توہمات کی دنیا: لیپ ایئر سے جُڑی دلچسپ و عجیب روایات کی کہانی۔۔

ویب ڈیسک

ہر چار سال بعد ہم فروری کے مہینے میں ایک اور اذیت ناک دن کا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ سال ان میں سے ایک ہے۔ ہمیں سیزر کو مکمل طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہئے کیونکہ وہی ہے، جس نے کیلنڈر کو آسان بنانے اور کرہ ارض کے اس اضافی انقلاب کو پورا کرنے کے لئے یہ حکم متعارف کرایا تھا۔ اس حکم کے ساتھ مختلف توہمات بھی آتے ہیں جو آج تک زندہ ہیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود، انسانیت اب بھی توہمات اور شگون پر یقین رکھتی ہے۔ کچھ شام کو کچرا نہیں اٹھاتے، کچھ کالی بلیوں سے ڈرتے ہیں، اور پھر بھی کچھ کھڑکیوں پر پرندوں سے ڈرتے ہیں۔۔ لیکن ایک توہم پرستی ہے، جس پر زمانہ قدیم سے لوگ غیر مشروط یقین کرتے ہیں۔ یہی کہ لیپ سال بری قسمت لاتا ہے

اس سال ہمارے کیلینڈر میں ایک دن کا اضافہ ہوا ہے اور اب یہ لیپ ایئر کہلائے گا، یعنی وہ سال، جس میں 365 کی بجائے 366 دن ہوتے ہیں

لیپ ایئر کہلانے والے سال میں سب سے چھوٹے مہینے یعنی فروری کو ایک اضافی دن مل جاتا ہے اور 29 فروری کو لیپ ڈے کہا جاتا ہے۔ اس دن اور سال کے حوالے سے مختلف ثقافتی روایات اور توہمات پائے جاتے ہیں

عموماً لیپ ایئر ہر چار سال بعد آتا ہے۔ اس سے پہلے لیپ ایئر سال 2020 میں آیا تھا اور اس سے اگلا 2028 میں آئے گا۔

تاہم ایسا ضروری بھی نہیں اور اس بات کی وضاحت ہم آگے چل کر کریں گے او یہ بھی بتائیں گے کہ اس حوالے سے دنیا بھر میں کس قسم کے تصورات پائے جاتے ہیں۔

ہمارے کیلینڈر کے مطابق ایک سال میں 365 دن ہوتے ہیں کیونکہ یہ وہ وقت ہے، جو زمین کو سورج کے گرد مدار میں گھومنے کے لیے درکار ہوتا ہے تاہم 365 ایک راؤنڈ کیا گیا نمبر ہے۔

دراصل زمین کو سورج کے گرد مدار میں ایک چکر مکمل کرنے لیے 365.242190 دن درکار ہوتے ہیں۔

یہ 365 دن، پانچ گھنٹے، 48 منٹ اور 56 سیکنڈ بنتے ہیں۔ اسے سائڈیریل ایئر کہتے ہیں۔

سائیڈیریل سال عام سال سے تھوڑا زیادہ طویل ہوتا ہے، اس لیے اس میں سے اضافی گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ نکال دیے جاتے ہیں۔

تاہم ہر کچھ سال بعد ایک دن کا اضافہ کرنے سے ان اضافی گھنٹوں کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔

لیپ ایئرز کے ساتھ مختلف رواج اور توہمات موجود ہیں۔

بیچلرز ڈے، جسے لیڈیز پرویلیج بھی کہا جاتا ہے، ایک آئرش رواج ہے، جس کے تحت خواتین کو لیپ ڈے پر مردوں کو شادی کی پیشکش کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

ظاہر ہے کہ جدید دور میں تو خواتین سال کے کسی بھی دن کسی مرد کو شادی کی پیشکش کر سکتی ہیں، لیکن یہ رواج خاصا پرانا ہے اور اس کی بنیاد پانچویں صدی میں ملتی ہے۔ یہ سینٹ برجیٹ اور سینٹ پیٹرک سے منسوب کہانیوں سے مشہور ہوا۔

