قصہ دو شہر – 7

مشتاق احمد یوسفی

روز اک تازہ سراپا نئی تفصیل کے ساتھ

پروفیسر قاضی عبدالقدوس، ایم اے، ہر صفحے پر اسٹرپ ٹیز کرتی ہوئی ان مخدراتِ عصمت کے تذکرے کو ہرزہ سرائی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہرزن سرائی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ آپ نے بہت اچھا کیا، اپنے پندرہ بیس ملکوں اور ایک ہزار صفحوں پر محیط سفر نامے کے نوٹ اپنے سرد خانے بلکہ مسترد خانے میں ڈال دیے۔ ارے صاحب، عجب ہوا چلی ہے۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدتے ہی، خواہ وہ دبئی اور سری لنکا ہی کا کیوں نہ ہو، ہر ادیب اپنے آپ کو ابنِ بطوطہ، اپنی تحریر کو مخطوطہ اور حسینوں سے اپنے خیالی مکالمے کو ”ملفوظہ“ سمجھنے لگتا ہے۔ مجھے آپ کی اس تجویز سے اتفاق ہے کہ جہاں حکومتِ پاکستان پاسپورٹ جاری کرنے سے پہلے یہ حلف نامہ لیتی ہے کہ درخواست دہندہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کاذب سمجھتا ہے، وہاں ادیبوں سے ایک اور حلف نامہ بلکہ مچلکہ لینا چاہیے کہ واپس آ کر سفر نامہ نہیں لکھیں گے اور خود پر بدچلنی کے الزام نہیں لگائیں گے۔

گوجرانوالہ، گوجرانوالہ ہے

سردار جی کرید کرید کے بڑے اشتیاق سے پوچھتے رہے اور میں بڑے وثوق سے گوجرانوالہ کا جھوٹا سچا حال سناتا رہا۔ انہوں نے آواز دے دے کے اپنے بیٹوں، پوتوں اور بہوؤں کو بلایا کہ ”ادھر آؤ۔ بشارت جی کو سلام کرو۔ یہ نومبر میں اپنے گوجرانوالہ ہو کے آئے ہیں۔“ ادھر میری یہ مصیبت کہ میں نے لاہور کے علاوہ پنجاب کا صرف ایک قصبہ یعنی ٹوبہ ٹیک سنگھ قریب سے دیکھا ہے۔ وہاں میرا ایک خورد، اکھن خالہ کا پوتا، ایگری کلچرل بینک میں تین مہینے کی ملازمت کے بعد گیارہ مہینے سے معطل پڑا تھا۔ بس اسی قصبے کے جغرافیے پر گوجرانوالہ کو قیاس کر کے ان کی تشنگی رفع کرتا رہا۔ حیرت اس پر ہوئی کہ سردار جی میری فرضی تفصیلات سے نہ صرف مطمئن ہوئے، بلکہ ایک ایک کی تصدیق کی۔ میں نے اس نہر کی موجودہ حالت کا بھی خیالی نقشہ کھینچ دیا جس میں سردار جی پُل پر سے چھلانگ لگا کے کنواری بھینسوں کے ساتھ تیرا کرتے تھے۔ میں نے ان کے ضمنی سوال کے جواب میں یہ بھی اقرار کیا کہ پُل کی دائیں طرف کنال کے ڈھلوان پر جس ”ٹاہلی تھلے“ وہ اپنی ہرکولیز سائیکل اور کپڑے اتار کر رکھتے تھے، وہ جگہ میں نے دیکھی ہے۔ یہاں سے ایک مرتبہ چور ان کے کپڑے اٹھا کے لے گیا، مگر سائیکل چھوڑ گیا۔ اس واقعے کے بعد سردار جی نے بہ نظر احتیاط سائیکل لانے چھوڑ دی۔ میں نے جب یہ ٹکڑا لگایا کہ وہ شیشم اب بالکل سوکھ گیا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ بوڑھے تنے پر نیلامی آرا چل جائے تو سردار جی پر رقت طاری ہو گئی۔ حالانکہ ان کا اپنا حال اس شیشم سے کچھ بہتر نہ تھا۔ ان کی منجھلی بہو نے جو بہت شوخ اور خوش شکل تھی مجھ سے کہا کہ ”بابو جی کو ابھی پچھلے مہینے ہی ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ آپ انہیں مت رلائیں، انکل۔“ اس کا انکل کہنا مجھے ذرا اچھا نہیں لگا۔ اور یہ تو مجھے آپ ہی سے معلوم ہوا کہ نہر میں بھینس نہیں تیر سکتی، خواہ وہ کنواری ہی کیوں نہ ہو۔

