کن کجھورا (فلپینی ادب سے منتخب افسانہ)

رونی وی ڈیاز (ترجمہ: محمد فیصل)

میری بڑی بہن ڈیلیا میرے پالتو کتے کو چھڑی سے مار رہی تھی اور میرا خون کھول رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے میرے جسم سے ایک وحشی درندہ باہر نکلنے کو بےتاب ہے۔ تیز دھوپ میں وہ کشمشی رنگ کے کپڑوں اور سرخ بالوں کی بدولت کسی بے نیام خنجر کی طرح لگ رہی تھی۔ میرا کتا بریوک تکلیف کے عالم میں چلا رہا تھا مگر میں صرف اسے دیکھتا رہ گیا۔ میری بہن کا دل بے حد کم زور ہے اور اسے اچانک مخاطب کیا جائے یا اس کے قریب زور سے بولا جائے تو اس کی طبیعت بگڑ سکتی ہے، لہٰذا میں اپنی نفرت کو سینے میں دبائے چپ چاپ کھڑا رہا۔
٭
میں زندگی میں پہلی مرتبہ والد کے ساتھ تیرہ برس کی عمر میں شکار پر گیا۔ اس سال پورا موسمِ گرما میں اپنی زمینوں اور اس کے گرد واقع جنگل میں بنا ہتھیار گھومتا رہا۔ پھر جولائی کے اواخر کی ایک سہ پہر میرے والد نے مجھے شاٹ گن استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ جلد ہی ہمیں جنگلی کبوتروں کا ایک غول نظر آیا جو درختوں کے ایک جھنڈ میں دانہ چُگ رہا تھا۔ میرے والد نے میرا کندھا دبایا اور ہم آہستگی سے رینگتے ہوئے ان کے قریب ہونے لگے۔ ہوا میں خنکی تھی اور رینگتے ہوئے میری ٹانگوں پر کئی خراشیں آئیں۔ اچانک والد نے رکنے کا اشارہ کیا اور سر گوشی کی، ”ان کے اڑنے کا انتظار کرو۔ جیسے ہی یہ اڑان بھریں تو فائر کر دینا!“

میں نے رائفل کا سیفٹی لیور ہٹایا اور شست باندھی۔ بندوق کافی وزنی تھی اور میں بمشکل اسے سیدھا کر پا رہا تھا۔ میں بیٹھنا چاہ رہا تھا مگر اس طرح کبوتروں کے اُڑنے کا خدشہ تھا۔

والد نے دوبارہ سرگوشی کی
’’تم تھوکنا بھول گئے ناں!‘‘

میرے والد نے مجھے بتایا تھا کہ شکاری فائر کرنے سے پہلے خوش قسمتی کے لیے تھوکتے ہیں۔ میں نے تھوکا اور دوبارہ نگاہ جمالی۔

’’شاباش!‘‘ والد بولے۔

میں بے تابی سے بولا
’’کیا ہم ان کی طرف پتھر نہیں پھینک سکتے‘‘

’’نہیں تم انتظار کرو!‘‘

اچانک ایک طرف سے ایک چھوٹا کتا کوں کوں کرتا تیزی سے دوڑتا ہوا پرندوں کی طرف بڑھا۔ پرندے اڑان بھرنے ہی لگے تھے کہ میں نے فائر کر دیا۔ بندوق کے جھٹکے سے میرا جسم جھنجھنا گیا۔ تین کبوترجھاڑیوں میں گر پڑے۔ کتا ہمارے پاس آ گیا۔ اس کی ناک زمین سے گویا جُڑی ہوئی تھی۔ وہ اسی عالم میں ہمارے گرد چکر لگانے لگا۔ میں نے چٹکی بجائی تو وہ میرے پاس آ گیا۔

