میوزیم (کیوبن ادب سے منتخب افسانہ)

لوئی رافیل ہرناندس (ترجمہ: محمد فیصل)

چھٹی کی گھنٹی بجی تو بچے شور مچاتے باہر نکلے۔ اس کا بیٹا اس کے پاس آیا۔

’’شکر ہے آج آپ مجھے جلدی لینے آ گئے، مما تو بہت دیر کر دیتی ہیں۔‘‘

’’تمہاری مما دیر تک کام کرتی ہیں۔‘‘

’’آپ ہی مجھے ہر روز لینے کیوں نہیں آتے؟‘‘

’’آج میری چھٹی ہے۔۔ مگر میں کوشش کروں گا کہ روزانہ تمہیں میں ہی لینے آؤں۔‘‘

’’آپ جب گھر آتے ہیں تو میں سو چکا ہوتا ہوں اور صبح آپ میرے اٹھنے سے پہلے جا چکے ہوتے ہیں اور آپ مجھے اسکول چھوڑنے یا لینے بھی نہیں آتے۔‘‘

’’اوں ہوں! آج تو میں تمہیں لینے آیا ہوں!‘‘

لڑکا مسکرا اٹھا اور اپنے والد کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں کچھ دیر خاموشی سے چلتے رہے۔ اگرچہ باپ کی رفتار کچھ زیادہ تیز نہیں تھی مگر لڑکے کو اتنے تیز قدم اٹھانے میں دشواری ہو رہی تھی۔ اس نے رک کر اپنے باپ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’آج آپ مجھے کیوں لینے آئے ہیں؟‘‘

’’کیوں کہ تمہاری مما کسی ضروری کا م میں مصروف تھیں۔‘‘

دونوں چلنے لگے اور چلتے چلتے ایک موڑ پر رک گئے۔ باپ بولا، ’’آؤ یہاں سے دوسری طرف چلیں یہ ہونقوں کی سائیڈ ہے؟‘‘

”ہونقوں کی سائیڈ؟ وہ کیا ہوتی ہے؟“

’’یہ سڑک کا وہ حصہ ہے، جہاں دھوپ پڑتی رہتی ہے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ جو اس دھوپ والے حصے کی طرف چلتے ہیں، وہ ہونق ہو جاتے ہیں۔‘‘

لڑکا مسکرانے لگا اور زیرِ لب بولا، ’ہونقوں کی سائیڈ۔۔۔‘ اسے آج ایک نیا سبق ملا تھا۔ وہ سڑک پر تیزی سے چلتی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔ دونوں ایک سڑک کنارے بنے اس نشان تک پہنچ گئے، جہاں سے پیدل چلنے والے سڑک پار کر سکتے تھے۔ لڑکا بار بار مڑ کر اپنے سائے کو دیکھ رہا تھا۔ سڑک پار کرتے ہی اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور ایک درخت کے نیچے جا کھڑا ہوا۔

’’بابا! آپ بھی ہونق ہیں۔‘‘

’’ہوں! ہاں تھوڑا بہت تو ہوں۔۔‘‘ اس کے بابا مسکراتے ہوئے بولے اور اس کا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا۔

’’ابا! ہم میں اور ان گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں میں کیا فرق ہے؟‘‘

’’وہ ہم جیسے ہیں۔۔ بس انہیں چلنا نہیں پڑتا۔‘‘

’’مگر وہ ہونقوں والی سائیڈ پر چل رہے ہیں۔‘‘

کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر لڑکے نے اپنے جوتے کا تلوا دکھایا، ’’دیکھیے! اس میں ایک سوراخ ہے۔‘‘

اس کے والد نے سوراخ دیکھا اور بولا، ’’یہ اتنی جلدی کیوں خراب ہو جاتے ہیں؟ مجھے لگتا ہے تم ان کا خیال نہیں رکھتے۔۔ اسکول میں تم بھاگتے رہتے ہو، اس سے یہ جوتے خراب ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’مگر جب میں اسکول میں کھیلتا ہوں تو انہیں اُتار دیتا ہوں۔‘‘

’’میں نے خود تمہیں دیکھا کہ تم ان جوتوں کو کیسے موڑتے ہو۔ اس طرح یہ جوتے ٹوٹ سکتے ہیں۔ میں نے تمہیں ہزار بار سمجھایا ہے۔‘‘

’’ہاں۔۔ اور مما نے بھی۔‘‘

’’تمکیں اپنی چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘

’’اگر ہمارے پاس اپنی گاڑی ہوتی تو میرے جوتے خراب نہ ہوتے۔۔ مما کو بھی یہ جوتے دکھائیں۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے لڑکے کی آواز بھرا گئی۔۔ اس نے جوتے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’آپ مجھے نیا جوتا کیوں نہیں خرید دیتے؟‘‘

”ہاں وہ دراصل۔۔۔۔ کچھ یہ مسئلہ ہے کہ بازار میں نئے جوتے ختم ہو چکے ہیں۔“

لڑکا پریشان ہو گیا، باپ نے اسے پچکارتے ہوئے کہا، ’’کوئی بات نہیں، ہم ابھی موچی کے پاس جاتے ہیں ۔وہ اسے بالکل نئے جیسا بنا دے گا۔‘‘

لڑکا مسکراتے ہوئے اپنے باپ کو دیکھنے لگا۔ وہ جیسے مطمئن سا ہو گیا۔ دونوں تیزی سے چلنے لگے۔ باپ کو علم نہ ہو سکا کہ اس کا لڑکا اتنی تیزی سے قدم نہیں اٹھا سکتا۔ دونوں دائیں طرف مڑے اور کچھ فاصلہ مزید طے کیا۔ باپ نے اسے ایک خوب صورتی سے سجا ٹرک دکھایا۔
’’وہ ٹرک دیکھو، اس پر کتنی خوب صورت تصویریں بنی ہوئی ہیں۔‘‘

مگر لڑکے کی نظریں ایک دکان پر جیسے گڑ سی گئیں۔۔ دکان میں بہت سے جوتے سجے ہوئے تھے۔ لڑکے کے چہرے پر بیک وقت خوشی اور حیرانی کے تاثرات ابھرے، ’’وہ دیکھیں بابا! اتنے ڈھیر سارے نئے جوتے۔۔ کیا آپ یہ سب میرے لیے خرید سکتے ہیں؟‘‘

باپ ویران آنکھوں سے دکان کی طرف دیکھتا رہا۔ دکان کے اندر تیز روشنیوں میں سجے جوتے۔۔ اس کا دل ڈوب گیا۔ آخر وہ ہمت مجتمع کر کے بولا، ’’یہ جوتے بیچنے کے لیے نہیں ہیں۔‘‘ اس نے لڑکے کا ہاتھ تھاما اور دوسری طرف دیکھتے ہوئے بولا تاکہ بیٹا اس کے چہرے کے تاثرات نہ بھانپ سکے، ’’یہ ایک میوزیم ہے۔۔‘‘

’’اوہ۔۔ میوزیم۔‘‘ لڑکے نے پیچھے مڑکر دکان پر نظر دوڑائی۔ شیشے میں مختلف رنگوں اور ڈیزائن کے جوتے سجے تھے کہ وہ انہیں گن نہ پایا۔ وہ ایک سڑک پار کرنے کے لیے رُکے تو لڑکے نے باپ کی آنکھوں میں دیکھا، وہ مسکرا رہا تھا اور جوتوں کی چمک سے متاثر لگ رہا تھا۔۔ اس نے صرف اتنا کہا، ’’وہ میوزیم کتنا خوب صورت تھا، پاپا!‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close