سردار جی میری کسی بات یا شوخ فقرے پر خوش ہوتے تو میرے زانو پر زور زور سے ہاتھ مارتے اور اندر سے لسی کا ایک گلاس اور منگوا کر پلاتے۔ تیسرے گلاس کے بعد میں نے ٹائلٹ کا پتا پوچھا۔ اپنے زانو کو ان کے دستِ ستائش کی زد سے بچایا اور گفتگو میں حد درجہ احتیاط برتنی شروع کر دی کہ کہیں بے دھیانی میں کوئی شگفتہ فقرہ منھ سے نہ نکل جائے۔ سردار جی کہنے لگے کہ ”ادھر اپنا ٹرانسپورٹ کا بڑا شاندار بزنس ہے۔ سارا ہندوستان گھوما ہوں۔ پر گوجرانوالہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہاں کی مکئی اور سرسوں کے ساگ میں وہ سواد وہ سگندھ نہیں۔ اور گُڑ تو بالکل پھیکا پھوک ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ یہاں کے پانی میں پانی بہت ہے۔ جب کے گوجرانوالہ کے پانی میں شراب کی تاثیر ہے۔ اس سے ان کی مراد تھی، پانی میں طاقت ہے۔ وہ ہر مفیدِ صحت چیز کر شراب سے تشبیہ دیتے تھے۔ رخصت ہوتے ہوئے میں نے کہا، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلاتکلف فرمائیے۔ بولے ”تو پھر کسی آتے جاتے کے ہاتھ لاہوری نمک کے تین چار بڑے سے ڈلے بھیج دینا۔“ ان کی تمنا تھی کہ مرنے سے پہلے ایک دفعہ اپنے بیٹوں، پوتوں کو ساتھ لے کر گوجرانوالہ جائیں اور اپنے مڈل اسکول کے سامنے کھڑے ہو کر فوٹو بنوائیں۔ تحفے میں مجھے انڈین raw سلک کا چھوٹا تھان دیا۔ چلنے لگا تو منجھلی بہو نے مجھے آداب کیا۔ اس دفعہ انکل نہیں کہا۔

اب بھی ہمارے آگے، یارو، جوان کیا ہے

میں نے اس کا دل خوش کرنے کے لیے کہا ”چاچا تم تو بالکل ویسے ہی ٹانٹھے رکھے ہو۔ کیا کھاتے ہو؟“ یہ سنتے ہی لاٹھی پھینک، سچ مچ سینہ تان کے، بلکہ پسلیاں تان کے کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا :

”صبح نہار منھ چار گلاس پانی پیتا ہوں۔ ایک فقیر کا ٹوٹکا ہے۔ کچھ دن ہوئے محلے والے میرے کنے (پاس) وفد بنا کے آئے۔ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگے۔ میرے سامنے بات کرنے کا ہیاؤ نہیں پڑ رہا تھا۔ میں نے کہا برخوردار، کچھ منھ سے پھوٹو۔ عرض اور غرض میں کاہے کی شرم۔ کہنے لگے، چاچا تم لاولد ہو۔ دوسری شادی کر لو۔ ابھی تمہارا تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ جس دوشیجا کی طرف بھی چشمِ آبرو سے اشارہ کر دو گے، کچے دھاگے میں بندھی چلی آوے گی۔ ہم بقلم خود پیام لے کے جائیں گے۔ میں بولا، پنچایت کا فیصلہ سر آنکھوں پہ، پر یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ سوچ کے جواب دوں گا۔ کس واسطے کہ میری ایک مستورات مر چکی ہے۔ یہ بھی مر گئی تو تاب نہیں لا سکوں گا۔ ذرا دل لگی دیکھو۔ ان میں کا ایک چرب زبان لونڈا بولا کہ چاچا، ایسا ہی ہے تو کسی پکی عمر کی سخت جان لگائی (عورت) کے ساتھ دو بول پڑھوا لو۔ بلقیس دو دفعہ رانڈ ہو چکی ہے۔ میں نے کہا ہشت،

”کیا خوب گھر کے پیروں کو تیل کا ملیدہ“

صاحب، ملیدے کے استعارے کو اب کون سمجھے گا۔ یوں کہیے کہ شکار مردہ سزاوارِ شہباز نہیں۔ میں نے چھیڑا ”چاچا اب بڑھاپے میں نئی روشنی کے بے کہی بیوی سے نباہ کرنا، اسے قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے۔“

بولا ”میاں، آپ نے وہ پرانی مثل نہیں سنی کہ ہزار لاٹھی ٹوٹی ہو، پھر بھی گھر بھر کے برتن باسن توڑنے کو بہت ہے۔“

یہ کہہ کر لاٹھی پہ سر ٹیک کے اتنے زور سے ہنسا کہ دمے کا دورہ پڑ گیا۔ دس منٹ تک کھو کھو گھس گھس کرتا رہا۔ مجھے تو ہول آنے لگا کہ سانس آئے گا بھی کہ نہیں۔

