امریکی انجینیئر تھامس ایڈیسن، ٹویوٹا موٹرز کا ’ایک چارج میں بارہ سو کلومیٹر‘ کا دعویٰ اور الیکٹرک گاڑیوں کا مستقبل

ویب ڈیسک

کیسا لگے گا اگر آپ کی الیکٹرک گاڑی (ای وی) میں ایسی بیٹری ہو، جو ریگولر بیٹری سے تقریباً دوگنا رینج دے اور چارج ہونے میں کم از کم وقت لے؟ اگرچہ اس کا جواب یقیناً گرمجوشی سے ’بہت ہی زبردست!‘ ہی ہو سکتا ہے،

جاپانی آٹو دیو ٹویوٹا موٹر سے توقع ہے کہ وہ اندرون ملک تیار کردہ سالڈ اسٹیٹ بیٹری کے ساتھ آئے گی، جو ممکنہ طور پر دنیا بھر میں ای وی کے کاروبار میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ یہ بیٹریاں بہت ہلکی، زیادہ سستی اور اعلیٰ کارکردگی پیش کرنے والی ہوں گی۔

جی ہاں، اگر آپ آٹو موبائل انڈسٹری کے حوالے سے خبروں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یقیناً آپ کو گذشتہ برس اکتوبر میں کار بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ٹویوٹا کی جانب سے کیا جانے والا یہ حیرت انگیر اعلان یاد ہوگا، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جلد ہی الیکٹرک کاروں کے لیے ایسی بیٹری بنانے کے قابل ہو جائے گی، جس کی مدد سے ای وی بارہ سو کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کر سکے گی۔۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بیٹری محض دس منٹ میں ری چارج ہو جائے گی!

ٹوکیو میں یہ اعلان کرتے ہوئے ٹویوٹا کمپنی کے سربراہ کوجی ساتو نے کہا تھا ”یہ نہ صرف الیکٹرک کاروں کی صنعت بلکہ آٹوموبائل انڈسٹری کے لیے بھی ایک انقلابی ایجاد ہے۔ یہ نئی بیٹری کار مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو ایک نئے مستقبل کی طرف لے جائے گی۔“

اس اعلان کے وقت ای وی ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس پیش رفت کو بڑی حیرت، خوشی اور توجہ سے سنا گیا اور اسے بہت سراہا بھی گیا، لیکن یہ سوال ہنوز اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا ٹویوٹا نے الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ سچ مچ حل کر دیا ہے؟

الیکٹرک کاروں کی تاریخ
آکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرو انسٹیٹیوٹ کے شعبۂ پائیدار توانائی و انجینئرنگ کے ڈائریکٹر پال شیئرنگ کہتے ہیں ”بیٹریوں پر چلنے والی کاریں اتنی نئی نہیں ہیں، جتنا عام لوگ سوچتے ہیں۔ نئی بات صرف یہ ہے کہ اب صارفین نے انہیں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔“

انہوں نے کیا ”ہم سب جانتے ہیں کہ 1879 میں امریکی انجینیئر تھامس ایڈیسن نے بجلی کا بلب ایجاد کیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں مشہور ہوئے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقریباً تیس سال بعد 1912 میں انہوں نے تین الیکٹرک کاریں بھی بنائی تھیں۔ اگر ان تینوں گاڑیوں کے پروٹوٹائپ یا نمونے صنعتی پیداوار کی سطح تک پہنچ چکے ہوتے تو شاید دنیا میں آٹوموبائل انڈسٹری کی شکل مختلف ہوتی، لیکن تھامس ایڈیسن کے دوست اور انجینئر ہنری فورڈ اس سے کئی سال پہلے اپنی بنائی گئی گاڑی بازار میں لائے اور بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کرنے کا منصوبہ بنایا“

ہنری فورڈ کی گاڑی چھوٹی تھی اور بجلی کی بیٹریوں پر نہیں بلکہ پیٹرول پر چلتی تھی۔ تاہم پیٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں کو اسٹارٹ کرنے کے لیے بیٹری کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن تیل کی فراہمی کے مسائل اور ماحولیاتی خدشات کی وجہ سے بیسویں صدی کے آخر میں گاڑیاں بنانے والوں نے پیٹرول اور ڈیزل کی بجائے الیکٹرک بیٹریوں پر چلنے والی گاڑیوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا

