ماہرِ تعلیم و نفسیات لازلو پولگر کا ’بچوں کو جینئس بنانے کا فارمولا‘ کیا ہے؟

امر گل

ذہانت کے بارے میں عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ذہانت پیدائشی ہوتی ہے اور ہر انسان اپنے جینیاتی ورثے کے مطابق ذہنی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن لازلو پولگر وہ ماہرِ تعلیم و نفسیات تھا، جس نے نہ صرف اس نظریے کو چیلنج کیا بلکہ عملی طور پر اپنے موقف کو درست بھی ثابت کرکے دکھایا۔

ذہانت کے پیدائشی یا موروثی ہونے کا نظریہ بنیادی طور پر قدرتی ذہانت یا موروثی ذہانت (innate intelligence) کے تصور سے تعلق رکھتا ہے، جسے کچھ ماہرین ’جینیاتی ذہانت‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق انسانی ذہانت کی حد اور اس کا معیار قدرتی طور پر متعین ہوتا ہے اور اس میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا۔ اسی بنیاد پر ماہرین کا خیال ہے کہ ذہانت میں کمی بیشی کی کوشش کسی حد تک کارگر تو ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ذریعے انسان کی ذہانت میں بنیادی تبدیلیاں لانا مشکل ہے۔

ذہانت کے اس تصور کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ جینیات اور خاندان کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ذہانت کی سطح زیادہ تر جینیاتی معلومات سے منتقل ہوتی ہے۔ اگر والدین ذہین ہیں تو ان کے بچے بھی اسی طرح ذہین ہوں گے، کیونکہ جینیات کے ذریعے ذہانت کے اثرات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں۔

لیکن مشرقی یورپ کے ملک ہنگری کے ایک ماہرِ تعلیم، ماہرِ نفسیات اور مصنف لازلو پولگر نے اس نظریے کو چیلنج کیا۔ اس کا نام خاص طور پر اس وقت مشہور ہوا، جب اس نے اپنے تین بچوں کو شطرنج کے عالمی سطح کے کھلاڑی بنانے کے لئے ایک مخصوص تربیتی فلسفے کو عملی جامہ پہنایا۔

لازلو پولگر کی کہانی ایک عام ماہرِ نفسیات اور ماہرِ تعلیم کی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسی داستان ہے جو سوالات، تجربات اور خوابوں سے بنی ہے۔ اس کا نظریہ کہ ”جینیئس بنایا جاتا ہے، پیدا نہیں ہوتا“ نہ صرف تعلیمی نفسیات میں ایک نئے باب کا آغاز ہے، بلکہ ایک والد کی اپنے بچوں کے لئے غیر معمولی خواب دیکھنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی دلکش مثال بھی ہے۔

لازلو پولگر کا تعلق ایک ایسے معاشرے سے تھا، جہاں تعلیمی کامیابی کو قدرتی ذہانت سے منسلک کیا جاتا تھا۔ پولگر نے ابتدائی زندگی میں دیکھا کہ معاشرہ ذہانت کو قدرتی یا موروثی تحفے کے طور پر دیکھتا ہے، اور اکثر بچوں کو اس بنیاد پر ہی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ لازلو نے یہ بات محسوس کی کہ اس طرح کی سوچ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ اس میں بچوں کی محنت اور تربیت کے عوامل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

پولگر نے اپنی جوانی میں تعلیم و نفسیات کی کتب کا گہرا مطالعہ کیا، اور خاص طور پر اس نے اُن شخصیات کا مطالعہ کیا جنہیں عام طور پر ’جینیئس‘ سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ سقراط، وولف گانگ موزارٹ، بلیز پاسکل، آئن اسٹائن اور دیگر ناموَر شخصیات۔ اس مطالعے کے دوران پولگر کو یہ بات سمجھ میں آئی کہ ان شخصیات کی ذہانت اور کامیابیاں محض پیدائشی ذہانت کا کرشمہ نہیں بلکہ ان کی ابتدائی زندگی میں ملنے والی مخصوص تربیت اور ماحول کا نتیجہ ہیں۔ پولگر کے مطابق، زیادہ تر ’جینیئس‘ اپنے مخصوص شعبے میں محنت اور تربیت کے نتیجے میں ہی نمایاں ہوئے تھے۔ کئی برسوں تک مطالعے کے بعد لازلو پولگر اس نتیجے پر پہنچا کہ ”فطین یا جینئس پیدا نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی عام صحت مند بچے کو ٹرینڈ کر کے جینئس بنایا جا سکتا ہے۔“ یعنی ذہانت پیدائشی نہیں ہوتی بلکہ اسے منظم تربیت، سخت محنت، اور مستقل مزاجی کے ذریعے پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