گوتم بدھ بطور پیپر ویٹ

ایک دن ملا عاصی سے طے پایا کہ اتوار کو لکھنؤ چلیں گے۔ اور وہ شہرِنگاراں دیکھیں گے، جس پر شامِ اودھ ختم ہوئی۔ لکھنؤ کے شیدائی اور ترجمانِ شیوا بیان مولانا عبد الحلیم شرر نے اودھ کے تمدن کا یہ باب ایک ڈوبتے سورج کی سرخی شفق سے رقم کیا ہے۔ میرا اصرار تھا کہ تم ساتھ چلو۔ چالیس برس بعد تنہا دیکھنے کا کس میں حوصلہ تھا۔ لوگوں نے ڈرا دیا تھا کہ زندگی اور زندہ دلی کا وہ مرقع جس پر ساری رونقیں، رعنائیاں اور رنگینیاں ختم تھیں، حضرت گنج، اب حسرت گنج دکھلائی دیتا ہے۔ صاحب لکھنؤ haunted (آسیب زدہ) شہر ہو یا نہ ہو، اپنا تو ہائنٹڈ ذہن ہئی ہے۔ مجھے تو ایک صاحب نے یہ کہہ کر بھی دہلا دیا کہ تمہیں چار باغ ریلوے اسٹیشن کا نام اب صرف ہندی میں لکھا نظر آئے گا۔ سارا لکھنؤ چھان مارو، کہیں اردو میں سائن بورڈ نظر نہیں آئے گا۔ البتہ قبروں کے کتبے اب بھی نہایت خوشخط اردو میں لکھے جاتے ہیں۔ ایسا پاکیزہ خط اور ایسے موتی پرونے والے خطاط تمہیں ڈھونڈے سے پاکستان میں نہیں ملیں گے۔ میں مہمان تھا۔ چپکا ہو رہا۔ دو دن قبل ایک دلی والے سے سیدھے سبھاؤ کہیں یہ کہہ دیا کہ دلی کی نہاری اور گولے کے کباب دلی کی بسبت کراچی میں بہتر ہوتے ہیں۔ ارے صاحب وہ تو سر ہو گئے۔ میں نے کان پکڑے۔

عاصی وقتِ مقررہ پر نہیں آئے۔ پہلے تو غصہ آیا۔ پھر تشویش ہونے لگی۔ رکشا پکڑی اور ان کے حجرہ دلکشا گیا۔ دری پر بوسیدہ کاغذات، فائلیں اور تیس برس کے سیکڑوں بل اور رسیدیں پھیلائے، ان کے بیچوں بیچ اکڑوں بیٹھے تھے۔ مینڈک کی طرح پھدک پھدک کر مطلوبہ کاغذ تک پہنچے تھے۔ جس کاغذ کا بعد میں بغور معائنہ کرنا ہو، اس پر بدھ کی مورتی رکھ دیتے۔ تین بدھ تھے ان کے پاس، آنکھیں موندے ہولے ہولے مسکراتا ہوا بدھ، بیوی کو سوتا چھوڑ کر گھر سے جاتا ہوا جوان بدھ، مہینوں کے مسلسل فاقے ہڈیوں کا پنجر بدھ۔ ان تینوں بدھوں کو وہ اس وقت پیپر ویٹ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ میں تیز تیز چل کے آیا تھا۔ پسینے میں شرابور، ململ کا کُرتا پیاز کی جھلی کی طرح چپک گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے پنکھا آن کیا تو سوئچ کے شاک سے پچھاڑ کھا کے فرش پر گرا۔ خیر، صاحب، اسے آن کرنا تھا کہ کمرے میں آندھی آ گئی اور سیکڑوں پتنگیں اُڑنے لگیں۔ یہاں تک کہ ہم ایک دوسرے کو نظر آنے بند ہو گئے۔ ان کا تیس سالہ فائلنگ سسٹم محوِ پرواز تھا۔ انہوں نے لپک کر لکڑی کی کھڑاویں پہنیں اور پنکھا بند کیا۔ چالیس پچاس سال پرانا پیتل کا سوئچ شاک مارتا ہے۔ آن اور آف کرنے سے پہلے کھڑاؤں نہ پہنو تو موت واقع ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ پھر انہوں نے دوڑ دوڑ کر اپنا دفترِ لخت لخت اس طرح جمع کیا جس طرح لونڈے پتنگ لوٹتے ہیں۔ کہنے لگے، بھائی معاف کرنا۔ آج لکھنؤ ساتھ نہ جا سکوں گا۔ ایک ناگہانی الجھیڑے میں پھنس گیا ہوں۔

