عمران خان کا مضمون چھاپنے پر دی اکانومسٹ سے پوچھیں گے: حکومت

ویب ڈیسک

پاکستان کی نگران وفاقی حکومت نے برطانیہ سے چھپنے والے مایہ ناز ماہوار جریدے دی اکانومسٹ میں پابند سلاسل سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا مضمون چھاپنے پر جریدے کے ایڈیٹر سے رابطہ کرنے کا اعلان کیا ہے

نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے جمعے کی رات ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا: ’ یہ بات حیران کن اور پریشان کن ہے کہ ایسے معزز میڈیا نے ایک ایسے فرد کے نام سے مضمون شائع کیا جو جیل میں ہے اور اسے سزا ہو چکی ہے۔‘

وفاقی وزیر کے خیال میں ’اخلاقی معیارات‘ کو برقرار رکھنا اور ’ذمہ دارانہ صحافت‘ کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ ’ہم جاننا چاہیں گے کہ یہ ادارتی فیصلہ کیسے کیا گیا اور دی اکانومسٹ نے مواد کی قانونی حیثیت اور اعتبار کے حوالے سے کن باتوں کو مدنظر رکھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ نگران حکومت کو یہ جاننے میں بھی دلچسپی ہوگی کہ کیا دی اکانومسٹ میں دنیا کے کسی اور حصے سے بھی جیل میں بند سیاست دانوں کے ایسے ’بھوت مضامین‘ شائع ہوتے ہیں۔

’اگر جیل میں بند مجرم میڈیا کو لکھنے کے لیے آزاد ہوتے تو وہ اپنی یک طرفہ شکایات کو نشر کرنے کے لیے ہمیشہ اس موقع کا استعمال کرتے۔‘

یاد رہے کہ دی اکانومسٹ نے چار جنوری کو اپنی ویب سائٹ پر سابق وزیراعظم عمران خان کا ایک مضمون شائع کیا، جو رسالے سے پی ٹی آئی سربراہ سے درخواست کر کے لکھوایا تھا۔

عمران خان نے اس مضمون میں لکھا کہ موجودہ منظر نامے میں پاکستان میں انتخابات کروانا تباہی اور مذاق ثابت ہوں گے۔

برطانوی جریدے میں جمعرات کو شائع ہونے والے اس مضمون میں عمران خان نے ان الزامات کا اعادہ کیا کہ کس طرح امریکی حکومت کے دباؤ کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت تبدیل ہوئی، انہوں نے 9 مئی کے فسادات کو ’جھوٹا پروپیگنڈا‘ قرار دیا

اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات بالکل بھی نہیں ہو سکتے، آرٹیکل میں کہا گیا کہ اگر الیکشنز ہوتے بھی ہیں تو اس طرح کے ’انتخابات تباہ کن اور ایک مذاق ثابت ہوں گے کیونکہ پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے اس کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے‘۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ چاہے انتخابات ہوں یا نہ ہوں، مجھے اور میری پارٹی کو جس طرح سے نشانہ بنایا گیا ہے، اس سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، سیکیورٹی ایجنسیاں اور سول بیوروکریسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔

آرٹیکل میں، سابق وزیراعظم عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ’معیشت کو تباہ کر دیا، 18 ماہ کے اندر غیر معمولی افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی۔

انہوں نے ’قتل کی دو کوششوں‘ پارٹی رہنماؤں، کارکنان اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے اغوا، قید یا تشدد کا حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ’بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مجھے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس لیے مجھے سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے تمام طریقے استعمال کیے گئے۔

عمران خان نے لکھا کہ کچھ رہنماؤں کو دوسری نئی بننے والی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا، اور دیگر کو زبردستی میرے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لیے بنایا گیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان سب کے باوجود ان کی پارٹی مقبول ہے

بانی پی ٹی آئی نے نواز شریف کے بری ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے عدالتوں پر بھی ان الفاظ میں تنقید کی کہ ’ عدلیہ روزانہ ساکھ کھو رہی ہیں’۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کو یقین ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت وہ ان کی بریت کی حمایت اور آنے والے انتخابات میں اپنا وزن ان کے پیچھے ڈالے گا۔

عمران خان کا دی اکانومسٹ کا آرٹیکل جمعرات کو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، پی ٹی آئی کے بہت سے حامیوں نے اس مضمون کی تعریف کی، کچھ نے ترجمہ شدہ اردو ورژن شیئر کیا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان بین الاقوامی میڈیا پر لگاتار نظر آئے، لیکن قید کے بعد یہ سلسلہ رک گیا، کیونکہ بانی پی ٹی آئی تک رسائی ان کے وکلا اور خاندان کے افراد تک محدود ہو گئی۔

لیکن حالیہ مہینوں میں تحریک انصاف نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے غیر روایتی طریقے تلاش کیے ہیں، جیسا کہ حالیہ دنوں میں ورچوئل جلسہ کیا گیا، جس میں عمران خان کی آواز میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے تیار کردہ ایک خطاب چلایا گیا۔

عمران خان کے الفاظ حالیہ مہینوں میں دوسرے طریقوں سے بھی جیل سے باہر آئے، انہوں نے حال ہی میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھا، جس میں پارٹی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی درخواست کی گئی۔

یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو گذشتہ سال اگست میں گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں انہیں قید کی سزا دی گئی

اس وقت وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہیں۔

الیکشن کے لیے نہ صرف پی ٹی آئی کے بانی رہنما بلکہ جماعت کے بیشتر امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے ان کا انتخابی نشان بھی واپس لے لیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے شیڈول کے مطابق کاغذات نامزدگی کی وصولی کا عمل مکمل کرنے کے بعد اسکروٹنی کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے

جبکہ اپیل داخل کرانے کے لیے دفاتر آنے والے پی ٹی آئی امیدواروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے

دوسری جانب جمعے کی شام پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کو ملتوی کرنے کی قرارداد منظور کی ہے۔

قرارداد کی منظوری کے وقت سینیٹ میں صرف 14 سینیٹرز موجود تھے، جبکہ کسی نے بھی کورم کی کمی کی نشاندہی نہیں کی، جس کے باعث بغیر درکار اراکین کے ہی قرارداد منظور کر لی گئی۔

سینیٹ آف پاکستان کے حکام نے بتایا کہ قرارداد کی معلومات الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیجی جائیں گی، تاہم آئینی ماہرین کے خیال میں الیکشن کمیشن قرارداد پر عمل درآمد کا پابند نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود الیکشن کے التوا کی خبریں گردش کر رہی ہیں اور حالیہ قرارداد کے بعد ان میں مزید تیزی آئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close