سیاہ فام امریکیوں کی فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی میں اضافہ

ویب ڈیسک

سیڈنی والیس شکاگو میں یہودی کمیونٹی کی ایک سیاہ فام سرگرم کارکن ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک فلسطینی امریکی کمیونٹی کارکن کی دعوت پر دو درجن دوسرے ساہ فام امریکیوں، مسلمان، یہودی اور مسیحی مذہبی رہنماؤں کے ساتھ اسرائیل اور مغربی کنارے کا دورہ کیا۔

انتالیس سالہ سیڈنی والیس کہتی ہیں ”میں نے اسرائیل کے سفر کے لئے خود کو کبھی مجبور محسوس نہیں کیا کیوں کہ میرے پاس اندرون ملک ہی توجہ مرکوز کرنے کے لئے بہت کچھ ہے، جہاں میں اکثر و بیشتر امریکی یہودی کمیونٹی میں سیاہ فام مخالف جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور امریکہ میں سفید فام بالادستی کو ختم کرنے جیسے موضوعات پر بات کرتی رہتی ہوں“

یہ سب، تب تبدیل ہو گیا، جب انہوں نے شکاگو کے جنوبی جانب سے فلسطینی امریکی کمیونٹی کے منتظم کی دعوت پر دو درجن دیگر سیاہ فام امریکیوں اور مسلمان، یہودی اور عیسائی مذہبی رہنماؤں کے ساتھ اسرائیل اور مغربی کنارے کا دورہ کیا

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ دورہ چھبیس ستمبر سے شروع ہوا، اور اس دورے نے اسرائیلی فوجی قبضے کے تحت مغربی کنارے کے علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کی جدوجہد کے بارے میں والیس کی فہم اور بصیرت میں اضافہ کیا

بعد ازاں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی بمباری، دنیا بھر میں تباہی اور موت کی دہلا دینے والی تصاویر دیکھے جانے نے امریکہ اور دیگر جگہوں پر سرگرم کارکنوں کو متحرک کیا

والیس اور سیاہ فام امریکیوں کی بڑی تعداد کو مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی جدوجہد میں، نسلی مساوات اور شہری حقوق کے لئے ان کی اپنی جدوجہد کی جھلک نظر آتی ہے

امریکہ میں پولیس کی بربریت کے خلاف احتجاجی تحریکوں کے حالیہ عروج نے، جہاں ساختی نسل پرستی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو متاثر کرتی ہے، نے سیاہ فام اور فلسطینی کارکنوں کو ایک مشترکہ مقصد کے تحت جوڑ دیا ہے

لیکن یہ رشتہ یا تعلق ایک صدی سے زیادہ عرصے سے سیاہ فاموں اور یہودی سرگرم کارکنوں کے درمیان قائم اتحاد میں کشیدگی پیدا کر دیتا ہے

سیاہ فام امریکی گروپس کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کی امریکی حمایت کی مذمت اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے سیاہ فاموں کےمظاہروں سے کچھ یہودی امریکی فکر مند ہیں کہ حمایت یہود دشمنی کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے اور شہری حقوق کی تحریک کے دوران مضبوط ہونے والے یہودی سیاہ فام تعلقات کو کمزور کر سکتی ہے

فلسطینیوں کے لئے سیاہ فام امریکیوں کی حمایت سول رائیٹس کی تحریک کے زمانے سے جاری ہے

فلسطینی کاز کے لیے سیاہ فام امریکی حمایت کا تعلق بائیں بازو کی ممتاز آوازوں کے ذریعے، جن میں میلکم ایکس، سٹوکلی کارمائیکل اور انجیلا ڈیوس شامل ہیں، شہری حقوق کی تحریک سے شروع ہوتا ہے۔ تشدد کے حالیہ دور، بشمول 2021 کی اسرائیل-حماس جنگ اور اب غزہ کے خلاف اسرائیل کی بدترین بمباری مہم نے دونوں تحریکوں کے درمیان تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں

بعض سیاہ فام امریکی، جنہوں نے جنگ بندی کے دوران فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مشاہدہ کیا اور اسرائیل کی اس انتظامی نظر بندی پالیسی کے بارے میں جانا، جس میں پکڑے جانے والوں کو بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا جاتا ہے، وہ اس کا موازنہ امریکی جیلوں کے نظام میں نسلی عدم مساوات سے کرتے ہیں