والد بولے، ’’خوب! ایک فائر سے تین پرندے‘‘

میں پرندے اٹھانے جھاڑیوں کی طرف بڑھا۔ کتا میرے پیچھے آیا اور پرندوں تک میری رہ نمائی کی۔ ایک کبوتر کے سینے کا گوشت اُڑ چکا تھا۔ ایک کبوتر کے گرد خون پھیلا ہوا تھا، جسے کتے نے چاٹ لیا۔ میں نے تین کبوتر اٹھائے تو ان کا گرم خون مجھے اپنی ہتھیلی پر محسوس ہوا۔

’’تم بہت تیز ہو۔ ادھر آؤ!‘‘ میں نے کتے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اور اپنی خون آلود ہتھیلی اس کی طرف بڑھا دی۔ وہ ہتھیلی کی طرف بڑھا اور اسے لمحوں میں صاف کر دیا۔

میں نے تینوں مردہ پرندے والد صاحب کی طرف بڑھائے۔ انھوں نے تینوں کبوتر اپنی کمر سے بندھے چرمی تھیلے میں اُڑس لیے۔

’’کیا میں اسے رکھ سکتاہوں؟‘‘ میں نے کتے کی طرف اشارہ کیا۔

والد کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے، ’’میں تمہیں کیا جواب دوں؟ یہ کسی اور کا ہے۔‘‘

’’جب تک اس کا اصل مالک نہیں مل جاتا، میں اسے اپنے پاس رکھ لوں؟‘‘

’’یہ کتا شکار کا اچھا ساتھی بن سکتا ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے پر کتا چوری کرنے کا الزام لگے۔‘‘

’’آپ بالکل فکر نہ کریں۔ جیسے ہی اس کا مالک آئے گا تو میں اسے فوراََ واپس کر دوں گا۔‘‘

’’ٹھیک ہے! میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتا تمہیں اچھا شکاری بنانے میں مفید ثابت ہوگا‘‘

میں نے اس کا نام بریوک رکھا۔ ہم دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔ ہر سہ پہر ہم دونوں کھیتوں میں جا کر جنگلی گلہریوں کا پیچھا کرتے یا دریا کنارے چلے جاتے۔ والد زیادہ تر گھر سے باہر رہتے مگر جب وہ گھر ہوتے ، ہمارے ساتھ شکار کرنے جاتے۔
٭

مار کھاتے کھاتے بریوک باہر بھاگ گیا۔ بہن نے چھڑی اس کی طرف اچھال دی۔ وہ مڑی اور مجھے دیکھ کر اپنے قریب بلایا۔ میں بہت آہستگی سے اس کی طرف بڑھا مگر وہ تنک کر میری طرف بڑھی اور میرا کان مروڑ کر سرد آواز میں بولی، ’’یہ کتا دوبارہ اس گھر میں نہیں دکھنا چاہیے۔ اس نے میرے دوسرے سلیپر بھی پھاڑ دیے ہیں۔ میں برتو سے کہوں گی کہ اگر یہ کتا دوبارہ دکھا تو اسے مار دے۔‘‘

اس نے پوری قوت سے اپنے گرم ہاتھ سے میرے منہ پر ایک چانٹا رسید کیا اور میں زمین پر گر گیا۔ میں نہ رویا نہ شکایت کی۔ میرے رونے کی عمر گزر چکی تھی۔ اب وہ میرے ساتھ جو کچھ کرتی، میں اسے خاموشی سے سہہ لیتا۔ ہاں اس کے لیے میرے دل میں نفرت جمع ہوتی چلی جا رہی تھی۔ میری بہن کمینگی کی حد تک خود غرض تھی۔ جب وہ آٹھ سال کی تھی تو میں پیدا ہوا اور اسی دن ہماری والدہ فوت ہو گئیں۔ اگرچہ ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں مگر وہ مجھے حقارت اور نفرت سے دیکھتی تھی۔

