکتا تھا ، سمندر تک کیسے لے جا تا..! تو یہ بات میں کشتی بناتے وقت دل سے نکال بیٹھا تھا کہ جو کشتی میں تیار کر رہا ہوں، اسے سمندر تک بھی لے جا سکوں گا یا نہیں؟
بہرحال اپنی اس غلطی سے میں نے ہمت نہیں ہاری اور جو غلطی کی تھی اس سے بھی بہت کچھ سیکھا اور ایک دوسری کشتی بنانے میں مصروف ہو گیا ۔ یوں پھر ایک ماہ کی سخت محنت کے نیتجے میں، میں ایک ایسی کھوکھلی اور اپنی مرضی کی کشتی بنانے میں کامیاب ہو گیا، جسے میں آسانی سے دھکیلتا ہوا سمندر میں لے گیا ۔ میں بہت خوش تھا۔ سمندر میں اس کشتی پر میں نے پورے جزیرے کے گرد چکر لگایا. جزیرے کا جنوبی حصہ بھی شمالی اور مشرقی حصے کی طرح ہی تھا، جہاں ایسی چٹانوں کی کثرت تھی جن پر سبز اور بھوری کائی جمی ہوئی تھی ۔ ساحل کے ساتھ گھنے درخت تھے ۔ میں نے یہ چکر سمندر کے کنارے کے ساتھ ساتھ لگایا، کیونکہ آگے سمندر کی بڑی لہریں تھیں اور میں کوئی خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں تھا۔
❖ سمجهوتہ
اس ویران اور سنسان جزیرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے چار سال کا عرصہ گزر گیا ۔ میں ایک طرح سے اس جزیرے میں قید ہو کر رہ گیا تھا۔ ان چار برسوں کا ہر دن لمبا اور ہر رات طویل تھی ۔ ان چار برسوں میں کیسے کیسے خطرات تھے، جن کے احساس نے میرے دل کو لرزایا تھا اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ پورے چار برس گزر گئے تھے اور میں نے اس پورے عرصے میں کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی تھی اور ظاہر ہے جب میں نے کسی انسان کو دیکھا ہی نہیں تھا تو پھر بات کس سے کرتا!
اس خوف سے کہ میں اپنی انسانی زبان انگریزی ہی نہ بھول جاؤں ، میں گھنٹوں اپنے طوطے اور کتے سے باتیں کرتا رہتا تھا۔ میں تو ان سے انگریزی میں باتیں کرتا اور ان پر تو اس کا کچھ اثر نہ ہوا، لیکن میں محسوس کرنے لگا کہ ان کی زبان مجھ پر حاوی ہو گئی ہے ۔ میں خاموش رہنے لگا ۔ پھر طوطے اور کتے سے مختلف آوازوں اور اشاروں میں باتیں کرتا ، جنہیں وہ آہستہ آہستہ سمجھنے لگے تھے ۔ چار سال کا یہ عرصہ ، انسانوں کے بغیر ، اپنے شہر لندن سے ہزاروں میل دور، میں نے ایک کتے اور ایک طوطے کی رفاقت میں گزار دیا تھا۔ میں اپنے بچپن اور لڑکپن کے دوستوں کو یاد کرتا ۔ ان کی شکلیں ذہن میں تازہ کرنے کوشش کرتا، لیکن ساری باتیں میری اداس اور تنہائی کو کم کرنے کے بجائے بڑھا دیتی تھیں ۔
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ میں اپنے والد کو وہاں درخت کے پاس کھڑے دیکھتا، تو بے اختیار نہیں پکارتا ہوا آگے بڑھتا.. لیکن یہ محض میرا وہم ہوتا تھا، کیونکہ دوسرے لمحے میں تصور دھندلا جاتا اور سامنے کوئی بھی دکھائی نہ دیتا.. تب مجھے اپنے والد کی نصیحت یاد آتی، کہ وہ مجھے ہمیشہ سمندری سفر سے منع کیا کر تے تھے.. اگر میں ان کی بات مان لیتا، تو نہ آج یہ سب کچھ لکھ رہا ہوتا اور نہ ہی ان تلخ تجربات سے گزرتا، جن کی وجہ سے میں اس ویران اور بے آباد جزیرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا تھا اور خدا جانے ابھی مجھے کیا کیا دیکھنا اور کیا کیا بر داشت کرنا تھا….
ان چار برسوں کے تجربات کی وجہ سے اب میں اس جزیرے میں باقاعدگی سے زندگی بسر کر رہا تھا، اب میں اپنے کھیت میں گندم کی فصل اگاتا تھا ۔ گندم کو پیس کر اس کا آٹا بنا کر رکھ لیتا تھا ۔ اس سے میری روٹی پکتی، جو میں بکری کے گوشت کے ساتھ کھاتا ۔ دیا سلائی عرصہ ہوا ختم ہو گئی تھی، لیکن آ گ جلانے میں کوئی دقت پیش نہ آتی تھی کیونکہ چقماق کے پتھر موجود تھے ۔ لباس کا بھی کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا ۔ بکری کی کھال سے جیسی تیسی ایک جیکٹ اور کھلی تھیلا نما پتلون میں نے خود بنائی تھی ۔ میری خوراک میں اب مچھلیاں بھی شامل ہوگئی تھیں ۔ میں اپنی مرضی کی کشتی بنا چکا تھا، اب اس پر سمندر کے ساحل کے ساتھ ساتھ مچھلیاں پکڑنے نکل جاتا تھا۔ مجھے تمباکو پینے کی عادت تھی اور اس جزیرے میں خودرو جنگلی تمباکو کی کوئی کمی نہیں تھی.