یہ فلسطینی قیدی نوعمر تھے جنہیں حال ہی میں مغربی کنارے سے اسرائیلی مظالم کے خلاف پتھراؤ جیسی معمولی مزاحمت کے ’جرم‘ میں اٹھایا گیا تھا

اٹلانٹا میں بلیک رن بیل فنڈ کے منتظم جولین روز کا کہنا ہے، ”امریکی، مجرم ثابت ہونے تک خود کو بے گناہ کہلانا پسند کرتے ہیں، لیکن سیاہ فام لوگوں کو ریاستہائے متحدہ میں بنیادی طور پر اور غیر متناسب طور پر حراست میں لیا جاتا ہے اس سے قطع نظر کہ کچھ بھی ثابت ہوا یا نہیں۔۔ اور یہ اسرائیل کی انتظامی حراست سے بہت ملتا جلتا ہے“

اندرون شہر مسلم ایکشن نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رامی ناشاشیبی نے سیڈنی والیس اور دیگر کو ’بلیک یروشلم‘ نامی سفر میں حصہ لینے کی دعوت دی

انہوں نے یروشلم کی چھوٹی افریقی-فلسطینی کمیونٹی کے اراکین سے ملاقات کی — سیاہ افریقی ورثے کے فلسطینی، جن میں سے بہت سے صدیوں پرانے شہر میں اپنے نسب کا پتہ لگا سکتے ہیں

افریقی کمیونٹی سوسائٹی یروشلم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر موسٰی قوس، جن کے والد 1941 میں چاڈ سے یروشلم ہجرت کر گئے اور جن کی والدہ فلسطینی ہیں، نے کہا، ”امریکہ میں ہمارے سیاہ فام بھائی اور بہنیں غلامی کا شکار ہیں اور اب وہ نسل پرستی کا شکار ہیں۔۔ ہم اسرائیلی قبضے اور نسل پرستانہ پالیسیوں کا شکار ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی ہمارے اور سیاہ فام امریکیوں کے خلاف ایک جیسی پالیسیاں چلا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے‘‘

ناشاشیبی نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ”میری فلسطینی شناخت سیاہ فام امریکی تاریخ سے بہت زیادہ مشابہ اور متاثر تھی“

اپنے سفر کے دوران والیس کو اسرائیل کے زیر قبضہ رہنے والے فلسطینیوں کی حالت زار سے اپنی لا علمی کے بارے افسوس ہوا اور جب انہوں نے اسرائیلی چیک پوائنٹس پر فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے اس کا موازنہ امریکہ میں سیاہ فاموں کے نسلی امتیاز سے کیا

والیس نے کہا کہ یہودیوں کے مقدس مقام مغربی دیوار کے باہر اسرائیلی چوکی پر ان کے گروپ سے پوچھا گیا کہ کون یہودی، مسلمان یا عیسائی ہے۔ والیس اور دیگر نے سفر کے لیے جاری کردہ آئی ڈیز دکھائیں، لیکن جب ایک اسرائیلی افسر نے اس کے کارڈ پر عبرانی میں اس کا نام لکھا ہوا دیکھا، تو اسے جانے دیا گیا، جب کہ گروپ میں شامل فلسطینیوں اور مسلمانوں کی سخت جانچ پڑتال اور بیگ کی تلاشی لی گئی

والیس نے کہا وہاں اپنے موجود ہونے سے مجھے حیرت ہوئی کہ کیا یہ ایسا ہی ہے، جیسا اس دور میں امریکہ میں رہنا تھا، جسے ’جم کرو دور‘ کہا جاتا ہے

شکاگو میں جہاں وہ رہتی ہیں۔ والیس نے اپنی یہودی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئیے اور یہود دشمنی کی مخالفت کرتے ہوئے، فلسطینیوں کے لئے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں کوشش کر رہی ہوں کہ کہ ایسا کچھ نہ کروں، جس سے کسی کو الگ تھلگ کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ میں صحیح کام بھی اس لئے نہ کروں کہ میں کسی سے خوفزدہ ہوں۔

