بوسٹن کامن: مویشیوں کی چراگاہ سے امریکہ کا پہلا عوامی پارک بننے تک کا سفر

ویب ڈیسک

یہ کوئی چار سو سال پہلے کی بات ہے، جب امریکہ میں ابتدائی یورپی آباد کاروں نے ہر گھر پر چھ شلنگ ٹیکس لگانے کے لیے ووٹ دیا تھا۔ آج کے دور میں ٹیکس کی یہ رقم تقریباً ستر ڈالر بنتی ہے۔ ٹیکس جمع کرنے کامقصد لوگوں کے لیے ایک مشترکہ مقام کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ایک مقامی فارم خریدنا تھا

فرینڈز آف دی پبلک گارڈن کی صدر لِز وِزا کہتی ہیں کہ ان لوگوں کے پاس مکانوں کے سامنے یا پیچھے صحن نہیں تھے اور یہ فارم ان کے لئے ایک صحن تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی، جس کا مالک ہر کوئی تھا۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی، جس سے سبھی فائدہ اٹھاتے تھے۔

لز وِزا کہتی ہیں ’’یہ کوئی تفریحی پارک نہیں تھا۔ وہاں آپ لوگوں کو اپنے قالینوں کو صاف کرتے دیکھ سکتے تھے۔ آپ کو گائے بھینسیں گھومتی نظر آتی تھیں۔ ہر ایک گھرانے کو اپنی ایک گائے وہاں چرانے کا حق حاصل تھا کیونکہ ان کی اپنی کوئی املاک نہیں تھیں“

تو یہ پس منظر ہے بوسٹن کامن امریکہ کے پہلا عوامی پارک بن جانے کا۔ ان دنوں نوآبادیات کے باشندے وہاں سے گزرتے ہوئے برطانوی فوجیوں کو کیمپ لگاتے، سرِعام پھانسی یا کوڑے مارتے دیکھ سکتے تھے۔ پھر ان کے پڑوسی وہاں چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے تھے۔ امریکہ کے سابق صدور جارج واشنگٹن اور جان ایڈمز نے بھی اس پارک کا دورہ کیا تھا۔

نیشنل پارک سروس ویب سائٹ کے مطابق ”1634 میں، بوسٹن کے شہر کے لوگوں نے ولیم بلیک اسٹون کے فارم کی خریداری کے لیے ہر گھر پر چھ شلنگ ٹیکس لگانے کے لیے ووٹ دیا تاکہ اسے کمیونٹی مشترکہ کے طور پر استعمال کیا جائے۔ نئے قائم کردہ کامن میں عوامی، فوجی، زرعی اور تفریحی مقاصد کی سرگرمیاں ہوئیں۔ 1600 اور 1700 کی دہائیوں میں، بوسٹن اور آس پاس کی کمیونٹیز کی کمپنیوں نے کامن پر فوجی تربیت کی۔ 1775 اور 1776 کے موسم سرما کے دوران، برطانوی فوجیوں نے کامن پر توپ خانے کی تنصیبات کیں، اور 1,700 فوجیوں کی ایک چھاؤنی وہاں پڑی رہی۔ اس کے دوسرے ابتدائی عوامی استعمال میں سرعام پھانسیاں اور کوڑے شامل تھے۔ اس پارک نے زرعی مقاصد کو بھی پورا کیا۔ یہ پارک اپنی تخلیق کے وقت سے لے کر 1800 کی دہائی کی ابتدائی دہائیوں تک مویشیوں کے لیے چراگاہ تھی۔ ’افادیت پسندانہ‘ تحفظ کی ابتدائی مثال کے طور پر، ضوابط نے زمین کو مویشیوں کی تعداد کو محدود کر کے زیادہ چرانے سے بچایا جس میں ہر خاندان اپنے مویشیوں کو چرا سکتا تھا۔“

یہ وہ جگہ ہے، جہاں آپ کی ملاقات بوسٹن کے رہائشی جم برننگ سے ہو سکتی ہے جو اکثر اپنے کتے موچا کے ساتھ یہاں موجود ہوتے ہیں۔ جم برننگ کا تعلق اصل میں نیویارک شہر سے ہے۔

