
دنیا بھر میں بدلتے موسمیاتی حالات کے پیش نظر زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، مگر پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ حکمران زراعت کو مضبوط کرنے کے بجائے ایسی پالیسیاں بنا رہے ہیں جو اس کی تباہی کا سبب بن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زرعی زمینیں، جو خوراک کی پیداوار اور ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، تیزی سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ہر موقع پر فخر سے خود کو ”زرعی ملک“ کہتے ہیں، مگر عملی طور پر ہم اپنی زراعت کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود ہی بن چکے ہیں، ہم زراعت کو ”معیشت کی ریڑھ کی ہڈی“ کہتے ہیں لیکن اسی ریڑھ کی ہڈی پر وار کر کے معیشت کو اپاہج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باوجود کسانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں جو نہ صرف گندم کی پیداوار بلکہ ملک کی غذائی خودکفالت پر بھی سنگین اثرات ڈال سکتے ہیں۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ ایک طرف ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، اور دوسری طرف کسان اپنی محنت سے اگائی گئی سبزیوں کو مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ حالیہ دنوں میں گوبھی، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کے نرخ اتنے گر گئے کہ کسانوں کے لیے انہیں منڈی تک لے جانا بھی نقصان کا سودا بن گیا۔ زرعی پیداوار کی یہ بے قدری وقتی طور پر صارفین کو سستی سبزیوں کا اطمینان دے سکتی ہے، مگر ہم شاید نہیں سمجھ رہے کہ اس کا اصل نقصان آگے جا کر سامنے آئے گا۔ جب کسان نقصان اٹھا کر زراعت چھوڑنے پر مجبور ہوں گے، تو یہی سبزیاں نایاب ہو کر اس قدر مہنگی ہوں گی کہ جس کا اندازہ فی الوقت نہ ہمارے صارف کو ہے نہ حکمرانوں کو، مگر تب ان کی دستیابی بھی شاید یقینی نہ رہے۔ یہ صرف مارکیٹ کا مسئلہ نہیں، بلکہ زرعی پالیسیوں کی ناکامی کا ایک اور ثبوت ہے۔
ایسی ہی صورتحال کا سامنا گندم کی اہم فصل کو بھی ہے۔ جہلم کے مضافاتی علاقے سوہاوہ کے ایک تجربہ کار کاشتکار، راجہ تسلیم احمد کیانی، اس بار غیر یقینی موسمی حالات کے باعث شدید پریشان ہیں۔ ان کے 12 ایکڑ پر پھیلے کھیتوں میں گندم کی فصل ہمیشہ کی طرح لہلہاتی نظر نہیں آ رہی۔ مسلسل تین ماہ کی خشک سالی نے ان کی نصف سے زیادہ فصل کو جلا کر رکھ دیا ہے، اور اگر جلد بارشیں نہ ہوئیں تو باقی بچی کھچی فصل بھی دم توڑ دے گی۔
راجہ تسلیم احمد کیانی کا کہنا ہے، ”میں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسی بے بسی محسوس نہیں کی۔ زمین پیاسی ہے، گندم کے پودے سبز سے زرد ہو رہے ہیں اور خوشے مکمل بننے سے پہلے ہی سوکھ کر ٹوٹ رہے ہیں۔“
ماہرین اس تباہی کو موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، مگر کسانوں کو نہ تو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار کیا گیا، نہ ہی انہیں کوئی عملی حل فراہم کیا گیا۔ راجہ تسلیم احمد کیانی ان معدودے چند کسانوں میں سے ہیں، جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک چھوٹا سا ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا۔ یہی ان کی پانچ ایکڑ پر کھڑی فصل کے لیے زندگی کا سامان بن گیا، ورنہ باقی کھیتوں کی طرح یہاں بھی ویرانی ناچ رہی ہوتی۔
وہ حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر بارانی علاقوں کے کسانوں کو چھوٹے ڈیم بنانے کے لیے مدد فراہم کی جائے تو موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا متعلقہ ادارے اس ممکنہ بحران کی سنگینی کو محسوس کر رہے ہیں، یا پھر کسانوں کو اپنی قسمت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا؟
گندم کی پیداوار اور اعداد و شمار کی دھند میں چھپی حقیقت
پاکستان دنیا کے بڑے گندم پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے، مگر جب بات فی ہیکٹر پیداوار کی ہو تو ہم عالمی درجہ بندی میں بہت پیچھے ہیں۔ مجموعی پیداوار کے لحاظ سے ہمارا نمبر آٹھواں ہے، لیکن فی ہیکٹر پیداوار میں ہم 56 ویں نمبر پر کھڑے ہیں۔ یہ فرق ہماری زرعی پالیسیوں اور زمینی حقائق کے درمیان موجود خلا کو واضح کرتا ہے۔
اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو 1990 میں پاکستان نے 1.44 کروڑ ٹن گندم پیدا کی، جو 2011 میں ڈھائی کروڑ ٹن تک جا پہنچی، صرف 20 سال میں 75 فیصد کا حیرت انگیز اضافہ! مگر اس کے بعد کی دہائی میں یہ رفتار برقرار نہ رہ سکی، اور 2021 تک بمشکل 10 فیصد اضافے کے ساتھ پیداوار 2.8 کروڑ ٹن تک محدود رہی۔ ماہرین کے مطابق، اس سست روی کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں اور حکومت کی ناقص پالیسیاں ہیں، جو کسانوں کی محنت کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل رہی ہیں۔
پاکستان کی معیشت میں زرعی شعبہ 22.9 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور 37.4 فیصد لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے، مگر اس کے باوجود گندم کی طلب اور رسد میں ایک واضح خلا موجود ہے۔ ملک کی کل گندم کھپت 3.2 کروڑ ٹن کے لگ بھگ ہے، جبکہ پیداوار ڈھائی کروڑ سے 2.8 کروڑ ٹن کے درمیان رہتی ہے۔ نتیجتاً، اس کمی کو درآمدات کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے، اور اس سال یہ درآمدی بوجھ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
یہ صورتحال ایک اہم سوال پیدا کرتی ہے: کیا ہم اپنی زرخیز زمین اور محنتی کسانوں کے باوجود گندم کے معاملے میں خودکفیل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یا ہمیں ہمیشہ عالمی منڈیوں پر انحصار کرنا پڑے گا؟
خشک سالی: بارانی ہی نہیں، نہری زمینیں بھی خطرے میں
نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سینٹر (این اے آر سی) کے پرنسپل سائنٹیفک آفیسر اور ویٹ پروگرام لیڈر، ڈاکٹر مقصود احمد، نے ایک سنگین حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے: یہ صرف بارانی علاقوں کا مسئلہ نہیں، نہری زمینیں بھی شدید متاثر ہو رہی ہیں۔
ان کے مطابق، اسلام آباد میں آخری بار بارش چھ اکتوبر کو ہوئی تھی، اور اس کے بعد سے زمین پیاسی ہے۔ یہی صورتحال دیگر بارانی علاقوں کی بھی ہے، جہاں پانی کی کمی نے گندم کی فصل پر تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ 15 نومبر تک سب کچھ معمول کے مطابق تھا، مگر اس کے بعد بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے حالات تیزی سے بگڑنے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 70 فیصد گندم کی افزائش متاثر ہو چکی ہے۔
فصل کی افزائش رکنے کے بعد اس کی ذیلی شاخیں نہیں نکلیں، اور جو چند بچی کھچی شاخیں تھیں، وہ قبل از وقت سٹے نکال چکی ہیں، ایسے سٹوں میں دانے کم اور بے حد چھوٹے ہوں گے، جس کا مطلب پیداوار میں نمایاں کمی ہے۔ ڈاکٹر مقصود کے مطابق، یہ صرف بارانی زمینوں کی کہانی نہیں، بلکہ نہری علاقوں میں بھی درجہ حرارت میں اضافے کے سبب گندم کی پیداوار بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
پاکستان میں گندم کی کاشت کے مجموعی رقبے کا 20 سے 25 فیصد حصہ بارانی زمینوں پر مشتمل ہے، مگر مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ صرف 10 فیصد ہے۔ اس سال گندم کی کاشت پہلے ہی کم ہوئی ہے، جس کا اندازہ این اے آر سی کے بیجوں کی غیرمعمولی صورتحال سے لگایا جا سکتا ہے۔ ”پہلے ہمارے مصدقہ بیج لینے کے لیے کسانوں کی قطاریں لگی رہتی تھیں، سفارشیں آتی تھیں، مگر اس بار نہ کوئی قطار تھی، نہ کوئی دلچسپی۔ ہم نے کسانوں سے منتیں بھی کیں، یہاں تک کہ ٹرانسپورٹ کا خرچہ خود دینے کی پیشکش بھی کی، پھر بھی بیج بچ گئے اور فروخت نہ ہو سکے۔“
یہ صورت حال واضح کرتی ہے کہ ملک کو گندم کے ایک سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم اس خطرے کے لیے تیار ہیں؟
گندم کی کاشت میں کمی: پالیسی کی ناکامی یا قدرتی آفت؟
