میرے بھائی کیکو کے پاس ایک زمانے میں بڑا ہی خاص پرندہ تھا۔ خاص اس لیے کہ کوئی بھی یہ بتانے سے قاصر تھا کہ وہ مرغ ہے یا مرغی۔۔ بھائی کا ماننا تھا کہ یہ مرغ ہے، میرا کہنا تھا کہ یہ مرغی ہے۔ اس مدعے پر ہماری اتنی بحث ہوئی کہ ہم پٹتے پٹتےاور لڑتے لڑتے بچے۔ یہ قضیہ کچھ اس طرح شروع ہوا کہ ایک صبح میں اور کیکو مکئی کے کھیتوں سے مرغیوں کو بھگا رہے تھے۔ بیج کاشت کیے دو دن ہوئے تھے اور مرغیاں انہیں کھانے کے در پہ تھیں۔ اچانک ہمیں پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز سنائی دی، دونوں اس طرف بڑھے تو دیکھا کہ دو مرغ کھیت کے کنارے لڑ رہے تھے۔ ان کے لڑنے سے دھول اڑ رہی تھی۔
کیکو انہیں دیکھ کر بولا، ’’ان کی لڑائی دیکھو، اگر میرے پاس ایسا ایک مرغ ہو تو میں مقابلوں میں بہت پیسہ کماؤں۔‘‘
’’چلو پھر انھیں پکڑتے ہیں۔۔‘‘
’’نہیں، تم یہیں ٹھہرو، میں جاتا ہوں۔‘‘
کیکو آہستگی سے ان پرندوں کی طرف بڑھا۔ وہ لڑنے میں اتنے مگن تھے کہ انہیں اس کے آنے کا اندازہ ہی نہ ہو پایا۔ کیکو خامشی سے ان کے قریب گیا اور یکایک جست لگا کر ایک پرندے کو ٹانگ سے پکڑ لیا۔ پرندہ پوری قوت سے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کے منہ سے گویا چیخیں نکل رہی تھیں۔ آخر کیکو نے بمشکل اس کے دونوں پر قابو کیے اور اسے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ پرندے کو بھی سکون آ گیا۔ میں پرندے کا جائزہ لینے کے لیے اس کی طرف بڑھا۔ اسے دیکھ کر میرے منہ سے نکلا، ’’ارے! یہ تو مرغی ہے۔‘‘
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں!؟ گرمی تمہارے دماغ کو چڑھ گئی ہے!‘‘
’’ارے اس کی کلغی ہے نا پوٹہ۔۔۔‘‘
’’کلغی یا پوٹے کی پروا کون کرتا ہے۔ دیکھا نہیں یہ کس بے جگری سے لڑ رہا تھا۔‘‘
’’بالکل! میں نے اسے لڑتے دیکھا ہے، مگر ہے یہ مرغی!‘‘
’’آہم! کیا تم نے کسی مرغی کےاتنے مضبوط پنجے اور ایسی دُم دیکھی ہے۔۔‘‘
’’یار پنجے یا دُم سے کیا لینا۔۔ اس کی شکل دیکھو، یہ مرغی ہے۔ غور تو کرو۔۔‘‘
اور یہ بحث سارا دن ہوتی رہی۔ دوپہر کو ہم کھانا کھانے گھر آئے۔ راستے بھر یہ مباحثہ جاری رہا۔ گھر پہنچ کر کیکو نے پرندے کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اس نے پر پھڑپھڑائے اور اذان دی۔ کیکو نے فاتحانہ انداز میں کہا، ’’سنا تم نے۔۔ اور اب تم مجھے بتاؤ گے کہ مرغیاں بھی اذانیں دیتی ہیں اور بھینسیں اڑتی ہیں۔‘‘
’’یہ اذان دے یا نہ دے، یہ ایک مرغی ہے۔‘‘
یہ مسئلہ کھانے پر بھی زیرِ بحث رہا۔
’’وہ مرغی نہیں، مرغا ہے!‘‘
’’وہ مرغی ہے!‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’جی ہاں!‘‘
’’اوہ ہو! تمہارے بابا تمہیں کتنی دفعہ بتا چکے ہیں کہ کھاتے وقت بحث نہیں کرتے۔ اب کیوں لڑ رہے ہو؟‘‘ مما تنک کر بولیں۔