یہ گمان کیا جاتا ہے کہ برجیٹ، پیٹرک کے پاس یہ شکایت لے کر گئی تھیں کہ خواتین کو شادی کے لیے بہت زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ مرد عام طور پر یہ پیشکش کرنے میں دیر کر دیتے تھے۔ برجیٹ نے مطالبہ کیا کہ خواتین کو بھی موقع دیا جانا چاہیے۔

اگر خواتین کی جانب سے کی گئی شادی کی پیشکش رد کر دی جائے تو اس حوالے سے بھی رواج موجود ہیں۔ مرد کو اس خاتون کو دستانے یا ریشم کا گاؤن خرید کر دینا ہو گا۔

دوسری ثقافتوں میں لیپ ڈے کو بری قسمت سمجھا جاتا ہے۔

یونان میں لیپ ایئر کے دوران شادی کرنے سے اجتناب کرنے کا کہا جاتا تھا خاص طور پر لیپ ڈے پر کیونکہ اس بات کا خوف ہوتا تھا کہ یہ شادیاں طلاق کی صورت میں ختم ہوں گی۔

ثقافتی اعتبار سے یونانی لیپ ایئر میں شادی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جب ڈنمارک میں لیپ ایئر پر کوئی عورت کسی مرد کو پرپوز کرتی ہے اور وہ انکار کر دیتا ہے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ جرمانہ؟ اسے عورت کو 12 دستانے فراہم کرنے پڑتے ہیں

لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لیپ سال کے افسانوں میں اسکاٹس کی اجارہ داری ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں لوگ یہ مانتے تھے کہ لیپ ڈے اس وقت ہوتا ہے، جب چڑیلیں جمع ہو کر کچھ برا کرنے لگتی ہیں۔ کچھ اسکاٹس اب بھی 29 فروری کو بچے کی پیدائش کو بری قسمت سے تشبیہ دیتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ہم سب مرنے والے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ لیپ کا سال ہے، بلکہ اس حقیقت کی وجہ سے کہ یہ واحد منزل ہے جس کی طرف ہم سب جا رہے ہیں۔ لیکن اکثر لوگ اصل میں یقین رکھتے ہیں کہ لیپ سال اموات کی تعداد میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ ایک توہم پرستی یہ بھی ہے کہ طلاق یافتہ جوڑے جو لیپ سال کے دوران الگ ہو جاتے ہیں انہیں دوبارہ کبھی خوشی نہیں ملے گی۔

اس کے برعکس کچھ ثقافتوں میں اسے پیدائش کا خوش قسمت دن تصور کیا جاتا ہے۔

کچھ ماہرِ نجوم کا ماننا ہے کہ اگر آپ کی پیدائش لیپ ڈے پر ہو تو آپ میں انوکھی خصوصیات ہوتی ہیں۔

بنی نوع انسان طویل عرصے سے لیپ سال کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کی عادی ہے۔ توہمات کے مطابق، اس سال آپ کاریں نہیں خرید سکتے، اپنے معمول کے طرز زندگی کو تبدیل نہیں کر سکتے، شادی کے بندھن میں نہیں بندھ سکتے اور مشروم بھی نہیں لے سکتے۔ سادہ الفاظ میں، کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔ لیکن اگر آپ 1 سال تک بنی نوع انسان کی زندگی کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کریں گے تو ایک مہینے میں دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔

لیپ سال میں سب سے خطرناک 29 فروری ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن زمین 4 سالوں میں جمع تمام برائی اور بری توانائی کو باہر نکال دیتی ہے۔ یہی توانائی انسانی زندگی پر اپنے تمام حواس میں منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

