ہم انتہائی غربت کو کیسے ختم کریں؟ جواب مضحکہ خیز حد تک واضح ہے!

روری سٹیورٹ

اس ہفتے جب عالمی رہنما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے جمع ہیں تو انہیں ایک بڑی ناکامی کا سامنا ہے۔

دنیا نے 2030 تک ’انتہائی غربت‘ کے خاتمے کا وعدہ کر رکھا ہے، یہ 10 سال کے لیے اقوام متحدہ کا سب سے بڑا ہدف ہے، جس کے حصول کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔

لیکن ہم یہ ہدف بڑے فرق سے حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ہم اس ضمن میں کچھ کر سکتے ہیں۔

غربت کا مطلب بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں لیکن انتہائی غربت کی ایک مخصوص تعریف ہے، یعنی یومیہ 2.15 ڈالر (1.73 پاؤنڈ یا 629.84 پاکستانی روپے) سے کم آمدن پر گزر بسر کرنا۔

عالمی بینک کی جانب سے کھینچی گئی یہ لکیر اس بات کا تخمینہ ہے کہ کسی شخص کو خوراک، پانی اور رہائش سمیت بنیادی اشیائے ضرورت خریدنے کے لیے کتنی رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لکیر سے اوپر آپ زندہ رہ پائیں گے لیکن اس سے نیچے آپ زندہ نہیں رہ سکتے۔ انتہائی غربت کا خاتمہ سب سے بڑا ہدف نہیں بلکہ سب سے نیچے والا مقصد ہے۔

انتہائی غربت کی بہت سی وجوہات ہیں۔ نوآبادیاتی نظام نے دولت اور وسائل چوری کیے، آزادی کے بعد بہت سے رہنما انتشار کا شکار یا مطلق العنان رہے ہیں اور اگرچہ جغرافیے کا مطلب قسمت نہیں ہوتا لیکن اس نے سمندر کے راستے تجارت کو مشکل بنا دیا ہے۔ اس نے گرم علاقوں کی بیماریوں کو بدتر اور ماحول کی تبدیلی کو ہلاکت خیز بنا دیا ہے۔

ترقیاتی امداد اکثر ضائع ہوئی اور غیر موثر رہی۔ اس صورت حال کو میں نے پہلے ترقیاتی کارکن کے طور پر اور بعد میں برطانیہ کے ترقیاتی اخراجات کے ذمہ دار وزیر کی حیثیت سے بار بار دیکھا۔

میں ادویات کے بغیر ہسپتالوں، 180 طلبہ کے لیے ایک استاد والے سکولوں اور صفائی ستھرائی کے پروگراموں کا معائنہ کرتا تھا، جہاں 90 فیصد رقم ’پروگرام ڈیزائن‘ میں غائب ہو جاتی تھی۔

اقوام متحدہ کا 2030 کا ہدف عالمی غربت میں 50 سال کے عرصے میں بتدریج کمی پر مبنی تھا لیکن ایسا زیادہ تر چین اورایشیا میں ہوا۔ سب صحارا افریقہ میں انتہائی غریب افراد کی تعداد 1980 کی 17 کروڑ سے بڑھ کر آج 47 کروڑ ہوگئی ہے۔

عوام کا خیال تھا کہ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں کیوں کہ ٹیلی تھونز اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں وعدہ کیا گیا کہ غربت کا خاتمہ ممکن ہے جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔

چین میں کامیابی کی وجہ سے غربت میں کمی کے عالمی فیصد پر توجہ مرکوز کرنے والی امدادی صنعت نے خود کو یہ یقین دلایا کہ اس کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں حالاںکہ ایسا نہیں تھا۔ یہ کوششیں ثبوت کی بجائے نظریے پر مبنی تھیں۔ تاہم شواہد پر ایک سنجیدہ نظر ڈالنے سے ہماری زندگی میں انتہائی غربت کے خاتمے کا ایک امید افزا راستہ سامنے آتا ہے۔

ماضی میں جب اقوام متحدہ اپنے ہزار سالہ ترقیاتی اہداف (ایم ڈی جیز) کا تعین کر رہی تھی تو ہارورڈ اور ایم آئی ٹی کے محققین کو شبہ تھا کہ ہم ترقی کے بارے میں اپنی سوچ سے کم جانتے ہیں، لہذا غربت کے خاتمے کے پروگراموں کے کارآمد ہونے کی جانچ کرنے کے لیے رینڈمائزڈ کنٹرولڈ ٹرائلز سے کام لیا گیا۔ انہیں پتہ چلا کہ بہت سے پروگرام کوئی ایسی تبدیلی لانے میں ناکام رہے جس کی پیمائش کی جا سکے لیکن ایک نسبتاً غیر روایتی خیال مفید ثابت ہوا یعنی لوگوں کو پیسے دینا۔