جم برننگ کامن کے بارے میں کہتے ہیں ’’میرے خیال میں یہ بوسٹن کی شناخت کا حصہ ہے، جو اکثر عوامی احتجاج اور مظاہروں کا مقام ہوتا ہے۔ یہاں پر اسرائیل نواز مظاہرے ہو سکتے ہیں، فلسطینی حامی مظاہرے ہو سکتے ہیں، لہٰذا میرے خیال میں یہ کئی طریقوں سے اس ملک میں موجود مواقع کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ”ہم اس سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہم سب عوامی جگہ استعمال کرتے ہیں، لہٰذا یہ واقعی ایک عوامی مقام ہے۔“

1830 تک بوسٹن کامن نامی اس پارک میں محض گائیں چرتی تھیں۔ اس پارک سے سڑک کی دوسری جانب میساچوسٹس اسٹیٹ ہاؤس پارک ہے۔

1830 میں یہاں گائے کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا کیونکہ بوسٹن کامن تفریح کا مقام بن گیا۔ آج پچاس ایکڑ کے پارک میں پالتو جانور ہی کامنز ڈاگ پارک میں دوڑتے بھاگتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

بوسٹن کامن پارک کی دیکھ بھال کرنے والی ایک تنظیم فرینڈز آف دی پبلک گارڈن کا کہنا ہے کہ ایک سالانہ اندازے کے مطابق ستر لاکھ سیاح ہر سال پارک میں آتے ہیں

یوں سمجھئے کہ بوسٹن کامن دراصل بوسٹن میں شہری زندگی کا ایک مرکزی اسٹیج ہے۔ 1634 میں ایک پارک کے طور پر شروع ہونے کے بعد، یہ سینکڑوں سالوں سے شہری زندگی کا مرکزی اسٹیج رہا ہے

فرینڈز آف دی پبلک گارڈن کی صدر لِز وِزا کہتی ہیں ’’امریکہ کا یہ قدیم ترین پارک ایک ایسی جگہ ہے، جہاں ہم جشن منانے آتے ہیں، احتجاج کرنے آتے ہیں، ہم اکیلے بیٹھنے کے لئے آتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہم تہواروں اور تقریبات سے لطف اندوز ہونے بھی یہاں آتے ہیں۔‘‘

بوسٹن کامن اکتوبر 1965 ویت نام جنگ کے مخالف اور حامی مظاہروں کا مرکز بھی بنا رہا

جارج واشنگٹن ، جان ایڈمز، اور جنرل لافائیٹ نے اس جگہ پر امریکہ کی آزادی کا جشن منایا

کیٹلن روک اِس وقت بوسٹن کے کالج میں زیر تعلیم ہیں اور کچھ پیسے کمانے کے لئے ڈاگ واکر بھی ہیں، یہ پارک ان کا ایک محبوب مقام ہے، وہ کہتی ہیں: ’’میرے خیال میں یہ شہر کا ایک بڑا حصہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک لازمی حصہ ہے جہاں ہر کوئی آ سکتا ہے، آرام کر سکتا ہے اور ایک ساتھ مل کر شہر کا لطف اٹھا سکتا ہے۔ اس طرح سے آرام کرنا اور شہر کی ہلچل اور گہما گہمی سے دور ہونا اچھا لگتا ہے۔ پھر ہمارے پاس یہ خوبصورت یادگاریں بھی ہیں۔‘‘

بوسٹن کامن میں کئی اہم فن پارے بھی ہیں۔۔ یہاں ’’دی ایمبریس‘‘ کے نام سے ایک مجسمہ موجود ہے، جس میں شہری حقوق کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اپنی اہلیہ ریٹا اسکاٹ کنگ کو گلے لگا رہے ہیں

برروئر فاؤنٹین پارک میں جگہ پانے والا عوامی آرٹ کا پہلا نمونہ تھا۔ یہ اس اصل فاؤنٹین کی کانسی میں تیار کی گئی نقل ہے، جس نے 1855 کے پیرس ورلڈ فیئر میں سونے کا تمغہ جیتا تھا

