قصہ دو شہر – 5

مشتاق احمد یوسفی

اور صاحب، مول گنج دیکھ کے تو کلیجا منھ کو آنے لگا۔ یہاں بازارِ حُسن ہوا کرتا تھا۔ آپ بھی دل میں کیا کہتے ہوں گے کہ عجیب آدمی ہے۔ ڈبل حاجی، ماتھے پر گٹا، مگر ہر قصے میں طوائف کو ضرور کانٹوں میں گھسیٹتا ہے۔ کیا کروں۔ ہماری نسل تو ترستی پھڑکتی ہی بوڑھی ہو گئی۔ اس زمانے میں طوائف ادب اور اعصاب پر بری طرح سوار تھی۔ کوئی جوانی اور کہانی اس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ رنڈی واحد پرائی عورت تھی، جسے نظر بھر کے دیکھ سکتے تھے۔ ورنہ ہر وہ عورت جس سے نکاح جائز ہو، منھ ڈھانکے رہتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ اب طوائفوں نے گرہستنوں کے سے شریفانہ لباس اور وضع قطع اپنا لی ہے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ نیک بختو، اسی چیز سے تو گھبرا کے دُکھیا تمہارے پاس آتے تھے۔ گرہستی، پاکیزگی اور یک رنگی سے اکتائے ہوئے لوگ اجنبی بدن سرائے میں رات برات بسرام کے لیے آ جاتے تھے۔ سو یہ آسرا بھی نہ رہا۔

تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ مُول گنج میں بازارِ حسن ہوا کرتا تھا۔ زمانے بھر کی دُر دُر ہش ہش کے بعد طوائفوں نے اب روٹی والی گلی میں پناہ لی ہے۔ بازار کاہے کو ہے۔ بس ایک گڑ ہے۔ یہاں سے وہاں تک۔ وہ جگہ بھی دیکھی، جہاں پچاس برس قبل میں اور میاں تجمل حسین دیوار کر طرف منھ کر کے سیخ سے اترتے کباب کھایا کرتے تھے۔ جیسے چٹخارے دار کباب طوائفوں کے محلے میں ملتے تھے، کہیں اور نہیں دیکھے۔ سوائے لکھنؤ کے مولوی محلے کے۔ گجرے بھی غضب کے ہوتے تھے۔ اور ہاں، آپ کے لیے اسلم روڈ کا ایک با کمال کبابیا ” ڈسکور ” کیا ہے۔ آپ کے لندن جانے سے پہلے بانگی پیش کروں گا۔ اور صاحب! کباب میں باہر کا اور پان ہمیشہ گھر کا کھایا۔ آپ نے کبھی طوائف کے ہاتھ کی گلوری کھائی ہے؟ مگر آپ تو کہتے ہیں کہ اپنے ختنوں پر مجرے کے بعد آپ نے رنڈی کا ناچ ہی نہیں دیکھا۔ اور برسوں اسی امپریشن میں رہے کہ مجرا دیکھنے سے پہلے ہر دفعہ اس مرحلے سے گزرنا ضروری ہے، رنڈی کے ہاتھ کا پان کبھی نہیں رچتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بڈھوں، بھڑ بھڑیوں اور شاعروں کو پان نہیں رچتا۔ مگر آپ ناچیز کے ہونٹ دیکھ رہے ہیں۔ آداب، میاں تجمل گھر جانے سے پہلے رگڑ رگڑ کے ہونٹ صاف کرتے اور کباب اور پیاز کے بھبکے کو دبانے کے لیے جنتان کی گولی چوستے۔ حاجی صاحب (ان کے والد) چنیوٹ سے تازہ ولایت تھے اور سیخ کے کباب اور پان کو یوپی کی عیاشیوں میں شمار کرتے تھے۔ کہتے تھے، برخوردار، تمہیں جو کچھ کرنا ہے میرے سامنے کرو۔ لیکن بالفرضِ محال ان کے سامنے یہ شغل کیا جاتا تو کلہاڑی سے سر پھاڑ دیتے، جو ان کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ وہ ایک عرصے سے بطورِ ورزش روزانہ بعد فجر دس سیر لکڑی پھاڑتے تھے۔ آندھی پانی ہو تو مردانہ بیٹھک میں دس دس سیر کے رنگین مگدر گھما لیتے۔ وہ چنیوٹ سے تلاش معاش کے لیے نکلے تو ان کے والد یعنی میاں تجمل کے دادا نے انہیں راہ راست سے بھٹکنے سے باز رکھنے کے لیے ایک ہزار دانہ (تسبیح)، ایک جوڑی مگدر، کلہاڑی اور بیوی زادِ سفر میں ساتھ کر دی۔ اور کچھ غلط نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان آلات سے شغل کرنے کے بعد بدی تو ایک طرف رہی، آدمی نیکی کرنے کے لائق بھی نہیں رہتا۔