یوں لازلو پولگر نے اپنا مشہور جملہ ”جینیئس بنایا جاتا ہے، پیدا نہیں ہوتا“ اس مطالعے کی روشنی میں تشکیل دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر کسی بھی بچے کو ابتدائی عمر سے کسی ایک مخصوص شعبے میں بھرپور تربیت دی جائے تو وہ شعبے میں غیر معمولی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔ پولگر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کامیابی کا دارومدار محض قدرتی صلاحیتوں پر نہیں، بلکہ بچوں کے ماحول، تربیت، اور محنت پر ہے۔

یہ سب اُس وقت شروع ہوا جب لازلو، تعلیم و تربیت کے اصولوں پر سوال اٹھانے لگا۔ اس کا دل اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھا کہ ذہانت محض قدرت کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ اس نے سوچا، ’اگر ذہانت کو سیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے، تو کیوں نہ اس نظریے کو آزمائش میں لایا جائے؟‘ اپنے خواب کی تکمیل کے لئے اس نے اپنی زندگی کا تجربہ اور اپنی پوری توانائی کو ایک بڑے تجربے میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔

اس کا خواب تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ’جینیئس‘ کے درجہ تک پہنچا سکے، اور اس کے لئے اس نے ایک منصوبہ تیار کیا۔ لازلو کی بیوی، کلارا، نے بھی اس کے اس خواب کی تکمیل میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کریں گے کہ دنیا انہیں ’پیدائشی ذہین‘ کے بجائے ’پیدا کیے گئے جینیئس‘ کے طور پر دیکھے۔

یوں یہ نظریہ نہ صرف تعلیمی ماہرین بلکہ خود لازلو کے لئے ایک تجربہ بن گیا۔ اس نے اسے عملی طور پر آزمانے کا فیصلہ کیا اور اپنی آنے والی نسل کو بطور ’جینیئس‘ تربیت دینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہوا۔ اس مقصد کے لیے لازلو اور کلارا نے اپنی بیٹیوں کے لئے شطرنج کا انتخاب کیا، ایک ایسا کھیل جس میں نہ صرف مہارت بلکہ ذہانت اور حکمت بھی درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی تمام بیٹیوں کو اسی ایک کھیل میں تربیت دی جائے گی تاکہ وہ اس میں غیر معمولی مقام حاصل کر سکیں۔ شطرنج کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک ایسا کھیل ہے، جس میں ذہنی طاقت اور تجزیاتی سوچ کی بھرپور آزمائش ہوتی ہے۔ لازلو نے اپنے گھر کو شطرنج سے متعلق کتب، مسائل اور معلومات سے بھر دیا اور اپنی بیٹیوں کو شطرنج کی دنیا میں قدم جمانے کے لئے ہر ممکن طریقہ اپنایا۔

لازلو پولگر نے اپنی بیوی، کلارا، کے ساتھ مل کر اس نظریے پر کام کرنے کا عزم کیا۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو گھر میں ہی تعلیم و تربیت دینے کا فیصلہ کیا، تاکہ انہیں شطرنج کی تربیت دی جائے اور دیگر تعلیمی اداروں کی روایتی پابندیوں سے آزاد ہو کر انہیں مخصوص مہارت میں تربیت دی جا سکے۔ یوں، لازلو پولگر کا یہ نظریہ ایک دلچسپ تجربے کے طور پر دنیا کے سامنے آیا، جسے اس نے پوری زندگی کی محنت اور مستقل مزاجی کے ذریعے عملی جامہ پہنایا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لازلو شادی سے قبل ہی کارلا سے اس موضوع پر طویل اور تفصیلی گفتگو کرتا رہا تھا۔ اس کی بیوی کارلا، جو شادی سے پہلے یوکرین میں رہتی تھی، نے بہت بعد میں بتایا ”ہم شادی سے پہلے ایک دوسرے کو طویل خط لکھا کرتے، مگر اس میں رومانوی باتوں کے بجائے یہ باتیں ہوتی تھیں کہ کس طرح اپنے بچوں کو تربیت اور تعلیم دے کر جینئس بنانا ہے۔“