آگسٹس سینٹ-گاڈنس شا/54 ویں رجمنٹ میموریل نام کا مجسمہ یونین آرمی میں پہلی آل رضاکار بلیک رجمنٹ کا اعزاز دینے والا مجسمہ ہے جو امریکی آرٹ کے بہترین نمونوں میں شمار ہوتا ہے۔

لیکن اب کامن پر موجود کچھ یادگاروں کے بارے میں بالآخر دوبارہ غور کیا جائے گا اور انہیں ممکنہ طور پر اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

یہاں ایک مجسمہ تھا، جس میں ابراہم لنکن کے قدموں میں ایک آزاد غلام کو گھٹنے ٹیکتے ہوئے دکھایا گیا ہے، بوسٹن میں، کارکنوں نے 29 دسمبر، 2020 کو، بوسٹن کامن کے بالکل قریب ایک پارک سے ہٹا دیا تھا

فرینڈز آف دی پبلک گارڈن کی صدر لِز ویزا کہتی ہیں: ”ہم یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم صرف ایک تخلیقی مداخلت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اسے نئے انداز سے دیکھیں اور صرف تاریخ کے بارے میں سمجھ، احترام اور آگاہی حاصل کریں۔‘‘

لِز ویزا جس تاریخ کا ذکر کر رہی ہیں، اس میں کامن کے پہلے مقامی نیٹوباشندے ’میساچوسٹ نیشن‘ شامل ہیں اور انہی کے نام کی مناسبت سے اسے کامن ویلتھ آف میساچوسٹس کہا جاتا ہے۔

امریکہ کے یہ قدیم آبائی باشندے غیر ملکی یورپی آبادکاروں کی اپنی سرزمین پر آمد سے ہزاروں سال پہلے سے یہاں آباد تھے اور ایک طویل عرصے تک نظر انداز کئے جانے کے بعد اب آہستہ آہستہ ان کی شناخت کو تسلیم کیا جارہا ہے۔

لِز ویزا کہتی ہیں ”لوگ اس سرزمین پر بارہ ہزار سال سے آباد ہیں۔ لہٰذا ہم نوآبادیاتی امریکہ کے بارے میں سوچنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے لیے ایک دلچسپ کہانی ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ کہانی یہ ہے کہ یہاں رہنے والے نیٹو امریکیوں (امریکہ کے آبائی باشندے) کے بارے میں سوچنے کے لیے تاریخ کی پرتوں کو کھولنا ضروری ہے۔ ‘‘

لز ویزا کی ٹیم یہاں کے آبائی قبائلی باشندوں کے ساتھ کام کر رہی ہے تاکہ کامن کے پہلے نگرانوں کو مناسب انداز میں خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔ انہیں امید ہے کہ 2026 میں جب امریکہ اپنی 250 ویں سالگرہ منائے گا تو اس وقت تک اس سلسلے میں کچھ بہتر کام مکمل ہو چکا ہوگا۔

یہ پارک امریکی شہروں میں بڑھتے ہوئے شہری علاقوں میں فطرت کو محفوظ رکھنے کے رجحان کی مثال دیتا ہے۔ آج زائرین یہاں بال فیلڈز، ٹاٹ لاٹ، اور فراگ پانڈ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جہاں سردیوں میں عوام سکیٹ کرتے ہیں اور گرمیوں میں بچے ہنستے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کامن میں دیگر اضافے میں ایک بڑا زیر زمین پارکنگ گیراج اور ٹینس کورٹ شامل ہیں۔ ان تبدیلیوں کے باوجود، کامن اب بھی بوسٹن کے لوگوں کے لیے اپنا اصل کام برقرار رکھتا ہے: ایک بھیڑ بھاڑ والے شہر میں ایک آرام دہ کھلی جگہ۔۔ بوسٹن کامن ان نو پارکوں میں سے ایک ہے جو ایمرالڈ نیکلیس کا حصہ ہیں، جو کہ گیارہ سو ایکڑ پر محیط پارکوں کا سلسلہ ہے جو پارک ویز سے منسلک ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close