مُرغا بننے کی فضیلت

صاحب، وہ الجھیڑا یہ تھا کہ نگر پالیکا (بلدیہ) نے پانی کا جو بِل انہیں کل بھیجا تھا، اس میں ان کے والد کا نام اعجاز حسین کے بجائے اعجاز علی لکھا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے یہ ”سہوِ کتابت“ نوٹس نہیں کیا تھا۔ اب وہ گزشتہ تیس سال کے تمام بل چیک کر رہے تھے کہ اس غلطی کی شروعات کب ہوئی۔ کسی اور محکمے کے بل یا سرکاری مراسلے میں یہ سہو ولدیت ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو کیوں ہے؟ اور نہیں ہے تو کیوں نہیں؟ ایک تحقیق طلب مسئلہ یہ بھی کھڑا ہوا کہ پانی کے محکمے کو ولدیت سے کیا سروکار۔ اسی کی ایک شق یہ نکلی کہ آیا اوروں کے بلوں میں بھی متعلقہ والد کی نشان دہی کی جاتی ہے یا نہیں۔ میں نے کہا، مولانا، بل پے کیجیئے اور خاک ڈالیے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بولے فرق کی بھی ایک ہی کہی۔ اگر باپ کے نام سے بھی فرق نہیں پڑتا تو پھر دنیا کی کسی بھی چیز سے نہیں پڑے گا۔ پانچویں کلاس میں، میں نے ایک دفعہ شاہجہاں کے باپ کا نام ہمایوں بتا دیا تو ماسٹر فاخر حسین نے مُرغا بنا دیا تھا۔ وہ سمجھے میں مذاق کر رہا ہوں۔ یہ غلطی نہ بھی کرتا تو کسی اور بات پر مُرغا بنا دیتے۔ اپنا تو طالبِ علمی کا سارا زمانہ اسی پوز میں گزرا۔ بنچ پر آنا تو اس وقت نصیب ہوتا تھا جب ماسٹر کہتا کہ اب بنچ پر کھڑے ہو جاؤ۔ اب بھی کبھی طالبِ علمی کے زمانے کے خواب آتے ہیں تو یا تو خود کو مُرغا بنا دیکھتا ہوں یا وہ اخبار پڑھتا ہوا دیکھتا ہوں، جس میں میرا رول نمبر نہیں ہوتا تھا۔ مسٹر دوارکا داس چتر ویدی، ڈائرکٹر آف ایجوکیشن حال میں یورپ اور امریکا کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ سنا ہے انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک نے مُرغا بنانے کا پوز ڈسکور ہی نہیں کیا۔ میں نے تو عاجز آ کر ترکی ٹوپی اوڑھنی چھوڑ دی تھی۔ مُرغا بنتا تو اس کا پھندنا آنکھوں سے ایک انچ کے فاصلے پر تمام وقت پنڈولم کی طرح جھولتا رہتا تھا۔ دائیں بائیں۔ پیریڈ کے آخر میں ٹانگیں بری طرح کانپنے لگتیں تو پھندنا آگے پیچھے جھولنے لگتا۔ اس میں ترکوں کی توہین کا پہلو بھی نکلتا تھا، جسے میری غیرتِ قومی نے گوارا نہ کیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں نے کسی بھی قسم کی ٹوپی نہیں اوڑھی۔

میں نے فقرہ کسا، مہاتما بدھ بھی تو ننگے سر رہتے تھے۔ انہوں نے فقرہ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کبھی غور کیا، جب سے لڑکوں کو مُرغا بنانا بند ہوا ہے، تعلیمی اور اخلاقی معیار گر گیا ہے۔ ویسے تو میں اپنے شاگردوں کی ہر نالائقی برداشت کر لیتا ہوں، لیکن غلط تلفظ پر آج بھی کھٹ سے مُرغا بنا دیتا ہوں۔ جسم سے چپکی ہوئی جینز پہننے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اس سے فارسی الفاظ کے تلفظ، آبدست اور مُرغا بننے میں دقت ہوتی ہے۔ مگر آج کل کے لونڈوں کی ٹانگیں پانچ منٹ میں ہی ناطاقتی سے لڑکھڑانے لگتی ہیں۔ میں اپنے زمانے کے ایسے لڑکوں کو جانتا ہوں، جو بیس بیس بید کھانے پر ”سی“ تک نہیں کہتے تھے۔ ایک تو ایس پی ہو کے ریٹائر ہوا۔ دوسرا دیہات سُدھار کے محکمے میں ڈائریکٹر ہو گیا تھا۔ اب ویسے شرارتی اور جی دار لڑکے کہاں، دراصل اس زمانے میں کیریکٹر بہت مضبوط ہوا کرتا تھا۔ بس یوں سمجھو کہ جیسے کیمیا بنانے میں ایک آنچ کی کسر رہ جاتی تھی، اسی طرح آج کل کی تعلیم میں ایک بید کی کسر رہ جاتی ہے۔

ایک کٹورہ چاندی کا

اس دن سخت گرمی تھی۔ کوئی نصف صدی بعد ناریل کے ڈونگے سے پانی نکال کر اسی نقشین کٹورے سے پیا۔ اندر سورۃ یاسین کندہ ہے۔ خالص چاندی کا ہے۔ آپ نے کٹورا سی آنکھ کا محاورہ سنا ہے؟ حضور میں نے دیکھی ہے۔ تو شام کو جب ہم فٹ بال کھیل کر لوٹتے تو اس پتلے کنارے کو ہونٹوں کے بیچ میں لیتے ہی لگتا تھا کہ ٹھنڈک رگ رگ میں اُتر رہی ہے۔ اسی کٹورے میں شہد گھول کے مُلا عاصی کو پیدا ہوتے ہی ماں کے دودھ سے پہلے چٹایا گیا۔ اسی کٹورے سے نزع کے وقت ان کے دادا اور والد کے منھ میں آبِ زم زم چوایا گیا تھا۔ اب بھی آئے دن لوگ مانگ کے لے جاتے ہیں اور بیمار کو آبِ شفا پلاتے ہیں۔ میں نے پینے کو تو کٹورے سے پانی پی لیا۔ مگر عجیب لگا۔ کھدے ہوئے حروف میں کالا سیاہ میل جما ہوا تھا۔