 تیزاب، لیڈ بیٹریاں اور سالڈ اسٹیٹ بیٹری

پال شیئرنگ کہتے ہیں ”گاڑیوں میں دو طرح کی بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں: ’تیزاب اور لیڈ بیٹریاں‘ کئی دہائیوں سے گاڑیوں کو اسٹارٹ کرنے اور ان کی لائٹس کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں، جبکہ گاڑی کو چلانے کے لیے ’لیتھیم آئن بیٹری‘ استعمال کی جاتی ہے۔ اب جدید الیکٹرک گاڑیوں کی موٹر لیتھیم آئن بیٹری سے چلتی ہے“

بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کی تیاری 1990ع کی دہائی میں شروع ہوئی۔ ٹویوٹا کی پہلی ہائبرڈ کار پریئس تھی، جو 1997 میں مارکیٹ میں آئی تھی، یعنی یہ کار پیٹرول اور بیٹری دونوں سے چل سکتی تھی

لیکن دس سال بعد پہلی الیکٹرک کار بنائی گئی، جو مکمل طور پر بیٹری پر چلتی تھی، تاہم اتنے سال گزرنے کے بعد بھی پیٹرول یا ڈیزل پر چلنے والی کاروں اور الیکٹرک کاروں کے درمیان مقابلے میں کوئی برابری نہیں ہے

پال شیئرنگ کہتے ہیں کہ پیٹرول میں توانائی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ بیٹری ٹیکنالوجی ابھی اس سطح تک نہیں پہنچی ہے۔ تاہم نئی گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کی کارکردگی کافی اچھی ہے۔ مثال کے طور پر، بیٹری سے چلنے والی گاڑی بہت جلد تیز رفتار تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے

بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں
لیتھیم آئن بیٹریوں پر چلنے والی گاڑیوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ ماحول کو کم نقصان پہنچاتی ہیں

لیکن پیٹرول یا ڈیزل پر چلنے والی گاڑیاں ٹینک بھر جانے پر لمبا فاصلہ طے کر سکتی ہیں جبکہ اسی فاصلے کو طے کرنے کے لیے لیتھیم بیٹریوں کو ایک سے زیادہ بار چارج کرنا پڑتا ہے

پال شیئرنگ کہتے ہیں ”لوگ چاہیں گے کہ بیٹری سے چلنے والی کار ایک بار چارج ہونے پر زیادہ دور تک جائے۔ بیٹری زیادہ دیر تک چلنی چاہیے اور اس کی قیمت کم ہونی چاہیے۔ یہ بھی توقع ہے کہ ان بیٹریوں کی تیاری میں ایسے مواد کا استعمال کیا جائے گا جو ماحول کو کم نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیٹری کا استعمال زیادہ محفوظ ہونا چاہیے“

ٹویوٹا کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی لیتھیم آئن بیٹریوں کے بجائے سالڈ سٹیٹ بیٹریوں کا استعمال شروع کر کے اس مسئلے کو حل کرنے جا رہا ہے۔ لیتھیم آئن بیٹریاں مائع الیکٹرولائٹ استعمال کرتی ہیں جبکہ سالڈ اسٹیٹ بیٹریاں سالڈ الیکٹرولائٹ استعمال کرتی ہیں، اس لیے ان کی پیداوار پیچیدہ اور مہنگی ہوتی ہے۔ کئی سالوں سے ٹویوٹا، اس کے حریف نسان، بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز بینز اس پر کام کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بہت سے فوائد ہیں

پال شیئرنگ بتاتے ہیں ”سالڈ اسٹیٹ بیٹریاں زیادہ توانائی رکھ سکتی ہیں، جس سے الیکٹرک کاریں ایک ہی چارج پر زیادہ دور تک جا سکتی ہیں“ یعنی اس کی رینج بڑھ جائے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انھیں کم وقت میں چارج کیا جا سکتا ہے، یعنی ان کی چارجنگ کے لیے قطار چھوٹی ہو گی۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے زیادہ محفوظ ہیں

پال شیئرنگ کا خیال ہے کہ یہ فوائد الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔

تاہم ابھی بھی ایک طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔

شکاگو یونیورسٹی میں مالیکیولر انجینئرنگ کے پروفیسر شرلی مینگ کا خیال ہے کہ سالڈ اسٹیٹ بیٹریوں کے استعمال سے کئی نئی راہیں کھلیں گی۔ ”توانائی کی زیادہ مقدار کو سالڈ اسٹیٹ بیٹریوں میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے گاڑی کی ڈرائیونگ رینج ایک ہی چارج پر دو سے تین گنا بڑھ جائے گی۔ اس کے استعمال سے یہ کار ایک ہی چارج پر ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کر سکے گی۔ یہ کوئی خواب نہیں ہے۔ یہ بہت سے سائنسدانوں اور ٹویوٹا جیسی کمپنیوں کا اندازہ ہے“

سالڈ اسٹیٹ بیٹری کا ایک اور فائدہ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ لیتھیم آئن بیٹریوں میں مائع الیکٹرولائٹ ہوتا ہے، جو بیٹری زیادہ گرم ہونے پر آگ لگنے کا باعث بن سکتا ہے۔ سالڈ اسٹیٹ بیٹریاں لتھیم بیٹریوں سے زیادہ گرمی برداشت کر سکتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں ٹھنڈا رکھنے کے لیے کم محنت درکار ہوتی ہے۔

شرلی مینگ کے مطابق ”مثال کے طور پر سالڈ اسٹیٹ بیٹریاں ستر، اسی یا سو سیلسیس کے درجہ حرارت میں بھی کام کر سکتی ہیں۔ یہ لیتھیم آئن بیٹریوں سے بالکل مختلف ہو گی۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ الیکٹرک کار کا تقریباً آدھا وزن لیتھیم بیٹری اور اسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال ہونے والا سامان ہوتا ہے“

شرلی مینگ کے مطابق لیتھیم آئن بیٹریاں بنانے کا عمل طویل اور پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے مزید کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں، سالڈ اسٹیٹ بیٹریاں بنانے کے لیے کم لوگوں کی ضرورت پڑے گی، جس سے وہ نسبتاً سستی ہو جائیں گی

اس کے ساتھ ساتھ لیتھیم آئن بیٹریوں میں استعمال ہونے والے زہریلے کیمیکلز کا استعمال سالڈ اسٹیٹ بیٹریوں میں نہیں ہوگا، جو کہ ماحول کے لیے اچھی بات ہے

ہنوز دلی دور است؟

ہونڈا موٹرز اگرچہ نئی سالڈ اسٹیٹ بیٹری کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہا ہے لیکن وہ اس بارے میں یہ نہیں بتا رہا کہ اس نے یہ کیسے ممکن بنایا

جیف لیکر پینتیس سال سے مشیگن یونیورسٹی میں انڈسٹریل انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں اور کتاب ‘دی ٹویوٹا وے’ کے مصنف بھی ہیں۔ یہ کتاب ٹویوٹا کمپنی کی پیداوار اور انتظامی اصولوں کی تاریخ بتاتی ہے۔

جیف لیکر کہتے ہیں ”جب اس طرح کے اعلانات کیے جاتے ہیں تو اکثر یہ توقع ہوتی ہے کہ یہ بیٹری فوری طور پر مارکیٹ میں آ جائے گی“

تاہم ٹویوٹا کا کہنا ہے کہ آنے والے پانچ سالوں میں وہ محدود مقدار میں ان کی تیاری کرنا شروع کرے گا۔ ابتدائی طور پر یہ بیٹریاں لیکسس جیسی مہنگی گاڑیوں میں استعمال کی جائیں گی، کیونکہ ان بیٹریوں کو بنانے کی لاگت نسبتاً زیادہ ہوگی۔ دوسری گاڑیوں میں اس کے استعمال میں دس سال لگ سکتے ہیں۔

سالڈ اسٹیٹ بیٹریوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار میں وقت لگے گا کیونکہ اس کے لیے نہ صرف بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی بلکہ مطلوبہ مواد کی بھی بڑی مقدار درکار ہو گی۔

مشکلات کیا ہیں؟

سالڈ اسٹیٹ بیٹریوں کو لیتھیم بیٹریوں کی طرح تمام معدنی مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت لیتھیم کی سالانہ پیداوار ایک لاکھ تیس ہزار ٹن کے لگ بھگ ہے۔