میری پہلی ناخوش گوار یاد، بہن کے بنائے ہوئے جھونپڑے کی ہے۔ یہ عارضی سا چھپڑ تھا، جہاں میری بہن کھیلا کرتی تھی۔ اس کے کچے فرش پر کیلے کے پتے پڑے تھے اور ایک طرف ایک ڈبے میں سوکھے اور تازہ پھول بند تھے۔ وہ مجھے ہمیشہ اس جگہ سے دور رکھتی مگر مجھے جیسے ہی موقع ملا، میں اندر گھس گیا۔ جھونپڑے کے اندر سوکھے پتوں اور پھولوں کی عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ ڈبے کے اوپر ایک گڑیا رکھی ہوئی تھی۔ میں نے اسے اٹھایا۔ گڑیا کافی وزنی تھی اور کسی سخت چیز سے بنی لگ رہی تھی۔ میں نے اس کی ٹانگ موڑنے کی کوشش کی تووہ ٹوٹ گئی ۔ میری سانس رکنے لگی اور میں اس کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو دیکھ کر گنگ رہ گیا۔ اچانک دور سے مجھے اپنی بہن کی آواز سنائی دی، وہ اسی طرف آ رہی تھی۔ میں نے ٹوٹی ہوئی ٹانگ فرش پر پڑے کیلے کے پتوں کے نیچے چھپا دی۔ وہ تقریباََ بھاگتے ہوئے داخل ہوئی اور درشتی سے مجھ سے گڑیا چھین لی۔ میرے پورے بدن میں خوف کی لہریں دوڑ گئیں۔ گڑیا کی ٹانگ دیکھ کر اس نے مجھے زور سے دھکا دیا اور میں جھونپڑے کی دیوار سے جا ٹکرایا۔ کم زور دیوار یہ دھکا نہ سہہ سکی اور جھونپڑا زمین بوس ہو گیا۔ اس کے بعد مجھے بس اتنا یاد تھا کہ وہ وحشت اور دیوانگی کے عالم میں مجھے کوس رہی تھی اور پھر ایک شاخ اٹھا کر مجھے اتنا مارا کہ میرے پورے جسم پر نشان بن گئے۔ وہ اچانک ہی رکی اور عجیب انداز سے رونا شروع کر دیا۔ مجھے اس کی پھٹی پھٹی آنکھیں اور دانتوں میں دبے ہونٹ آج تک یاد ہیں۔ میں چلّاتا ہوا والد کو دہائیاں دیتا گھر کی طرف دوڑا۔

دوسرا نقش، جو میرے ذہن سے محو نہیں ہوتا، وہ اس دن کا ہے، جب وہ کچھ عرصہ ہسپتال میں رہنے کے بعد گھر واپس آئی۔ پہلے سے زیادہ زرد، دبلی، خاموش اور مطلبی۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے جذبات بھی سرد پڑ چکے ہیں۔ اس کی حرکات ایسی تھیں کہ جیسے اس نے نفرت کی تلوار کو اپنے جسم کی نیام میں قید رکھا تھا۔ ہسپتال سے آنے کے بعد اس کا رویہ کچھ اس طرح ہو چکا تھا کہ گویا اس کے پور پور میں میرے لیے نفرت بھری ہوئی تھی۔ میں جو کچھ کرتا، اسے اس سے الجھن ہوتی۔ میں نے اس کی خواہش کے مطابق ڈھلنے کی کوشش کی مگر اس کا رویہ تبدیل نہ ہوا۔ میں نے اپنے اندر پلنے والے غصے اور لاوے کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر آخر کار خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کاوش ترک کر دی۔ میں اس وقت بھی کچھ نہ بولا، جب اس نے برتو کو کہہ کر میرے پالتو بندر کو مروا دیا ۔ اس غریب کا قصور اتنا تھا کہ ایک صبح وہ اس پر خوخیایا تھا۔ میں اس وقت بھی خاموش رہا، جب اس نے والد کو شکایت لگائی کہ میرے کبوتر خانے سے شدید بو آتی ہے۔ مجھے اپنے کبوتر کسی کو دینے پڑے اور اس کے پنجرے کو برتو نے کاٹ کر جلانے کی لکڑی بنا دیا۔ میں نے خود پر قابو پانا سیکھ لیا تھا کہ اس طرح شاید اسے سکون ملے مگر جب اس نے میری تتلیوں کے ذخیرے کو عقبی صحن میں آگ لگائی تو مجھ پر یہ بھید آشکار ہوا کہ مجھے زک پہنچانا اس کی زندگی کا مقصد تھا۔