ہم نے انہیں مدعا بتایا اور وہ اسے دیکھنے باہر نکل آئیں۔ ’’یہ ایک بنابائی Binabae (فلپینو زبان میں ایسے مرد کو کہا جاتا ہے، جو عورتوں کی طرح دِکھے) ہے۔ یہ مرغا ہے مگر مرغی کی طرح دِکھ رہا ہے۔‘‘
اس توجیہہ کے بعد لڑائی بند ہو جانی چاہیے تھی، مگر بابا بھی اس پرندے کو دیکھنے باہر آ گئےاور بولے، ”یہ مرغی ہے۔‘‘
مما ان پر چڑھ دوڑیں، ’’تم نے پھر سے پینا شروع کر دیا ہے!‘‘
’’نہیں!‘‘
’’پھر تم اسے مرغی کیوں کر کہہ سکتے ہو۔۔ کبھی تم نے ایسی دُم اور جثے والی مرغی دیکھی ہے؟‘‘
’’دیکھو! میں ان لڑکوں کی عمر سے مرغے پال اور لڑا رہا ہوں، تم مجھے بتا رہی ہو کہ یہ مرغی نہیں مرغا ہے!‘‘
مجھے اور کیکو کو احساس ہی نہیں ہوا کہ مما بابا کی لڑائی شروع ہو گئی ہے۔ آخر جلد ہی ہمیشہ کی طرح مما نے رونا شروع کر دیا، ’’تم اچھی طرح جانتے ہو کہ مرغا ہے، مگر اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ تامل کر رہے ہو۔۔‘‘
’’معاف کرنا، میں نے تمہیں رلایا۔۔ مگر میں ان پرندوں کو دیکھتے ہی بتا سکتا ہوں کہ یہ مرغ ہے یا مرغی۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے کہ یہ قضیہ کون سلجھا سکتا ہے؟‘‘کیکو بولا۔
’’کون؟‘‘
’’بیریو! گاؤں کا سرپنچ۔‘‘
سرپنچ گاؤں کا سب سے معمر فرد تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سب سے زیادہ عقل مند بھی تھا، تاہم ہر بوڑھے شخص کے منہ سے نکلی بات وزن رکھتی ہے۔ ہم دونوں وہ پرندہ اس کے پاس لے گئے۔
کیکو نے پوچھا،
’’یہ مرغ ہے یا مرغی؟‘‘
’’اس کی پریشانی تو کسی دوسرے مرغ یا مرغی کو ہونی چاہیے۔‘‘
’’ہم دونوں اس میں خاص دل چسپی رکھتے ہیں۔ آپ صرف ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ کیا یہ مرغ ہے؟‘‘
’’میں نے ایسا مرغ پہلے نہیں دیکھا۔‘‘
’’تو کیا یہ مرغی ہے؟‘‘ میں نے سوال داغا۔
’’میں نے ایسی مرغی بھی نہیں دیکھی۔ یہ کوئی اور ہی پرندہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’کوئی فائدہ نہیں!‘‘ کیکو بولا اور ہم وہاں سے چل دیے
میں نے پوچھا، ’’اب ہم کیا کریں؟‘‘
’’مجھے پتا ہے، اب کس کے پاس جانا ہے۔ آؤ مسٹر کروز سے ملنے چلیں۔‘‘
مسٹر ایدوآردو کروز قریبی قصبے کے رہائشی تھے اور انہوں نے مرغ بانی میں ملک کی سب سے بڑی جامعہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔اس پورے علاقے میں ان کا مرغیوں کا کاروبار سب سے بڑا تھا۔ ہم پرندے کو ان کے دفتر لے گئے۔
کیکو نے سوال کیا، ’’مسٹر کروز! یہ مرغ ہے یا مرغی؟‘‘
مسٹر کروز نے پورے انہماک اور دل چسپی سے جائزہ لیا اور بولے، ’’ہُم! میں اتنی جلدی تو نہیں بتا سکتا۔ میں نے ایسا پرندہ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