تین سے زیادہ مطالعات اور حساب کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ جب براہ راست رقم دی جاتی ہے تو غربت کا شکار افراد اسے اچھی طرح سے خرچ کرتے ہیں، جس سے ان کی صحت، تعلیم، آمدنی اور خود انحصاری میں دیرپا بہتری آتی ہے۔ ضرورت مندوں کو بہتر معلوم ہے کہ انہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ انہیں پیسے دینے سے وہ انتخاب کر سکتے ہیں۔

ہمارے لیے پانچ سو ڈالر (400 پاؤنڈ) تک کی رقم یومیہ 2.15 ڈالر(1.73پاؤنڈ) سے کم پر زندگی گزارنے والے کسی شخص کے لیے زندگی کو تبدیل کرنے والی رقم ہے۔ مزید مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ بہت سے لوگوں کو ایک ہی وقت میں پیسے دینے سے نہ صرف انہیں بلکہ ان کے پڑوسیوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ پیسہ مقامی طور پر خرچ اور استعمال کیا جاتا ہے۔

مجھے کبھی اس خیال پر شبہ تھا، جب کہ آپ اس وقت اس پر شک کر سکتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ امدادی وزارت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے افراد کی چھوٹی سی فوج کے پاس کچھ ایسا ہونا چاہیے جو لوگوں کو صرف نقد رقم دینے سے بہتر کام کرے (نقد رقم دینے کا سیدھا سادہ آئیڈیا!)

لیکن روانڈا، جہاں اس آئیڈیے پر عمل کیا جا رہا تھا، کے دورے کے دوران میں نے دیکھا کہ رقم کے ہوشیاری کے ساتھ استعمال کے تصور کا تعلق ہمارے ساتھ نہیں بلکہ اسے وصول کرنے والوں کے ساتھ تھا۔

نسبتاً چھوٹی، ایک بار دی گئی رقوم کے ساتھ، خاندان آپسی سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ دیہات اپنی توانائی، رہائش، صفائی ستھرائی اور کاروبار کو اس سے کہیں زیادہ تیزی اور موثر طریقے سے تبدیل کر رہے ہیں جو کوئی امدادی پروگرام کر سکتا ہے۔

اوپر سے نیچے حل لانے کی بجائے، پیسہ نیچے سے اوپر تک مدد کرتا ہے۔

ہم صرف نقد رقم دے کر غربت کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔ ان برادریوں کو پھلنے پھولنے کے لیے بازاروں، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک رسائی کی بھی ضرورت ہے۔ پھر بھی غربت کا شکار بہت سے لوگ ان مواقعوں کے قریب رہتے ہیں لیکن اتنے غریب ہیں کہ ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ غریب ترین لوگوں کو اپنے اندر سرمایہ کاری کرنے کے وسائل نہ دے کر ہم درحقیقت انہیں ترقی کی کہانی سے خارج کر رہے ہیں۔ اس کی بجائے ان کی ضرورت کا اندازہ لگانے کا انتخاب کر رہے ہیں۔

آج ہم نیو یارک میں جمع ہو رہے ہیں اور اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ غریب ترین ممالک کی ترقی کے لیے ہمارے منصوبوں سے بات نہیں بن سکی۔ پھر بھی میں محتاط انداز میں پرامید ہوں، کیوں کہ نقد امداد کی شکل میں ہمارے پاس لوگوں کو غربت سے نکالنے کا ایک ثابت شدہ طریقہ موجود ہے۔ احتیاط سے کام لینا ہو گا کیوں کہ اس کے لیے امیر ممالک کی جانب سے یہ تسلیم کرنے کے لیے بنیادی عاجزی کی ضرورت ہوگی کہ ہو سکتا ہے کہ انہیں معلوم نہ ہو کہ غریب ترین افراد کے لیے کیا بہترین ہے۔

لیکن امیر ممالک کے لیے انتہائی غریب افراد کو کہیں زیادہ نقد امداد فراہم کرنے سے زیادہ مؤثر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ یہ اقدام نہ صرف ان کی زندگیاں بچائے گا اور انہیں تبدیل کرے گا بلکہ اس سے ان کے علم، احترام اور وقار پر اعتماد کا اظہار بھی ہوگا۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close