برٹش جیولوجیکل سروے کے معدنی مواد کے ماہر ڈاکٹر ای وی پیٹواراتزی کا کہنا ہے کہ کار انڈسٹری کی وجہ سے الیکٹرک بیٹریوں کی تیاری کے لیے درکار مواد کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔

وہ کہتے ہیں ”ایک اندازے کے مطابق بیٹریوں کے لیے درکار معدنیات کی مانگ سات سالوں میں پانچ گنا بڑھ جائے گی۔ ایسا ہدف جسے حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ نئی کانیں بنانے میں پندرہ سے بیس سال لگتے ہیں۔ یہاں طلب اور رسد میں توازن نہیں ہے“

دنیا میں موجودہ تناؤ کو دیکھتے ہوئے کار بیٹری بنانے والی کمپنیاں فیکٹری کے قریب جگہوں سے لیتھیم لانا چاہتی ہیں۔ زیادہ تر لتھیم چلی اور آسٹریلیا میں پیدا ہوتی ہے لیکن چین بیرون ملک کانیں خرید رہا ہے۔ یہ وہاں سے معدنیات لاتا ہے اور انہیں چین میں صاف کرتا ہے۔

درحقیقت دنیا میں سپلائی کی جانے والی آدھی سے زیادہ معدنیات چین میں صاف کی جاتی ہیں۔ یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ مغربی ممالک اس شعبے میں پیچھے ہیں۔

ڈاکٹر ای وی پیٹواراتزی نے کہا کہ چین نے لیتھیم انڈسٹری میں نجی اور سرکاری کمپنیوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی ہے اور انہیں رعایتیں دی ہیں جو کہ دوسرے ممالک میں نہیں کی جا رہیں۔ زیادہ تر پیداوار چین میں ہو رہی ہے اور دیگر ممالک سپلائی کے لیے چین پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ ریفائننگ فیکٹریاں چین سے باہر دیگر ممالک میں بھی لگائی جائیں۔

اب بہت سے مغربی ممالک گرین فیوچر کے لیے درکار مواد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

امریکہ نے چین کو فوجی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے جدید سیمی کنڈکٹر چپس کی فراہمی روک دی ہے۔ اس کے جواب میں چین نے بعض اہم معدنیات کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر کار کی بیٹریوں کی ری سائیکلنگ کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔

اس پر ڈاکٹر ای وی پیٹواراتزی نے کہا کہ ’لیتھیم بیٹریاں پہلے ہی استعمال کی جا رہی ہیں۔ جب لیتھیم بیٹری کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو اس کے پرزے اور مواد کو نئی بیٹری بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سمت میں کوششیں کی جانی چاہییں۔‘

تو اب واپس ہمارے بنیادی سوال کی طرف، کیا ٹویوٹا نے الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ حل کر دیا ہے؟ جواب ہے۔ ہاں، اس نے سالڈ اسٹیٹ بیٹری بنانے کی ٹیکنالوجی ڈھونڈ لی ہے۔

ان بیٹریوں پر چلنے والی گاڑی ایک بار چارج ہونے کے بعد زیادہ فاصلہ طے کر سکے گی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انھیں ٹویوٹا کی کچھ الیکٹرک گاڑیوں میں استعمال ہونے میں کم از کم چار سال مزید لگیں گے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں لیتھیم بھی استعمال ہوتا ہے، جس کی پیداوار ماحول کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں موجودہ کشیدگی کی وجہ سے اس کی سپلائی میں بھی رکاوٹیں ہیں۔

ساتھ ہی ایک اور بیٹری ٹیکنالوجی پر بھی کام جاری ہے، جس میں سوڈیم استعمال کیا گیا ہے جو آسانی سے دستیاب ہے۔ ٹویوٹا کے علاوہ دیگر کمپنیاں بھی سالڈ اسٹیٹ بیٹریاں بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔

پال شیئرنگ کا خیال ہے کہ اگر تمام کمپنیوں کے درمیان تعاون ہو تو کامیابی کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جائیں گے اور اس سے دنیا میں آلودگی کو کم کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close