صاحب، سچی بات یہ کہ پانی تو آج بھی اتنا ہی ٹھنڈا ہے۔ کٹورا بھی وہی ہے۔ پینے والا بھی وہی۔ پر وہ پہلی سی پیاس کہاں سے لائیں۔

یوں تو گھر میں ایک مراد آبادی گلاس بھی ہے۔ انہی کا ہم عمر ہوگا۔ پہلی مرتبہ ان سے ملنے گیا تو ایک شاگرد کو دوڑایا۔ وہ کہیں سے ایک پڑیا میں شکر مانگ کر لایا۔ انہوں نے اسی گلاس میں الٹی پنسل سے گھول کر شربت پلایا۔ میں تو شکر کے شربت کا مزہ بھی بھول چکا تھا۔ ہمارے بچپن میں اکثر اسی سے مہمان کی تواضع ہوتی تھی۔ سوڈے اور جنجر کی بوتل تو صرف بد ہضمی اور ہندو مسلم فساد میں استعمال کی جاتی تھی۔

شیر (شاہ) لوہے کے جال میں ہے

دیکھیئے، میں کہاں آ نکلا۔ بات بلوں سے شروع ہوئی تھی۔ جب انہوں نے اپنا دفتر پریشاں سمیٹ لیا تو میں نے پھر پنکھا آن کرنا چاہا، مگر انہوں نے روک دیا۔ کہنے لگے معاف کرنا۔ شیر شاہ علیل ہے۔ پنکھے سے بخار اور تیز ہو جائے گا۔ میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اس نام کا، بلکہ کسی بھی نام کا، کوئی بیمار نظر نہ آیا۔ اور نظر آتا بھی کیسے۔ شیرشاہ دراصل اس بیمار کبوتر کا نام تھا جو کونے میں ایک جالی دار نعمت خانے میں بند تھا۔ ایسے نعمت خانے، جنہیں لوگ گنجینے بھی کہتے تھے، اس زمانے میں ریفریجریٹر کی جگہ استعمال کیے جاتے تھے۔ حدودِ اربع بھی کم و بیش وہی۔ لکڑی کے دو تین منزلہ فریم پر چاروں طرف لوہے کی مہین جالی منڈھی رہتی تھی۔ جس کا ضمنی مصرف ہوا پہنچانا، لیکن اصل مقصد مکھیوں، بلیوں، چوہوں اور بچوں کو کھانے سے محروم رکھنا تھا۔ اس کے پایوں تلے بالعموم پانی سے لبریز چار پیالیاں رکھی ہوتی تھیں۔ جن میں ان چٹوری چیونٹیوں کی لاشیں تیرتی رہتی تھیں، جو جان پر کھیل کے، یہ خندق پار کر کے ممنوعہ لذائذ تک پہنچنا چاہتی تھیں۔ یہ نعمت خانے ڈیپ فریزر اور ریفریجیریٹر سے اس لحاظ سے بہتر تھے کہ ان میں رکھا ہوا بد مزہ کھانا نو دس گھنٹے بعد ہی سڑ جاتا تھا۔ اسے روز نکال نکال کے ہفتوں نہیں کھلایا جاتا تھا۔ ایسے نعمت خانے اس زمانے میں ہر متمول گھرانے میں ہوتے تھے۔ نچلے متوسط طبقے میں چھینکا استعمال ہوتا تھا۔ جب کہ غریب غربا کے ہاں روٹی کی اسٹوریج کے لیے آج بھی محفوظ ترین جگہ پیٹ ہی ہوتی ہے۔

مذکورہ بالا نعمت خانہ 1953ء سے ملا عاصی کے بیمار کبوتروں کا Intensive Care Unit ہے۔ اس دن لکھنؤ نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بیمار کبوتر کو اکیلا چھوڑ کر سیر سپاٹے کے لیے جانا نہیں چاہتے تھے۔ ایک کبوتری نورجہاں اچانک مر گئی تو دس بارہ دن گھر سے نہیں نکلے۔ کیوں کہ اس کے بچے بہت چھوٹے اور بالکل گاؤدی تھے۔ انہیں سیتے رہے۔ دروپدی نام کی ایک انارا (سرخ آنکھوں والی) کبوتری کی چونچ ٹوٹ گئی۔ اسے مہینوں اپنے ہاتھ سے چوگا کھلایا۔ انہوں نے ہر کبوتر کا ایک نام رکھ چھوڑا ہے۔ اس وقت ایک لقہ کبوتر رنجیت سنگھ نامی دروازے کے سامنے سینہ اور دُم پھیلائے دوسرے فرقے کی کبوتریوں کے گرد اس طرح چکر لگا رہا تھا کہ اگر وہ انسان ہوتا تو فرقہ وارانہ فساد میں کبھی کا مارا جا چکا ہوتا۔ نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں ”شمار“ ہوتا۔