مگر خدارا، آپ میری باتوں سے کچھ اور نہ سمجھ بیٹھیئے گا۔ بار بار طوائف اور کوٹھے کا ذکر آتا ہے۔ مگر ”تمام ہو گئیں حل مشکلات کوٹھے پر“ والا معاملہ نہیں۔ خدا گواہ ہے، بات کبھی پان اور کباب کھانے اور کوٹھے پر جانے والوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھنے سے آگے نہ بڑھی۔ کبھی کبھی میاں تجمل بڑی حسرت سے کہتے کہ یار، یہ لوگ کتنے لکی ہیں، ان کے بزرگ یا تو فوت ہو چکے ہیں یا نابینا ہیں۔

بات یہ ہے کہ وہ زمانہ اور تھا۔ نئی پود پر جوانی آتی تو بزرگ نسل دوانی ہو جاتی تھی۔ سارے شہر کے لوگ ایک دوسرے کے چال چلن پر پہرہ دینا اپنا فرض سمجھتے تھے:

ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا…

بزرگ قدم قدم پر ہماری ناقابلِ استعمال جوانی کی چوکیداری کرتے تھے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہماری لغزشوں اور غلطیوں کو پکڑنے کے لیے اپنا بڑھاپا چوکنے وکٹ کیپر کر طرح حالتِ رکوع میں گزار دیتے تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو ہم جوان کاہے کو ہوئے تھے۔

صاحب، اپنی تو ساری جوانی دوانی ڈنڈ پیلنے اور بھینس کا دودھ پینے میں ہی گزر گئی۔ اب اسے دوانہ پن نہیں تو اور کیا کہیں؟