میری تتلیاں نہ تو اس پر خوخیاتی تھیں اور نہ ہی بو دیتی تھیں۔ میں اس ذخیرے کو ایک الماری میں چھپا کر رکھتا تھا تاکہ اس کی نظر نہ پڑے۔ ایک دن میں اسکول سے واپس آیا تو وہ انہیں آگ لگا چکی تھی۔ میں نے روتے روتے والد کو شکایت کی تو انھوں نے اس سے اس کی وجہ دریافت کی۔ اس نےپورے اطمینان اور رسان سے بتایا کہ اس الماری میں چیونٹیاں چڑھ رہی تھیں۔
٭

میں بریوک کے پیچھے بھاگا۔ میں بار بار اس کا نام پکار رہا تھا۔ آخر وہ مجھے ایک جھاڑی میں چھپا نظر آ ہی گیا۔ میں نے اسے چمکارا۔ اچانک میری نگاہ اس کی آنکھ پر پڑی، جس سے خون رِس رہا تھا۔ اس کی آنکھ چِھل چکی تھی۔ اس کی چھڑی نے میرے کتے کو زخم دے دیا تھا۔ میں جیسے ڈھے سا گیا۔ پھر مجھے محسوس ہوگیا کہ نفرت کی آگ لاوا بن کر اب باہر آ رہی ہے۔ میرے اندر دبا نفرت کا وحشی درندہ پنجرے توڑ چکا تھا۔۔ اور اب اپنے شکار پر چھلانگ لگانے کے لیے بری طرح بے تاب تھا۔ میں نے ایک چیخ ماری۔ بریوک میری چیخ سن کر وہاں سے بھاگ گیا۔ اس بار میں نے اس کا پیچھا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ بے کراں آسمان میں ایک عقاب بلندیوں پر پُروقار انداز میں اڑان بھر رہا تھا۔
٭

اسی عالم میں گھر واپسی پر میں لکڑیوں کے گودام میں گیا۔ وہاں برتو لکڑی کاٹ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے مجھے اپنے پاس بلایا ۔ مشقت سے اس کا چہرہ پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ اس نے ماتھے سے پسینہ اور آنکھوں سے بال ہٹائے اور بولا، ’’مجھے تمھیں کچھ دینا ہے۔‘‘

اس نے کلہاڑی ایک طرف رکھی اور گودام کے اندر چلا گیا۔ میں بھی پیچھے لپکا۔ گودام میں اس نے ایک میلا سا تھیلا اٹھایااور اسے کھول کر بولا، ’’دیکھو!‘‘

میں آگے بڑھا۔ اندر ایک کن کھجورا کلبلا رہا تھا۔ میرے منہ سےنکلا ’’یہ بہت بڑا ہے۔‘‘

’’یہ ایک درخت کے تنے کے اندر سے ملا ہے۔ میں نے جیسے ہی اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، اندر سے یہ برآمد ہوا‘‘ برتو مسکراتا ہوا بولا، ’’تمھیں کیا بتاؤں! اسے دیکھ کر میں مر جانے کی حد تک خوف زدہ ہو گیا تھا۔‘‘

’’کیا واقعی؟‘‘ میں نے اپنی آواز میں ابھرنے والے ہیجان کو چھپانے کی کوشش کی۔

’’مجھے ذرہ برابر امید نہیں تھی کہ یہ مکروہ کیڑا لکڑی کے اندر چھپا ہوگا۔ اس نے مجھے کاٹنے کی کوشش کی، مگر میں نے اسے مارنے کے بجائے تھیلے میں ڈال دیا‘‘