29 فروری کو ہونے والے واقعے کی وضاحت میں توہم پرستوں کا ماننا ہے کہ سینٹ کاسیان اس دن پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہی تھا جس نے شیطان کو خدا کے منصوبوں کے بارے میں بتا کر خدا سے غداری کی۔ دوسروں کا استدلال ہے کہ کاسیان نے اس آدمی کے لیے بے عزتی اور نفرت کا مظاہرہ کیا، اس کے لباس کو داغ دینے سے ڈرتے ہوئے اسے مٹی سے گاڑی نکالنے میں مدد کرنے سے انکار کیا

اگر آپ سائنس کے نقطہ نظر سے جہالت کے سوال کو دیکھیں تو صرف یہی مشورہ ہے کہ دوسری دنیاوی پیشین گوئیوں پر یقین کو مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔. تاہم، ہر شخص کی روح میں ہمیشہ غیر معمولی، ناقابل بیان چیز کے لئے ایک جگہ موجود رہتی ہے. ایک اور سوال لیپ سال میں قسمت بتانا ہے۔ توہم پرستوں کے مطابق 366 دنوں تک ہر کوئی ناکامیوں اور پریشانیوں میں مبتلا رہتا ہے۔ اور جن دنوں قسمت بتانا عام طور پر سب سے زیادہ درست سمجھا جاتا ہے، بری روحیں نکل جاتی ہیں۔ اپنے آپ کو اس کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے، آپ کو کچھ ٹوٹکے استعمال کرنے کی ضرورت ہر زور دیا جاتا ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لیپ ڈے فروری میں کیوں ہوتا ہے؟ تو کہا جاتا ہے کہ قدیم روم میں بادشاہ جولیئس سیزر کی جانب سے لیپ ڈے کا اضافہ کرنے کے لیے فروری کے مہینے میں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ سیزر نے اس حوالے سے اصلاحات کرتے ہوئے جولین کیلینڈر رائج کیا تھا جس میں ایک لیپ ایئر بھی تھا تاکہ اسے شمسی سال کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جا سکے۔ جب 1582 میں جولین کیلینڈر تبدیل ہو کر گریگوریئن کیلینڈر بنا تو فروری میں لیپ ڈے کا اضافہ کیا جاتا رہا۔

اگر لیپ ایئر نہ ہوتے اور کیلنڈرز میں اضافی وقت کو نہ دیکھا جاتا تو موسموں کے آغاز اور اختتام کے اوقات میں بگاڑ پیدا ہو جاتا۔

مثال کے طور پر گذشتہ سات سو سال کے دوران قطب شمالی میں موسمِ گرما دسمبر کے مہینے میں آنے لگتا نہ کہ جون میں۔

اگر ہمارے کیلینڈز میں لیپ ایئرز نہ ہوتے تو قطب شمالی میں موسمِ سرما جون میں آتا جبکہ قطب جنوبی میں اس وقت موسمِ گرما ہوتا۔

زیادہ تر افراد کا ماننا ہے کہ لیپ ایئرز ہر چار سال بعد آتا ہے لیکن ایسا ہر مرتبہ ہی نہیں ہوتا۔۔

ضابطہ یہ ہے کہ ایک سال کو لیپ ایئر تب سمجھا جاتا ہے، جب اگر اسے چار پر تقسیم کیا جائے تو نتیجہ ہول نمبر آئے۔ (مثبت اعداد اور زیرو)

ان میں وہ سال شامل نہیں کیے جاتے، جنہیں 100 پر تقسیم کیا جا سکتا ہے، تاہم اگر ایک سال کو 400 پر تقسیم کا جائے اور نتیجہ ہول نمبر آئے تو اسے بھی لیپ ایئر ہی سمجھا جاتا ہے۔

یہ یقیناً پیچیدہ لگ رہا ہوگا، لیکن آئیے اسے مثالوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں: سال 2000 لیپ ایئر کیونکہ اسے چار اور چار سو پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

تاہم سال 1700، 1800 اور 1900 کو چار پر تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن چار سو پر نہیں اس لیے یہ لیپ ایئر نہیں۔

اگلی مرتبہ جب چار سال کے بعد کوئی لیپ ایئر نہیں ہو گا تو وہ سال 2100 ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close