لازلو اور کارلا پولگر ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپسٹ کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے۔ وہاں انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ لازلو کی تین بیٹیاں ہوئیں، سوزن، صوفیہ اور جوڈتھ۔

ان میں سب سے بڑی بیٹی سوزن نے سب سے پہلے شطرنج کھیلنا شروع کیا اور باقی دونوں نے بعد میں اس کی تقلید کی۔ سوزن شطرنج (chess) کی گرینڈ ماسٹر بنی، جو ایک بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ وہ انسانی تاریخ میں بننے والی تیسری خاتون گرینڈ ماسٹر تھی۔ وہ تین سال تک ویمنز چیس ورلڈ چیمپیئن رہی، بے شمار دیگرٹورنامنٹ جیتے، بہت سے اعزازات اپنے نام کیےاور اب بھی وہ چیس ٹرینر، کوچ اور مصنّفہ ہے۔

لازلو پولگر کی دوسری بیٹی صوفیہ انٹرنیشنل چیس ماسٹر اورویمن گرینڈ ماسٹر بنی۔ اس نے بھی بہت سے انٹرنیشنل ٹورنامنٹس میں حصہ لیا اور کامیابیاں سمیٹیں۔ صوفیہ نے ہنگری جانب سے چیس اولمپیڈ میں حصہ لیا اور دو انفرادی گولڈ میڈل کے علاوہ تین ٹیم گولڈ میڈلز اور ایک ٹیم سلور میڈل جیتا۔ صوفیہ بھی شطرنج کی کوچ، ٹرینر اور آرٹسٹ ہے۔ اس نے شطرنج کے بعدپرفارمنگ آرٹ میں بھی نام کمایا۔

لازلو پولگر کی تیسری بیٹی جوڈتھ کو تاریخ کی عظیم ترین خاتون شطرنج کھلاڑی مانا جاتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ”اس سے اچھی اور لائق خاتون شطرنج کھلاڑی آج تک نہیں آئی۔“ جوڈتھ نے پندرہ سال اور چار ماہ کی عمر میں شطرنج کے اہم اعزاز گرینڈ ماسٹر کو حاصل کر کے ورلڈ ریکارڈ بنایا۔ اس سے قبل امریکی ورلڈ چیس چیمپیئن بوبی فشر کم عمر ترین گرینڈ ماسٹر تھا۔

جوڈتھ نے صرف پانچ سال کی عمر میں اپنے شہر کے ٹورنامنٹ جیتنا شروع کر دیے تھے۔ صرف بارہ سال کی عمر میں اس نے ورلڈ چیس فیڈریشن کی ٹاپ ہنڈرڈ رینکنگ میں جگہ بنا لی۔ جوڈتھ پولگر پچیس سال تک دنیا کی نمبر ون ویمن چیس پلیئر رہی، حتیٰ کہ 2014 میں اس نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ جوڈتھ پولگر دنیا کی واحد خاتون ہیں جو دنیا کے ٹاپ ٹین پلیئرز (مرد، عورت دونوں کو ملا کر) میں شامل رہیں۔

جوڈتھ نے دنیا کے بہت سے ورلڈ چیمپیئنز کو شکست دے رکھی ہے جن میں اناطولی کارپوف، گیری کیسپاروف اور وشواناتھ آنند جیسے کئی بار کے ورلڈ چیمپیئنز اور لیجنڈز شامل ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جوڈتھ پولگر کو ہنگری کی نیشنل مینزٹیم کا کوچ بنایا گیا۔ اسے ہنگری کا سب سے بڑا سول ایوارڈ بھی ملا اور وہ ورلڈ چیس ہال آف فیم کا حصّہ بھی بنی۔