کھلی آنکھوں سے گانا سننے والے

میرے والد، اللہ بخشے، تھیٹر اور گانے کے رسیا تھے۔ ایسے ویسے، جب موج میں ہوتے اور بیٹھک میں ہارمونیم بجاتے تو رستہ چلتے لوگ کھڑے ہو جاتے۔ بجاتے میں آنکھیں بند رکھتے۔ اس زمانے میں با ذوق سننے والے بھی گانا سنتے وقت آنکھیں بند ہی رکھتے تھے تا کہ توجہ صرف سُر پر مرکوز رہے۔ البتہ طوائف کا گانا کھلی آنکھوں سے سننا جائز تھا۔ استاد بندو خان کی طرح والد کے منھ سے کبھی کبھی بے اختیار گانے کا بول نکل جاتا، جو کانوں کو بھلا لگتا تھا۔ ویسے باقاعدہ گاتے بھی تھے۔ مگر صرف اس کے سامنے جو خود بھی گاتا ہو۔ یہ اس زمانے کے شرفا کا دستور تھا۔ شاہد احمد دہلوی بھی یہی کرتے تھے۔ آپ نے تو والد کا بالکل آخری زمانہ دیکھا، جب وہ صاحبِ فراش ہو چکے تھے۔ جوانی میں ہیرا بائی کے گانے کے دلدادہ تھے۔ دادر کنٹھیا تھی، یعنی دوسروں میں قیامت ڈھاتی تھی۔ بیشتر مجرئی، میرا مطلب ہے بیٹھ کر گاتی تھی۔ سو میل کے دائرے میں کہیں اس کا گانا ہو، وہ سارا کام دھندا چھوڑ کر پہنچ جاتے۔ اتفاقاً کسی محفل میں نہ پہنچ پائیں تو وہ خود بھی بے کیف سی رہتی۔ راجستھانی مانڈ اور بھیرو ٹھاٹھ صرف ان ہی کے لیے گاتی تھی۔ دھیوت اور رکھب سُروں کو لگاتے وقت ذرا تھم تھم کے انہیں جھلاتی تو ایک سماں باندھ دیتی۔ جیسی چونچال طبیعت پائی تھی، ویسی ہی گائیکی تھی۔ درباری گاتے گاتے کبھی چنچل سُر لگا دیتی تو ساری محفل پھڑک اٹھتی۔ آپ کو تو بخوبی علم ہے، والد گھر کے رئیس نہیں تھے.. عمارتی لکڑی کی چھوٹی سی دکان تھی، میری موجودہ دکان کی ایک چوتھائی سمجھیے۔ بس کام چلاؤ۔ لکڑ منڈی میں کسی کی دکان تین دن بند رہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ کسی قریبی رشتے دار کا انتقال ہو گیا ہے۔ چوتھے دن بند رہنے کا مطلب تھا کہ خود اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ لیکن والد صاحب کی دکان سات دن بھی بند رہے تو لوگ فکر مند نہیں ہوتے تھے۔ سمجھ جاتے کہ ہیرا بائی سے اپنے حسنِ سماعت کی داد لینے گئے ہیں۔ تاہم ان کے بندھے ہوئے گاہک لکڑی انھی سے خریدتے تھے۔ ہفتے ہفتے بھر واپسی کا انتظار کرتے۔ بلکہ آخر آخر تو یہ ہوا کہ تین چار گاہکوں کو بھی چاٹ لگا دی۔ وہ بھی ان کی اردلی میں ہیرا بائی کا گانا سننے جانے لگے۔ جب انہیں پوری طرح چسکا لگ گیا تو سواری کا انتظام، سہرا گانے پر بیل اور ہر اچھے شعر پر روپیہ دینے کے فرائض بھی انہیں ہی تفویض کر دیے۔ ہیرا بائی روپیہ اُن سے لیتی، سلام والد کو کرتی تھی۔ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ ان دکھیاروں کو موسیقی کی بھی کچھ سوجھ بوجھ پیدا ہوئی یا نہیں، لیکن آخر میں وہ لکڑی خریدنے کے لائق نہیں رہے تھے۔ ایک نے تو دوالا نکالنے کے بعد ہارمونیم مرمت کرنے کی دکان کھول لی۔ دوسرا اس لائق بھی نہ رہا۔ قرض خواہوں سے آبرو بچا کر بمبئی چلا گیا، جہاں بغیر ٹکٹ کے روز تھیٹر دیکھتا اور مختار بیگم اور ماسٹر نثار کا گانا سنتا تھا۔ مطلب یہ کہ تھیٹر میں پردہ کھنچنے کے آنریری فرائض انجام دینے لگا۔ دن میں تُرکی ٹوپی کے پھندنے بیچتا تھا۔ سنا ہے اس زمانے میں داؤد سیٹھ بھی بمبئی میں پھندنے بیچا کرتا تھا۔ حالانکہ اس نے تو ہیرا بائی کا گانا بھی نہیں سنا تھا۔