کامیلا اوسیگویرا، جو بروکلین، نیویارک میں افریقی نژاد امریکی مسلم کمیونٹی میں پروان چڑھی ہیں، نے بھی کہا کہ اس سفر نے ان کی آنکھیں کھول دیں

مغربی کنارے میں بیت لحم کے قریب ایڈا پناہ گزین کیمپ کے داخلی راستے پر، اوسیگویرا نے ایک بڑی چابی دیکھی – جو کہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے دور میں اپنے گھروں سے محروم کیے گئے فلسطینیوں کی علامت تھی، جسے نکبہ کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان گھروں کی چابیاں اپنے پاس رکھی تھیں، جن سے انہیں زبردستی نکال دیا گیا تھا – یہ علامت فلسطینیوں کے واپس جانے کے حق کی نشاندہی کرتی ہے، جسے اسرائیل نے مسترد کر دیا ہے

اوسیگویرا نے کہا کہ چابی کی اس علامت نے سینیگال میں ’ناپسی کے دروازے‘ کی یادگار کے دورے کو یاد کیا جو غلامی کے شکار افریقیوں کے لیے وقف ہے، جنہیں غلام بحری جہازوں پر زبردستی امریکہ لایا گیا تھا۔ غلام افریقیوں کی اولاد کے طور پر، انہوں نے سوچا کہ ’میری واپسی کا خواب میرے آباؤ اجداد کے لیے کیا معنی رکھتا ہوگا‘

اوسیگویرا نے کہا، ”اپنے گھر واپسی۔۔ یہ ایک خواب ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے“

اسرائیل کا واپسی کا قانون تمام یہودیوں کو اسرائیل میں مستقل طور پر آباد ہونے اور اسرائیلی شہریت حاصل کرنے کا حق دیتا ہے – ایک ایسا تصور جس نے بہت سے سیاہ فام امریکی شہری حقوق کے رہنماؤں کی حمایت حاصل کی، جن میں اے فلپ رینڈولف، بیئرڈ رسٹن، ڈوروتھی ہائیٹ، شرلی چشولم اور مارٹن لوتھر کنگ شامل ہیں۔

تاہم، پچھلی دہائی کے دوران، سیاہ فام امریکیوں اور فلسطینیوں میں بھی بڑھتی ہوئی یکجہتی پائی گئی ہے۔

2020 میں، ایک سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں جارج فلائیڈ کا قتل مغربی کنارے میں گونج اٹھا، جہاں فلسطینیوں نے قبضے کے تحت ہونے والے ظلم و بربریت کے اپنے تجربات کا موازنہ کیا، اور فلائیڈ کے قتل کے خلاف ایک بڑا احتجاج ہوا

2014 میں، فرگوسن، میسوری میں ایک سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے، جس نے بلیک لائیوز میٹر (بی ایل ایم) کی نئی تحریک کو جنم دیا۔ جب کہ فرگوسن میں پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پر آنسو گیس فائر کی، مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ تحریک کو کیسے سنبھالا جائے

2016 میں، جب ’بی ایل ایم‘ کے کارکنوں نے اتحاد قائم کیا جسے موومنٹ فار بلیک لائیوز کہا جاتا ہے، انہوں نے فلسطینیوں کی حمایت کو ایک پلیٹ فارم میں شامل کیا ’سیاہ زندگیوں کے لیے وژن۔‘ مٹھی بھر یہودی گروہوں، جو بڑی حد تک بی ایل ایم تحریک کے حامی تھے، نے اس بات کی مذمت کی کہ سیاہ فام کارکن اسرائیل کو ایک ایسی غاصب ریاست قرار دیتے ہیں جو فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں ملوث ہے

نیشنل ایڈوکیسی گروپ، بلیک مین بلڈ کے شریک ڈائریکٹر فل ایگنیو، جنہوں نے 2014 سے مغربی کنارے کے چار دورے کیے ہیں، نے کہا، ”اس میں یہ شک یا حیرت ہوتی ہے کہ سیاہ فام لوگ دنیا بھر کے دوسرے مظلوم لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں“

اگنیو نے کہا کہ یہ ایک غلطی ہوگی، سیاہ فام اور یہودی امریکیوں کی نمایاں تعداد کو نظر انداز کرنا جو فلسطینیوں کی حمایت میں متحد ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close