ستمبر 2002 میں ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے سب مو حیران کر دیا۔ ’سوویت یونین بمقابلہ ریسٹ آف دی ورلڈ‘ ٹورنامنٹ میں جوڈتھ ورلڈ ٹیم کی جانب سے تھی، اس کا میچ روس کے مشہور زمانہ کھلاڑی گیری کیسپاروف سے ہوا، کیسپاروف تب ورلڈ چیمپیئن تھا۔ جوڈتھ نے یہ مقابلہ اپنی ایک انوکھی چال سے جیت لیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی خاتون نے کسی مرد ورلڈ چیمپئن کو انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں شکست دی۔

اس شکست سے گیری کیسپاروف اس قدر دلبرداشتہ ہوا کہ وہ پریس کا سامنا کرنے کے بجائے عقبی دروازے سے نکل گیا۔ واضح رہے کہ کیسپاروف نے اس سے پہلے انٹرویو میں طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواتین شطرنج کھلاڑیوں کو اس کھیل کے بجائے اپنے بچے پالنے چاہئیں۔

جوڈتھ کی بڑی بہن سوزن پولگر کے مطابق ایسا نہیں کہ جوڈتھ ہم تینوں میں سے زیادہ ہوشیار یا ذہین تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہم تینوں میں سب سے زیادہ ہارڈ ورک کیا، اپنی بے پناہ محنت اور فوکس کے باعث وہ اس مقام تک پہنچی۔

دراصل ان تمام کمالات کے پیچھے ان کا باپ لازلو پولگر تھا، جس نے انہیں بچپن ہی سے ایک خاص انداز سے تعلیم اور تربیت دی۔ یہ بذات خود ایک حیران کن کہانی ہے۔

لازلو پولگر اور اس کی بیوی کارلا نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بچپن ہی سے خاص انداز میں تعلیم دے کر جینئس بنائیں گے۔ یہ طے نہیں ہوا تھا کہ کس فیلڈ میں۔۔ لازلو کا خیال تھا کہ میتھ، فزکس یا بزنس یا کسی بھی اور شعبے میں ایسا ہو سکتا ہے۔

ماں باپ کی مشکل ان کی پہلی بیٹی سوزن نے حل کر دی۔ اپنی تیسری سالگرہ پر اس نے الماری سے شطرنج اُٹھائی اور باپ کو کہا کہ میرے ساتھ کھیلیں۔ لازلو نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب دونوں نے طے کر لیا کہ شطرنج ہی وہ میدان ہوگا۔

اس کے بعد لازلو نے اپنی بیٹی کو نہ صرف شطرنج سکھانا شروع کیا بلکہ اس نے اس کی بھرپورانداز میں ٹریننگ بھی کی۔ بچی کو ذہنی پزل حل کرنے سکھائے جاتے، اسے ایک سے زائد زبانوں کی تعلیم بھی ملتی اور ایسے دلچسپ اور موٹیویشنل انداز میں وہ شطرنج کی تربیت لیتی کہ کھیل اور تفریح دونوں یکجا ہو جائیں۔ یہی سب کچھ اس کے بعد والی بیٹیوں کے ساتھ بھی ہوا۔

لازلو اور کارلو پولگر نے اپنی بیٹیوں کی ہوم اسکولنگ کی، جو کہ تب کمیونسٹ ہنگری میں ایک مشکل کام تھا۔ اس نے طویل لڑائی لڑی، مقامی انتظامیہ اور مقامی کمیونسٹ تنظیم سے بھی۔ پھر جب اس کی بچیوں نے شطرنج کے ٹورنامنٹ کھیلنے شروع کیے تو حکومت کی جانب سے اصرار ہوا کہ وہ صرف ویمن چیس ٹورنامنٹ کھیلیں۔