اور یہ جو آپ ٹھمری، دادرے اور خیال میں ناچیز کا ورک اور شغف دیکھ رہے ہیں، یہ باوا ہی کا فیضان ہے۔ ثریا ملتانیکر اور فریدہ خانم اب میری صورت پہچاننے لگی ہیں۔ مگر میاں تجمل کہتے ہیں کہ صورت سے نہیں، تمہارے سفید بالوں سے پہچانتی ہیں۔ ارے صاحب، گزشتہ سال جو ڈانس ٹروپ آیا تھا، اس کے شو میں خدا جھوٹ نہ بلوائے ہزار آدمی تو ہوں گے۔ میاں تجمل کا ٹکٹ بھی مجھی کو خریدنا پڑا۔ تیسرا حج کرنے کے بعد انہوں نے اپنے پیسے سے ناچ گانا اور سینما دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کہنے لگے ”اس جِمِ غفیر و پُر تقصیر میں ایک آدمی بھی تم جیسا نہیں۔“ میں نے شکریہ ادا کیا ”آداب“ ، بولے ”میرا مطلب ہے تمہاری طرح جھڑوس نہیں۔ ایک آدمی نہیں جس کے تمام بال اور بھویں تک تمہاری طرح سفید ہوں۔ بھائی میرے، یا تو انہیں کالے کر لو یا ڈانس مجرے سے توبہ کر لو۔“ میں نے کہا ”بھائی تجمل، رو سیاہی کے لیے تمہارے ساتھ اس کوچہ ملامت کا طواف میرے لیے کافی ہے۔ میں بیک وقت اپنا منھ اور بال کالے نہیں کرنا چاہتا۔“

کوئی نماز اور مجرا قضا نہیں کیا

ویسے آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ والد نیک طینت، پابند صوم و صلٰوۃ اور پاکباز آدمی تھے۔ بحمد للہ، ہم سب بھائی بہن پنج وقتہ نمازی ہیں۔ یہ بھی انہی کا فیضان ہے۔ انہوں نے کبھی کوئی نماز اور مجرا قضا نہیں کیا۔ 23۔1922ء کا ذکر ہے۔ جب ایک پارسی تھیٹریکل کمپنی پہلے پہل کانپور آئی تو ایک مہینے تک ایک ہی کھیل روزانہ، بلا ناغہ، اس طرح دیکھا گویا پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔ چند ہی روز میں تھیٹر والوں سے ایسے گھل مل گئے کہ ڈائیلاگ میں تین چار جگہ حسبِ منشا تبدیلی کرائی۔ ایک موقعے پر داغ کے بجائے استاد ذوق کی غزل راگ ایمن کلیان میں گوائی۔ بِبو کو سمجھایا کہ تم ڈائیلاگ کے دوران بیک وقت آنکھیں بھی مٹکاتی ہو اور کمر اور کولہے بھی، موقعے کی مناسبت سے تینوں میں سے صرف ایک مہلک ہتھیار کا انتخاب کر لیا کرو۔ دو مرتبہ ہیرو کو اسٹیج پر پہننے کے لیے اپنا صاف پاجامہ دیا۔ مینجر کو آگاہ کیا کہ تم نے جس شخص کو لیلیٰ کا باپ بنایا ہے، اس کی عمر مجنوں سے بھی کم ہے۔ مصنوعی داڑھی کی آڑ میں وہ لیلیٰ کو جس نظر سے دیکھتا ہے اسے پدرانہ شفقت ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ ایک دن پیٹی ماسٹر دردِ گردہ سے نڈھال ہو گیا تو ہمارے باوا ہارمونیم بجانے بیٹھ گئے۔ عطرِ حنا میں بسا ریشمی رومال سر پر ڈال لیا اور فرض کر لیا کہ کوئی نہیں پہچانے گا۔ سرخی مائل سپید رنگ، سپید چمکدار دانت، پتلے ہونٹ، کم ہنستے تھے، مگر جب ہنستے تو رخساروں پر سرخی اور آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگتے۔ ہر لباس ان پر پھبتا تھا۔ چنانچہ شیریں بات تو فرہاد سے کرتی، لیکن نظریں ہمارے باوا پر ہی جمائے رکھتی تھی۔