کبوتروں کی چھتری

کبوتر بازی ان کا بہت پرانا شوق ہے۔ ان کے والد کو بھی تھا۔ میرے والد بھی پالتے تھے۔ کبوتر کی فضیلت کے تو آپ کے مرزا عبدالودود بیگ بھی قائل ہیں۔ سچے شوق اور ہابی کی پہچان یہ ہے کہ بالکل فضول اور بے مصرف ہو۔ جانور کو انسان کسی نہ کسی فائدے اور خود غرضی کے تحت پالتا ہے۔ مثلاً کتا وہ دکھیارے پالتے ہیں جو مصاحب اور درباری افورڈ نہیں کر سکتے۔ بعض لوگ کتا اس مغالطے میں پال لیتے ہیں کہ اس میں برادرِ خورد کی خوبیاں ہوں گی۔ بکری اس غرض سے پالتے ہیں کہ اس کی مینگنی میں دودھ ملا کر جواباً اردو نقادوں کو پلائیں گے۔ ہاتھی زیادہ تر معتوب اُمرا پالتے تھے جنہیں بادشاہ سزا کے طور پر ہاتھ مع ہودہ نقرئی بخش دیتا تھا کہ جاؤ اب تمام عمر اسے کھلاتے ٹھساتے رہو۔ طوطے کو بڑے ارمانوں سے پالتے ہیں کہ بڑا ہو کر کے اپنی بولی بھول جائے گا اور ساری عمر ہمارا سکھایا ہوا بول دہراتا رہے گا۔ مولوی صاحبان مُرغے کی اذان فقط مُرغی کے لالچ میں برداشت کر لیتے ہیں۔ اور 1963ء میں آپ نے بندر محض اس لیے پالا تھا کہ اس کا نام ”ڈارون“ رکھ سکیں۔ لیکن صاحب کبوتر کو صرف اس لیے پالا جاتا ہے کہ کہ کبوتر ہے اور بس۔ لیکن مُلا عاصی کے ایک پڑوسی سعد اللہ خان آشفتہ نے قسم کھا کر کہا کہ ایک دن کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی۔ میں صبح چھ بجے گرم کشمیری چائے کی ایک چینک لے کر ان کے ہاں گیا۔ دیکھا کہ کمرہ یخ ہو رہا ہے اور وہ گرمائی کے لیے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک کبوتر دبائے بودھی ستو کی مورتی کے سامنے دھیان میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ غلو و غیبت بر گردنِ راوی۔

ایک صحبت میں کبوتروں کا ذکر چھڑ گیا تو کہنے لگے، میں نے سنا ہے، گو کہ یقین نہیں آتا، کہ کراچی میں کبوتروں کی ایک بھی چھتری نہیں۔ یارو، تم نے کیسا شہر بنایا ہے ؟ جس آسمان پر کبوتر، شفق، پتنگ اور ستارے نہ ہوں ایسے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کے دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ بھائی ابرار حسین دسمبر 1973ء میں کراچی میں تھے۔ دو مہینے رہے ہوں گے۔ مطلع مستقل ابر آلود رہا۔ صرف ایک دن دوربین کی مدد سے ایک ستارہ نظر آیا۔ وہ دمدار ستارہ تھا۔ کہہ رہے تھے کراچی میں لوگ ہم لکھنؤ والوں کی طرح پتنگ، تیتر، مرغ اور مینڈھے نہیں لڑاتے۔ خود لڑ لیتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس محلے میں بھی اب نہ کوئی پتنگ اُڑاتا ہے، نہ کبوتر۔ لے دے کے یہی ایک چھتری رہ گئی ہے۔ لکھنؤ کا حال اس سے بھی ابتر ہے۔ اور ایک وہ زمانہ تھا کہ تمہارے جانے کے بعد دسمبر میں علیم الدین نے۔ بھئی وہی اپنا شیخ چلی لڈن۔ پاکستان جانے کے لیے بوریا بستر باندھ لیا تھا، مگر عین وقت پر ارادہ فسخ کر دیا۔ کس واسطے کہ ماسٹر عبدالشکور بی اے، بی ٹی نے اسے ڈرا دیا کہ تم ٹرین میں کبوتروں کی چھتری ہمراہ نہیں لے جا سکتے۔ اور چوری چھپے لے بھی گئے تو واہگہ سرحد پر پاکستان کسٹم والے نہ جانے کیا سمجھیں کے تمہیں دھر لیں۔ بھائی بشارت، تم تو ہجرت کر کے مہاجر بنے۔ ہم اپنے شہر میں بیٹھے بیٹھے ہی غریب الوطن ہو گئے۔ یہ وہ شہر تھوڑا ہی ہے۔ وہ شہر تو قصہ کہانی ہو گیا۔ آکار بدل چکا ہے۔ اب اس محلے میں 95 فیصد گھروں میں ویجی ٹیرین (سبزی خور) رہتے ہیں۔ ان کی بلیاں گوشت کو ترس گئی ہیں۔ چنانچہ سارے دن میری چھتری کے چوگرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ بھئی تمہیں تو یاد ہوگا، کوپر ایلن اینڈ کمپنی کا بڑا صاحب۔ کیا نام تھا اس کا؟ سر آرگھرانس کپ؟ اس کی میم جب ولایت سے سیامی بلی لائی تو سر آرتھر نے کانپور شہر کے سارے بلوں کو neuter (آختہ) کروا دیا تھا تا کہ بلی پاکدامن رہے۔ دو بنگلے چھوڑ کر اجمل بیرسٹر رہتے تھے۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے تھے کہ ایک رات ان کے کتے کو بھی پکڑ کر احتیاطاً آختہ کروا دیا۔ سن اکتالیس کا قصہ ہے۔ Quit India تحریک سے ذرا پہلے۔

ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ وہ اب بھی ہنستے ہیں تو بچوں کی طرح ہنستے چلے جاتے ہیں۔ پھر آنکھیں پونچھ کر یکلخت سنجیدہ ہو گئے۔ کہنے لگے کہ اب مجھ میں اتنا دم نہیں رہا کہ چھت پر آواز لگا کے سب کو کابکوں میں بند کروں۔ سدھے سدھائے کبوتر تو چراغ جلے خود آ آ کے کابک میں دبک جاتے ہیں۔ بقیہ کو شاگرد گھیر گھار کے بند کر دیتے ہیں۔ وہی دانہ چوگا ڈالتے ہیں۔ اشرافوں کے جتنے شوق تھے سب پہ زوال آ گیا۔ شہر میں جوار تک نہیں ملتی۔ پچاس میل دور ایک گاؤں سے منگواتا ہوں۔ پٹواری میرا شاگرد رہ چکا ہے۔ آج کل کسی گریجویٹ کو پکڑ کے پوچھ دیکھو۔ جوار، باجرے اور کنگنی کا فرق بتا دے تو اسی کے پیشاب سے اپنی بھویں منڈوا دوں۔ ننانوے فیصد نے زندگی میں جَو بھی نہیں دیکھے ہوں گے۔ اماں، کیا کراچی کا بھی یہی حال ہے ؟ مگر تیورس کے سال ایک کرم فرما اس شغل میں میرے توغل کے پیشِ نظر (دیکھیے یہاں بھی ملا کے منھ سے ماسٹر فاخر حسین بول رہے ہیں) کراچی سے سوغات میں ایک ناول لائے، ”دلی کی شام“۔ کوئی جید عالم ہیں پروفیسر احمد علی۔ بھئی خوب لکھتے ہیں۔ دلی کے روڑے لگتے ہیں۔ ان کے انگریزی ناول کا با محاورہ ترجمہ ہے۔ واللہ جی خوش ہو گیا۔ ہر صفحے پر دِلی کے تمام بیگماتی محاورے اور کبوتر ایک ساتھ چھوڑ دیے ہیں۔ ان کی کوئی اور کتاب کبوتروں کے متعلق ہو تو کسی آتے جاتے کے ہاتھ بھیجنا۔

کالا کبوتر اور دوشیزہ کی بلی

ان کے سڑی پن کا ایک واقعہ ہو تو بیان کروں۔ ایک سالانہ روٹین کا حال سناتا ہوں۔ میٹرک کے زمانے سے ہی (جب وہ اپنی بائیسویں سالگرہ منا چکے تھے) انہوں نے یہ وتیرہ اختیار کر لیا تھا کہ امتحان کا نتیجہ اخبار میں نہیں دیکھتے تھے۔ چنانچہ اخبار لینا اور پڑھنا اور اخبار بینوں سے ملنا ترک کر دیتے تھے۔ ممکن ہے اس کا سبب بے نیازی ہو۔ خوف بھی ہو سکتا ہے۔ مرزا کا خیال ہے کہ اپنی سالانہ نالائقی کو کولڈ پرنٹ میں face نہیں کر سکتے تھے۔ بہر حال، نتیجے سے تقریباً ایک ہفتے قبل، اپنے ایک جگری دوست امداد حسین زیدی کو اپنا ایک کالا گرہ باز اور ایک سفید لوٹن کبوتر دے آتے۔ اور کمرہ مقفل کر کے خود مراقبے میں چلے جاتے۔ امداد حسین کو یہ ہدایت تھی کہ جیسے ہی اخبار میں میرے پاس ہونے کی خبر پڑھو، فوراً سفید کبوتر چھوڑ دینا۔ اور فیل ہو جاؤں تو کالا۔ پھر دن بھر کھڑکی سے آدھا دھڑ نکال نکال کر کبھی سوئے آسماں اور کبھی چھتری کو دیکھتے کہ کبوتر خبر لایا کہ نہیں۔ ہر سال منحوس کالے کبوتر کو ذبح کر کے مرجینا (دوشیزہ کی بلی کا نام) کو کھلا دیتے۔ یہ شاہانہ وضع داری انہوں نے بی۔ اے تک قائم رکھی کہ قدیم زمانے میں بادشاہ بھی بری خبر لانے والے قاصد کا سر قلم کروا دیتے تھے۔ رزلٹ والے ہفتے میں گھر میں روز کئی دفعہ رونا پیٹنا مچتا تھا۔ اس لیے کہ ان کی والدہ اور ہمشیرگان جیسے ہی کوئی کالا کبوتر دیکھتیں رونا پیٹنا شروع کر دیتیں۔ یوں تو چھتری پر دن میں کئی سفید کبوتر بھی آتے تھے مگر وہ ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ غلطی سے آن بیٹھے ہیں۔ بالآخر تین چار سال بعد رُلا رُلا کر، وہ دن آتا جب :