اس کے بعد اس نے مجھے وہ لکڑی دکھائی، جس کےاندر یہ چھپا ہوا تھا۔ میں نے لکڑی کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور کن کھجورے کو اس پر ڈال دیا۔ اس کا جسم تکلیف سے بے حال ہو رہا تھا اور کسی سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا۔

’’میں اسے لے جا رہا ہوں۔‘‘

’’ہوں! ‘‘ برتو بولا، ’’میں نے اسے اسی لیے نہیں مارا کہ تم اسے زندہ رکھنا چاہو گے۔‘‘

’’ہوں!‘‘ میں نے ہنکارا بھرا۔

’’یہ پچھلے سال والے کیڑے سے بڑا ہے‘‘

’’ہاں! اُس کے مقابلے میں تو بہت بڑا ہے‘‘

میں نے ایک نوکیلی لکڑی کن کھجورے کے جسم میں گھونپی۔ لکڑی اس کی مضبوط سرخ چھال کو توڑتی جسم کے آر پار ہو گئی۔ ایک سفید سیال اس کے جسم گرد پھیل گیا۔ میں نے کچھ دیر بعد اس کے کو لکڑی سے ٹہوکا دے کر یقین کر لیاکہ وہ مر چکا ہے۔ میں نے اسے رومال میں لپیٹا اور گھر کی طرف چل دیا۔
٭

میری بہن گول کمرے میں ایک بڑی آرام دہ کرسی پر براجمان ایک سپید کپڑے پر کچھ کڑھائی کر رہی تھی۔ میں دبے پاؤں اس کی کرسی کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ وہ میری آمد سے بالکل بے خبر تھی۔ میں نے رومال کھولا اور کن کھجورا اس کی گود میں پھینک دیا۔ اس کی چیخ بہت بھیانک تھی۔ وہ زور سے اچھلی اور میری طرف مڑی۔مڑتے ہی اس نے اپنا سینہ بھینچا اور زمین پر گر پڑی۔ شاید اسے دل کا دورہ پڑ گیا تھا۔ کن کھجورا زمین پر گر پڑا۔

’’‘یہ تم نے پھینکا ہے۔۔۔۔‘‘ اس نے سسکاری بھری ”تم نے مجھے مارنے کی کوشش کی، تم نے مجھ بیمار کو۔۔۔۔۔‘‘

مجھے اچانک بے حد شرمندگی محسوس ہوئی اور اپنی بہن پر رحم آنے لگا، ’’مم میں مذاق کر رہا تھا۔۔ دیکھو یہ کیڑا زندہ نہیں مردہ ہے۔‘‘ میں نے کیڑ ے کو اپنی انگلیوں میں دابا اور اسے دکھائے ہوتے بولا، ’’دیکھو! دیکھو! یہ مرچکا ہے‘‘

میری بہن ساکت ہو چکی تھی۔ میں کن کھجورا اپنی دونوں انگلیوں میں دبائے ایسے کھڑا تھا، جیسے شکاری ہرن کے شکار کے بعد فخریہ انداز میں اُس کی دم دکھاتا ہے۔ کن کھجورا میرے ہاتھوں میں بری طرح کھب رہا تھا۔

انگریزی میں عنوان:
The Centipede
مصنف کا تعارف:
رونی وی ڈیاز (Rony V. Diaz)
1932-
رونی ڈیاز 1932 میں فلپائنی صوبے نوئیوا ایشیجا کے شہر کاباناتووان میں پیدا ہوئے۔ وہ فلپائن کے بہترین تخلیق کاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھیں فلپائن کا مشہور ایوارڈ” پالنکا” کئی بار تفویض ہوا۔ وہ طویل عرصہ دفترِ خارجہ سے منسلک رہے۔ 2001 میں وہ منیلا ٹائمز کے ڈائریکٹر تعینات ہوئے اور آج کل وہ منیلا ٹائمز سکول آف جرنلزم میں بطور صدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close