تھیٹر سے ان کا یہ شغف والدہ کو شاق گزرتا تھا۔ ہم بہن بھائی سیانے ہو گئے تو ایک دن والدہ نے ان سے کہا کہ ”اب تو یہ شوق چھوڑ دیجیئے۔ اولاد جوان ہو گئی ہے۔“ کہنے لگے ”بیگم، تم بھی کمال کرتی ہو، جوان وہ ہوئے ہیں اور نیک چلنی کی تلقین مجھے کر رہی ہو۔“

انہیں یہ شوق جنون کی حد تک تھا۔ آغا حشر کاشمیری کو شیکسپیئر سے بڑا ڈراما نگار سمجھتے تھے۔ اس موازنے میں دانستہ ڈنڈی مارنے یا تعصب کو ذرا دخل نہ تھا۔ انہوں نے سرے سے شیکسپیئر کو پڑھا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح ایک دفعہ اپنے دوست پنڈت سورج نرائن شاستری سے اس بات پر لڑ مرے کہ داغ دہلوی کالی داس سے بڑا شاعر ہے۔ دورانِ موازنہ، دلیل میں زور پیدا کرنے کے لیے انہوں نے کالی داس کو ایک ناقابل بیان گالی بھی دی، جس کا پنڈت جی پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ اور انہوں نے (پنڈت جی نے) نواب ساہل دہلوی جانشینِ داغ تک کو کالی داس سے بڑا تسلیم کرنے کے لیے از خود آمادگی ظاہر کی۔ جس دن آغا حشر کاشمیری کے انتقال کی خبر آئی تو والد کی جیبی گھڑی میں صبح کے دس بج رہے تھے۔ دکان پر خریداروں کا ہجوم تھا، مگر اسی وقت دکان میں تالا ڈال کے گھر آ گئے۔ دن بھر منھ اوندھے پڑے رہے۔ پنڈت جی پرسا دینے آئے تو چادر سے منھ نکال کے بار بار پوچھتے پنڈت جی مختار بیگم (جو آغا حشر کی منظور نظر مغنیہ تھیں) کا کیا بنے گا؟ پہاڑ سی جوانی کیسے کٹے گی؟ آخر کے تیئں پنڈت جی نے جواب دیا، خاں صاحب (وہ والد کو نہ جانے کیوں ہمیشہ خاں صاحب ہی کہتے تھے) ہر پہاڑ کو کوئی نہ کوئی تیشہ بردار فرہاد مل جاتا ہے۔ کلا کا سہاگ بھی کبھی اجڑا ہے؟ اس کی مانگ تو سدا سیندور اور ستاروں سے بھری رہے گی۔ والد جیسے ہی صبح گھر میں غم زدہ اور دل گرفتہ داخل ہوئے، برآمدے کی چقیں ڈال دیں اور والدہ سے کہا ”بیگم ہم لُٹ گئے.. آج گھر میں چولہا نہیں جلے گا۔“ سرِ شام ہی قلاقند کھا کے سو گئے۔

پنڈت جی موسیقی سے قطعاً نابلد تھے۔ لیکن بلا کے ادا شناس اور اتنے ہی غمگسار۔ دوسرے دن صبح تڑکے والد صاحب سے بھی زیادہ دل گرفتہ اور غم زدہ صورت بنائے، آہیں بھرتے آئے۔ شیو بھی بڑھا ہوا تھا۔ گھر سے حلوہ پوری اور کاشی پھل کی ترکاری بنوا کر لائے تھے۔ والد کو ناشتہ کروایا۔ ہمیں تو اندیشہ ہو چلا تھا کہ والد کے ڈر کے مارے پنڈت جی کہیں بھدرا (ہندو رسم کے مطابق قریبی عزیز کے کریا کرم کے بعد سر کے بال، بھویں، داڑھی اور مونچھ منڈانا) نہ کروا لیں۔

جاری ہے


  1. قصہ دو شہر – 1

  2. قصہ دو شہر – 2

  3. قصہ شہر دو – 3

  4. شہر دو قصہ – 4


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close