لازلو پولگر چاہتا تھا کہ اس کی بیٹیاں صرف بہترین خاتون کھلاڑی نہ بنیں بلکہ وہ مرد اور عورت دونوں سے بہترین کھلاڑی کہلائیں، لیکن ہنگری حکومت رضامند نہ ہوئی تو لازلو پولگر نے احتجاجاً کمیونسٹ پارٹی چھوڑ دی۔ وہ ملک چھوڑ کر جانا چاہتا تھا لیکن حکومت نے سفر کرنے کی اجازت نہ دی۔ آخرکار مجبور ہو کر اس نے ہنگری حکومت کی شرط مان لی۔ اس کی بیٹیوں نے ایک عالمی ویمن ٹینس ٹورنامنٹ میں حصّہ لیا اور تینوں بچیوں نے کمال کر دکھایا۔

اس کامیابی نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا اور پولگر فیملی پر عائد پابندیاں ختم ہو گئیں۔ پھر لازلو اور کارلا پولگر نے اپنی بچیوں کے ساتھ دنیا کے چالس ملکوں کا سفر کیا اور بے شمار ٹورنامنٹس میں حصّہ لیا۔

لازلو پولگر کے تجربے کو جہاں ایک عظیم کامیابی کے طور پر دیکھا گیا، وہیں کچھ ماہرین نے اس پر تنقید بھی کی۔ اس کے معاصر اساتذہ اور ریسرچر اسے مشہور افسانوی کردار ’ڈاکٹر فریکنسٹائن‘ سے تشبیہ دیتے تھے، جس کے سائنسی تجربہ نے ایک انسان کو عفریت بنا دیا تھا۔ اس تناظر میں ناقد ماہرین کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی اولاد کا بچپن ختم کر دیا اور انہیں چیس روبوٹ بنا دیا ہے۔

ناقدین کے مطابق، بچوں کو ایک مخصوص شعبے میں محدود کرنا ان کی آزادی اور ذاتی دلچسپیوں کو ختم کر سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تجربہ بچوں کے ذہن پر دباؤ ڈال سکتا ہے اور ان کی شخصیت کی مکمل نشوونما کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، پولگر کا ماننا تھا کہ اگر بچپن سے کسی خاص ہدف کی طرف بھرپور محنت کی جائے تو انسان اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں پروان چڑھا سکتا ہے۔

تمام تر تنقید اور الزامات کو نہ صرف لازلو پولگر نے بلکہ اس کی بیٹیوں نے بعد میں غلط ثابت کر دیا، جب انہوں نے ورلڈ چیمپیئن بننے کے بعد انٹرویوز دیے۔ ان بہنوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچپن اور لڑکپن میں شطرنج کھیل کر لطف اُٹھایا اور ان کے والد نے تعلیم، تربیت اور کھیل کو یکجا کر دیا تھا۔

جوڈتھ پولگر نے گارڈین اخبار کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ تینوں بہنیں اور ان کے والد ایک دوسرے سے بہت قریب رہے اور یہ سب ان کے لئے اچھا ہی ثابت ہوا۔ وہ اپنی والد کی احسان مند تھی جس نے اسے دلچسپ اور مزے دار انداز میں ہارڈ ورک کی طرف مائل کیا۔ اسے عالمی شہرت یافتہ چیمپیئن بنایا۔

گارڈین کے رپورٹر نے لکھا کہ اکثر شطرنج گرانڈ ماسٹر یا چیمپین مُضطرب، ڈسٹرب اور تناؤ کا شکار لگتے ہیں، مگر جوڈتھ پولگر اس کے برعکس نہایت ریلیکس، مطمئن، آسودہ اور پرسکون لگی جو کہ اس کے خوشگوار بچپن، لڑکپن اور اچھے ماضی کا عکاس تھا۔

لازلو پولگر کے اس تجربے نے اکیڈیمک دنیا میں تہلکہ مچایا۔ اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ کئی کتابیں، ڈاکیومینٹریز بنیں، فلموں میں اس کا تذکرہ آیا۔ لازلو پولگر نے خود بھی کتابیں لکھیں۔

اس کی کتاب ’جینیئس کی پرورش کیسے کریں‘ (How to raise a Genious) بہت مشہور ہوئی، جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ لازلو پولگر نے شطرنج پر بھی کئی کتابیں لکھیں، جن میں ’5334 چیس پرابلمز‘ بہت مشہور ہوئی۔