مرکزی کسان اتحاد کے صدر، میاں عمیر مسعود، کے مطابق پاکستان میں گندم کے کاشت کاروں کو پچھلے سال ایک ہزار ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، کیونکہ ان کی پیداوار کے خریدار ہی نہیں تھے۔ اس سال بارشوں کی کمی نے رہی سہی کسر پوری کر دی، بارانی علاقوں کی فصل تقریباً تباہ ہو چکی ہے، جبکہ میدانی علاقوں میں بھی صورتحال سنگین ہے۔
عمیر مسعود کا کہنا ہے کہ گندم کی کاشت پہلے ہی 30 فیصد کم ہو چکی تھی، اور اب اگر بارشوں کی غیرموجودگی کو بھی شامل کر لیا جائے تو پیداوار میں 50 فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ سرکاری افسران اصل حالات کو چھپانے میں مصروف ہیں۔ وہ حکومت کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ 98 فیصد ہدف حاصل کر لیا گیا ہے، اور اس کا ثبوت وہ یہ دے رہے ہیں کہ کھاد کی فروخت میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے! حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فیکٹریوں میں کھاد بے تحاشا موجود ہے، مگر خریدار ندارد!
کسان اتحاد کے مطابق، ”گندم کا شدید بحران دستک دے رہا ہے۔“ حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پاسکو (Pakistan Agricultural Storage & Services Corporation) کو تقریباً غیر مؤثر کر دیا ہے، جو اس سال گندم کی خریداری سے بھی پیچھے ہٹ چکا ہے۔ موجودہ ذخائر صرف 11 لاکھ ٹن ہیں، جو ملکی طلب کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔
عمیر مسعود خبردار کرتے ہیں کہ یہ صرف گندم کا بحران نہیں، بلکہ اس کے اثرات خریف کی فصلوں پر بھی پڑیں گے۔ کسان پچھلے سال کی پالیسیوں اور اس سال کے موسمی حالات کے باعث پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہیں، اور آئندہ فصلوں کے لیے ان کے پاس درکار وسائل ہی موجود نہیں ہوں گے۔
یہ سب کچھ واضح کرتا ہے کہ پاکستان میں زرعی بحران صرف کسانوں تک محدود نہیں رہے گا، یہ عام آدمی کی روٹی پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس ممکنہ بحران کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے گی، یا پھر محض سرکاری فائلوں میں سب اچھا کی رپورٹیں ہی گردش کرتی رہیں گی؟
کپاس کی صنعت بھی بحران کی زد میں
دیگر زرعی اجناس کی طرح مقامی کپاس کی صنعت کو بھی ایک سنگین بحران کا سامنا ہے، جہاں غیر موافق درآمدی پالیسیوں اور سخت موسمی حالات نے اس کی پیداوار کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال نے اس سال سفید لنٹ کی پیداوار میں نمایاں کمی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
حکومت کی درآمدی پالیسیوں نے ٹیکسٹائل ملوں کو مقامی طور پر کپاس اور یارن خریدنے کے بجائے درآمد کی طرف مائل کر دیا ہے۔ نتیجتاً، مقامی کپاس اور غیر جن شدہ پھٹی کی قیمتیں شدید گراوٹ کا شکار ہو چکی ہیں، جس نے کاشتکاروں اور جننگ فیکٹریوں کو سنگین مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔
درآمدی پالیسیوں کے علاوہ غیر متوقع موسمی حالات بھی کپاس کی کاشت کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔ فروری اور مارچ میں غیر متوقع بارشوں، اس کے بعد شدید گرمی کی لہروں اور پھر جولائی سے ستمبر کے دوران بارشوں نے بیجوں کے اگاؤ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بیج پھوٹنے کی شرح 30 سے 40 فیصد تک گر چکی ہے، جو مطلوبہ 70 سے 75 فیصد کے معیار سے کہیں کم ہے۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق کے مطابق پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا شکار ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔
پاکستان کی کپاس کی صنعت دوہری مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ ایک طرف غیر متوازن پالیسیوں نے کسانوں اور صنعتکاروں کو مالی بحران میں دھکیل دیا ہے، تو دوسری طرف بدلتے موسموں نے کاشت کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگر بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو اس کا نہ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر بلکہ پوری معیشت پر طویل مدتی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