’’آپ اس کے بارے میں کیا بتا سکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں! اس کی دُم پر غور کرو، اگر دُم گول ہے تو یہ مرغی ہے اور اگر نوک دار تو پھر مرغا۔‘‘
تینوں نے اس کی دُم پر غور کیا۔ اس کی دم میں گول پر بھی تھے اور نوک دار بھی۔
’’ہُم! بہت ہی خاص الخاص پرندہ ہے یہ تو۔۔‘‘
’’کوئی اور طریقہ؟‘‘
”اسے ذبح کر کے اندرونی معائنے سے پتا چل سکتا ہے۔“
’’نہیں میں اسے ذبح نہیں کر سکتا۔‘‘
ہم نے پرندہ بغل میں دابا اور اپنے گاؤں کی طرف چل دیے۔کیکو سارا راستہ خاموش رہا۔ آخر اس نے خاموشی توڑی اور کہا ’’میں سمجھ گیا؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کہ میں اسے مرغ کیسے ثابت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’اگر یہ کسی اور مرغ سے مقابلے میں جیت جائے تو پھر تم اسے مرغ مان لو گے؟‘‘
’’اگر یہ مرغی کسی لڑنے والے مرغ سے جیت جاتی ہے تو میں ہر بات تسلیم کرلوں گا۔‘‘
’’تو بس پھر ہم اتوار کو اس کا مقابلہ کروائیں گے۔‘‘
ہم اتوار کو اس پرندے کو ساتھ لیے لڑائی کے میدان میں داخل ہوئے۔ کیکو نے نگاہ دوڑائی اور آخر ایک سرخ مرغ کو منتخب کر لیا۔
میں نے اسے سمجھایا، ’’اس مرغ سے مقابلہ نہ کرواؤ۔ یہ اصیل مرغ ٹیکساس سے درآمد کیا گیا ہے۔‘‘
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کہاں سے ہے۔۔ میرا مرغ اسے مار دے گا۔‘‘
’’بے وقوف نہ بنو۔۔ یہ مرغ ایک قاتل ہے۔ اس نےلڑائی میں اتنے مرغ مارے ہیں کہ کسی لومڑ نے کیا مارے ہوں گے۔ تمہاری مرغی فارغ ہو جائے گی۔ اسے کسی اور مرغ سے لڑاؤ‘‘
مگر کیکو نہ مانا۔ مقابلے کی تیاری شروع ہوئی اور دونوں کے بائیں پنجوں میں سنگلیاں ڈال دی گئیں۔ مجمع اکٹھا ہوا اور سب سرخ مرغ پر شرطیں لگانے لگے۔ لڑائی بڑی مختصر تھی۔ دونوں پرندوں نے ایک چکر لگایا اور پھر ایک دوسرے کے مقابل آ گئے۔ مجھے لگا کہ سرخ مرغ ایک لمحے میں ہماری مرغی کو مار دے گا، مگر۔۔۔۔ سرخ مرغ لڑنے کے بجائے وصال کا رقص کرنے لگا۔ ادھر ہماری مرغی نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور گردن کے بال پُھلائے سیدھا سرخ مرغ کے سینے پر اپنے پنجے گاڑ دیے اور مقابلہ ختم۔
تماشائی چیخنے لگے
’’دھوکا! یہ نورا کشتی ہے۔نتیجہ پہلے سے ہی طے تھا۔‘‘
اس کے بعد وہاں ایک ہنگامہ شروع ہو گیا۔ تماشائیوں نے بانس کی بنی بینچوں کو توڑا اور مار کٹائی شروع کر دی۔میں اور کیکو پچھلے دروازے سے مرغ ہاتھ میں لیے بمشکل فرار ہوئے۔ مرغ میرے ہاتھ میں تھا۔ ہم دیر تک بھاگتے رہے اور آخر اس مشتعل ہجوم سے محفوظ ہو گئے۔
ایک جگہ رکتے ہی کیکو نے سوال کیا، ’’اب تو تمہیں یقین آگیا کہ یہ مرغا ہے۔‘‘
’’ہاں!‘‘
مجھے تو اس بات کی خوشی تھی کہ یہ جھگڑا ختم ہوا۔ اچانک مرغے پر لرزہ طاری ہوا۔۔ وہ میرے بازوؤں پر ہی کھڑا ہو گیا اور زور سے کٹ کٹ کرنے لگا۔ن میرے ہاتھ پر ایک گرم اور گول شے آن گری۔
وہ ایک انڈہ تھا۔