پیداواری لاگت بڑھنے سے چھوٹے کاشتکار زمین بیچنے پر مجبور

ویب ڈیسک

روز بہ روز بڑھتی مہنگائی سے جہاں پاکستان کے عام شہری بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، وہیں کاشتکاروں کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں، حتیٰ کہ چھوٹے کاشت کار اپنا کھیتی باڑی کا آبائی پیشہ چھوڑ کر زمینیں بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور غیر فعال آمدنی پیدا کرنے کے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں

چھوٹے کسان مہنگائی کی لہر اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس ہر دور میں بہترین فصل پیدا کرنے کے لیے نقد رقم یا تکنیک نہیں ہے، اس لیے وہ اب اس کاروبار کو خیرباد کہہ رہے ہیں جسے کبھی منافع بخش پیشہ سمجھا جاتا تھا

لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ صرف کاشتکاری میں ہی مہارت رکھتے ہیں، دیگر شعبوں میں تجربہ نہ ہونے کے باعث انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

زرعی ماہرین کے مطابق پیداواری لاگت بڑھنے سے چاول سمیت دیگر فصلوں، سبزیوں اورچارہ جات کی نا صرف قیمت میں اضافہ ہوگا، بلکہ پیداوار میں کمی کا بھی خدشہ ہے

ایسے میں ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ مہنگائی میں مسلسل اضافے اور موسمیاتی تبدیلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سمارٹ ایگری کلچر ٹولز اپنانا ہوں گے، تاکہ اخراجات کم کرکے پیداوار بڑھائی جا سکے

ملک کے مختلف علاقوں میں ان دنوں چاول کی فصل کاشت کی جا چکی ہے، تاہم کسان پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے پریشان ہیں

کاشتکار سردار سیف اللہ کہتے ہیں ”بدقسمتی سے زراعت کو انتہائی مشکل اور مہنگا بنا دیا گیا۔ ڈی اے پی کا ریٹ دس ہزار چھ سو، نائٹروفاس ساڑھے چھ ہزار اور یوریا کا سرکاری ریٹ ساڑھے اٹھارہ سو روپے ہے، لیکن قلت کی وجہ سے ڈھائی ہزار روپے میں ملتی ہے۔ ایسے حالات میں جن کے پاس تین چار ایکڑ زمین ہے، وہ ہائوسنگ اسکیموں کو بیچ رہے ہیں۔ جو لوگ نہری پانی استعمال کرتے ہیں، انہیں کچھ فائدہ ہوجاتا ہے لیکن جو ٹیوب ویل کا پانی استعمال کرتے ہیں، وہ مہنگا پڑتا ہے“

نارووال کے کاشتکار فرحان شوکت ہنجرا کا کہنا ہے ”1990 تک زراعت ایک منافع بخش صنعت تھی۔ سیاسی حکومتوں کی ترجیحات بدلنے سے زراعت تنزلی کا شکار ہوئی اور یہ سلسلہ جاری ہے، اب زرعی رقبے سکڑ رہے ہیں اور ہائوسنگ اسکیمیں پھیلتی جا رہی ہیں، ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں تیس لاکھ میٹرک ٹن گندم امپورٹ کرنا پڑی ہے، کاشتکار کا کوئی پرسان حال نہیں“

انہوں نے کہا ”اب ملک کے کسان اپنی زمینیں ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے دے رہے ہیں تاکہ پیسہ کمایا جا سکے اور صرف زندہ رہنے کے لیے اسے کہیں اور لگائیں۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ کسانوں کو مہنگائی کی وجہ سے اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے“

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا زراعت کی صنعت کے دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی امید ہے؟ تو شوکت کا کہنا تھا کہ چھوٹے کسانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں رہی کیونکہ بین الاقوامی کارپوریشنز نے قبضہ کر لیا ہے۔ اب صرف یہی بڑی کارپوریشنز زرعی فارم ہاؤسز کھڑے کرتی ہیں۔ وہ سرکاری سبسڈی والی مشینری، ادویات اور کھاد خرید کر خوب کماتے ہیں، جب کہ عام کسان اپنا پیٹ پالنے کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے

دوسری جانب زرعی ماہر عامر حیات بھنڈارا کا خیال ہے کہ اگر روایتی طریقوں کو نہ چھوڑا گیا تو زرعی صنعت کے لیے بدترین وقت آنا باقی ہے

عامرحیات بھنڈارا کہتے ہیں ”دنیا میں زرعی شعبے کو چیلنجوں کا سامنا ہے، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور موسمیاتی تبدیلی نے اس شعبے کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان میں زرعی شعبے میں تحقیق اور ڈویلپمنٹ پر کام نہ ہونے کی وجہ سے ہماری زراعت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ ہم نے زرعی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری نہیں کی۔ ایسے میں کھاد، بجلی، ڈیزل، بیج کی قیمتوں میں اضافے نے چھوٹے کاشتکاروں کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں“

بھنڈارا کا کہنا تھا ”ماضی اور حال کی حکومتیں صرف صارفین کی مدد کرتی ہیں، فصل اگانے والے کسانوں کی نہیں اور یہیں پر مسئلہ ہے“

انہوں نے مشورہ دیا کہ زراعت میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ گاؤں کی سطح پر ڈجیٹل کیمپس قائم کرنے میں مدد کرے، جہاں کسان موجودہ موسمی حالات، سمارٹ فرٹیلائزر ایپلیکیشنز، خودکار آبپاشی کے نظام، سینسرز اور سب سے اہم بات کہ اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے مارکیٹ تک رسائی کے بہترین طریقوں کے بارے میں جان سکیں

بھنڈارا کہتے ہیں "کسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ چاہے کوئی بھی حکومت منتخب ہو، مہنگائی بڑھتی رہے گی، اور موسمیاتی تبدیلی کے اضافی مضمرات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ان حالات میں، ہمیں ڈجیٹل یا سمارٹ زرعی ثقافت کو اپنانا چاہیے‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close