تڑپتا، لوٹتا، اٹھتا جو بے تابانہ آتا ہے

یعنی سفید لوٹن کبوتر آتا تو اسی خوشی میں اپنے تمام کبوتروں کو جن کی تعداد ستر اسی کے لگ بھگ ہوگی، جوار کی بجائے گہیوں کھلاتے اور سب کو ایک ساتھ اُڑاتے۔ دوسرے دن اس کبوتر کے پاؤں میں چاندی کی مُنی سی پُنیجنی (کبوتر کی جھانجھن) ڈال دیتے، اور اس کے کابک کے پاس کبوتر خانے میں دس تافتہ (سفید چمکیلے رنگ کا کبوتر یا کبوتری) کبوتریوں کا اضافہ کر دیتے۔ کبوتر خانہ تو ہم روانی میں لکھ گئے۔ ورنہ نقشہ یہ تھا کہ جب انہوں نے بی اے پاس کیا تو میٹرک، انٹرمیڈیٹ اور بی اے تینوں ملا کر تیس عدد خولہ کبوتریوں کے اضافے کے بعد ان کا سارا گھر اس طائرِ خوش خبر یعنی لوٹن کبوتر کے حرمِ خاص میں تبدیل ہو چکا تھا۔ گھر والوں کی حثیت ان کبوتریوں کے خدمت گاروں اور بیٹ اٹھانے والوں سے زیادہ نہیں رہی تھی۔

وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے

جس دن وہ شیر شاہ نامی کبوتر کی علالت کے سبب میرے ساتھ لکھنؤ نہ جا سکے، میں نے کسی قدر جھنجلاتے ہوئے ان سے کہا ”بندہ خدا دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اب تو اس کبوتر بازی پہ خاک ڈالو۔“

فرمایا ”تمہارے والد بھی تو بڑے پائے کے کبوتر باز تھے۔ میں تو ان کے سامنے بالکل اناڑی ہوں۔ اب لوگ اسے گھٹیا شوق سمجھنے لگے ہیں، ورنہ یہ صرف شرفا کا شوق ہوا کرتا تھا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بہادر شاہ کی سواری نکلتی تو دو سو کبوتروں کی ٹکری اوپر ہوا میں سواری کے ساتھ اُڑتی ہوئی جاتی۔ اور جہاں پناہ پر سایہ کیئے رہتی۔ جب واجد علی شاہ مٹیا برج میں محبوس ہوئے تو اس گئی گزری حالت میں بھی اس کے پاس چوبیس ہزار سے زیادہ کبوتر تھے، جن کی دیکھ ریکھ پر سیکڑوں کبوتر باز مامور تھے۔“

عرض کیا، ”اس کے باوجود لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ سلطنت پر زوال کیوں آیا۔ تیغوں کے سائے میں پلنے والوں کے سروں پر جب کبوتر منڈلانے لگیں تو پھر سواری بادِ بہاری مٹیا برج اور رنگون جا کر ہی دم لیتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے کبوتر خانے اور واجد علی شاہ نے پری خانے اور کبوتر خانے پر جتنی رقم اور توجہ صرف کی، اس کا دسواں حصہ بھی اپنے توپ خانے پر صرف کرتے تو فوجِ ظفر موج بلکہ کبوتر موج کی یہ دُرگت نہ بنتی کہ ڈٹ کر لڑنا تو درکنار اس کے پاس تو ہتھیار ڈالنے کے لیے بھی ہتھیار نہ نکلے۔ ہائے!

وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے

بگڑ گئے ”تو گویا سلطنتِ مغلیہ کا زوال کبوتروں کے سبب ہوا۔ یہ بات تو جادو ناتھ سرکار تک نے نہیں کہی۔ مسٹر چتر ویدی کہہ رہے تھے کہ انگلستان میں پچھتر لاکھ پالتو کُتے ہیں، فرانس میں سوا تین کروڑ Pets (پالتو جانور) ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، انگلستان میں ہر تیسرا بچہ ولد الزنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں گزشہ دس سال میں پچیس لاکھ اسقاط کرائے گئے۔ جیسے اپنے ہاں آدمی کثیر الاولاد ہوتا ہے، ویسے ہی ان کے ہاں بچہ کثیر الولدیت ہوتا ہے۔ آخر ان پر زوال کیوں نہیں آتا؟“

جاری ہے


  1. قصہ دو شہر – 1

  2. قصہ دو شہر – 2

  3. قصہ شہر دو – 3

  4. شہر دو قصہ – 4

  5. قصہ دو شہر – 5

  6. قصہ دو شہر – 6


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close