یہ ایک عجیب انوکھی زندگی تھی، جو میں بسر کر رہا تھا۔ میں ایک ایسا انسان تھا جسے تقدیر نے انسانوں کی بستیوں اور شہروں سے ہزاروں میل دور اس جزیرے میں لا کر اسی جزیرے میں رہنے کا پابند بنا دیا تھا۔ میں اس جزیرے کا آزاد قیدی تھا ۔ اب میں انیس بیس برس کا لڑکا بھی نہیں رہا تھا۔ اب میری عمر چوبیس برس ہو چکی تھی ۔ میں نے جو کیلنڈر بنایا تھا ، وہ مجھے دنوں مہینوں اور برسوں سے باخبر رکھتا تھا ، چونکہ وہ لکڑی جس پر میں لکیریں ڈال کر دنوں کا حساب رکھتا تھا، اب اس پر گنجائش باقی نہیں رہی تھی ۔ اس لئے میں نے اس کے قریب ہی ایک اور لکڑی گاڑ دی۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے ۔ میری سرخ بحری ٹوپی پھٹ چکی تھی ۔ جوتے بھی قابلِ استعمال نہیں رہے تھے، میں نے بکری کی کھال کی ٹوپی بنائی اور جو تے بھی..
میری داڑھی اور سر کے بال بے تحاشا بڑھ چکے تھے ۔ ناخن تو میں جہاز سے ملنے والی چھری سے باقاعدہ تراش لیتا تھا۔ کئی بار اس چھری سے میں نے داڑھی اور سر کے بال بھی کاٹے ۔ لیکن پھر میں نے داڑھی اور سر کے بالوں کو کاٹنا چھوڑ دیا ۔ بکری کی کھال سے میں نے ایک چھتری بھی بنالی تھی تا کہ بارش اور دھوپ میں باہر نکلنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے.
جب میں باہر نکلتا تو طوطا میرے کندھے پر بیٹھا ہوتا، بغل میں بندوق ہوتی، گلے میں دور بین، سر پر بکری کی کھال کی ٹوپی، داڑھی اور سر کے بال لہراتے… میں اپنا بادشاہ آپ تھا اور خود ہی اپنا خدمت گزار بھی تھا۔ لکڑی کی میز جو میں نے بنائی تھی، اس پر میں وہ کھانا چنتا جو میں نے خود پکایا ہوتا تھا ۔ اپنی بنائی ہوئی کرسی پر کسی جلاوطن بادشاہ کی طرح یوں بیٹھتا کہ میرے دائیں بائیں طوطا، کتا اور دو بلیاں بھی کرسی پر بیٹھی ہوتی تھیں، جنہیں میں اپنی غذا سے ان کا پورا حصہ پیش کرتا تھا۔
میں نے تقدیر سے سمجھوتہ کر لیا تھا، کیونکہ اس کے سوا میں کر بھی کیا سکتا تھا ۔ میں ہر بات کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھتا۔ جیسے بھی دن گزر رہے تھے، ان پر شاکر ہو گیا.. لیکن امید تو دل سے نہیں نکلتی ۔ اس لئے میں ہر روز صبح اور شام کو کسی اونچی جگہ پر چڑھ کر دوربین سے سمندر کا جائزہ ضرور لیتا کہ شاید کوئی جہاز اس طرف آ تا دکھائی دے اور میں دھویں سے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کر سکوں ۔
مگر ان چار برسوں میں ایک بار بھی میں نے کسی جہاز کو ادھر سے گزرتے نہ دیکھا تھا۔ چار برسوں میں میرا کتا بوڑھا ہو گیا تھا۔ اب وہ ایک جھنجھلایا ہوا چڑچڑا کتاتھا ۔ کسی بات پر خود ہی بھونکنے لگتا اور ان چکر کاٹنے لگتا ۔ کبھی تیز تیز دوڑنا شروع کر دیتا ۔
باقی رہا طوطا، تو اس کی گردن سے اس کے بال جڑ جاتے تھے ۔ مگر وہ کسی انوکھی نسل کا طوطا تھا کہ اس کے بال جھڑتے تو پھر وہیں نئے سرے سے بال اگ آتے تھے ۔ پھر بھی وہ بوڑھا ہو رہا تھا اور بڑھاپے کے آثارصاف دکھائی دینے لگے تھے۔
اور میں بھی بہت بدل گیا تھا ۔ اس جزیرے میں رہتے ہوئے ان چار برسوں میں میری گوری رنگت سانولی ہوئی اور پھر جلد کا رنگ سیاہ ہونے لگا ۔ میرے حلیے اور رنگت کو دیکھ کر ، اگر میں اس حالت میں اپنے والد کے سامنے جاتا ، تو انہیں بھی مجھے پہچاننے میں بہت مشکل پیش آتی ۔ مجھے اپنی زبان انگریزی کے کئی الفاظ بھول گئے تھے ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کوئی لفظ یاد آیا تو اس کا مطلب ذہن سے نکل جاتا..
(جاری ہے)