لازلو پولگر کے بارے میں اس کی بیوی کارلا پولگر نے کہا تھا کہ لازلو نے جو عہد کیے تھے وہ تمام پورے کیے اور اس نے ثابت کر دیا کہ جینئس پیدا نہیں ہوتے بلکہ بنائے بھی جا سکتے ہیں۔

لازلو پولگر خود تو کامیاب ہوا ہی، لیکن ساتھ ہی اس نے دنیا بھر کے والدین کو یہ بتا دیا کہ اگر وہ بھی ابتدا ہی سے کوشش کریں، اپنے بچوں پر محنت کریں اور ہارڈ ورک کو ان کا پیشن اور شوق بنا دیں تب ہر گھر میں جینئس موجود ہوں گے۔

یوں ذہانت کے بارے میں ’موروثی ذہانت‘ کے روایتی تصور اور پولگر کے ’ذہانت بذریعہ تربیت‘ کے تصور سے آج ذہانت کے بارے میں ایک جدید نکتہ نظر بھی سامنے آیا ہے۔ آج کے دور میں ماہرین کا ایک وسیع طبقہ یہ مانتا ہے کہ ذہانت پیدائشی اور سیکھنے کے عمل کا مرکب ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق انسانی ذہانت میں جینیاتی عوامل کا کچھ کردار تو ہے، لیکن تربیت، ماحول، اور تعلیم بھی ذہانت میں اضافے یا کمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یعنی ذہانت کو مکمل طور پر فطری قرار دینا درست نہیں بلکہ اسے سیکھنے اور تجربات کے ذریعے بڑھایا جا سکتا ہے۔

اس نظریے کے مطابق: ذہانت میں تربیت اور ماحول کا اہم کردار ہے۔ بچہ جن حالات میں پرورش پاتا ہے، ان کا اس کی ذہانت پر بہت اثر ہوتا ہے۔ جن بچوں کو سیکھنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں اور وہ مختلف تجربات سے گزرتے ہیں، ان میں ذہنی صلاحیت زیادہ تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔

تعلیمی نظام اور طریقہ تعلیم: بچے کی ذہنی نشوونما میں تعلیمی نظام اور اساتذہ کا کردار بھی نہایت اہم ہوتا ہے۔ جدید تعلیمی نظام میں ایسے طریقے اپنائے جاتے ہیں جو بچوں کی فطری صلاحیتوں کو بہتر انداز میں سامنے لاتے ہیں۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ ذہانت پیدائشی طور پر کچھ حد تک متعین ہو سکتی ہے، لیکن لازلو پولگر جیسے نظریات اور جدید تحقیقات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ذہانت کو بڑھایا اور نکھارا جا سکتا ہے۔ ذہانت کے بارے میں قدیم تصورات آج کافی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں، اور اب یہ بات مانی جاتی ہے کہ محنت، تربیت، اور ماحول کی مدد سے ذہانت کو بہت حد تک پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

لازلو پولگر کا یہ فلسفہ کہ ”جینیئس بنایا جاتا ہے، پیدا نہیں ہوتا“ آج کی جدید تعلیمی دنیا میں ایک اہم موضوع ہے۔ ان کی یہ سوچ کہ ہر بچہ جینیئس بن سکتا ہے، اگر اسے مناسب تربیت اور محنت کے مواقع فراہم کیے جائیں، تعلیمی نظام کے لئے ایک سوچنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ لازلو کا نظریہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ذہانت محض قدرتی تحفہ نہیں، بلکہ ایک ایسا ہنر ہے جسے سیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے۔

لازلو پولگر کا خواب محض ایک نظریے سے زیادہ ایک ایسی داستان ہے جس نے ذہانت کے بارے میں روایتی تصور کو بدل کر رکھ دیا۔ ان کی بیٹیوں کی کامیابیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ اگر کسی بچے کو بچپن سے ہی مخصوص اور مسلسل تربیت دی جائے تو وہ جینیئس بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پولگر کی کہانی ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ کامیابی کے لئے محض خواب کافی نہیں، بلکہ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے انتھک محنت اور مستقل مزاجی ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close