امریکہ میں 2023ع میں ہونے والی فائرنگ کے واقعات میں اب تک ایک سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جو اوسطاً ایک شخص فی ہفتہ بنتا ہے اور جن کے اہلِ خانہ، عزیز رشتے دار اس تشدد کا شکار ہوکر اس دنیا سے چلے گئے، انہیں یہ سوال پریشان کر رہا ہے کہ یہ واقعات مسلسل کیوں ہو رہے ہیں؟
یہی سوال رچرڈ برگر کا بھی ہے، جن کا بیٹا پانچ سال پہلے اپنی چوالیسویں سالگرہ کے ایک روز بعد فائرنگ کا شکار ہو کر چل بسا تھا۔ 2017 میں لاس ویگس اسٹرپ میں موسیقی کے ایک فیسٹیول میں ایک مسلح شخص نے اندھا دھند فائرنگ کر دی، جس میں ساٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔ اسے امریکی تاریخ میں شوٹنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد کہا گیا مگر یہ سلسلہ رکا نہیں
یہ خبر بھی پڑھیں:
امریکہ: فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات میں ریکارڈ اضافہ
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے محکمہ پولیس کے مطابق جمعے کی رات فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔ زخمی ہونے والوں میں ایک بچی بھی شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق فائرنگ کے دونوں واقعات
برگر کہتے ہیں ”یہ چیز میرے دل میں زخم جیسی ہے، مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں“
اس سال کے پہلے چار ماہ اور چھ دنوں میں فائرنگ سے قتل کے بائیس واقعات میں ایک سو پندرہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان میں تازہ ترین واقعہ ریاست ٹیکساس کے مال میں شوٹنگ کا ہے، جس میں آٹھ افراد گولی لگنے سے اپنی جانوں سے گئے
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کسی سال کے اوائل میں 2006 کے بعد سے فائرنگ میں ہلاکتوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے
ماہرین کے مطابق اس میں جن عوامل کا عمل دخل ہے، ان میں آتشیں اسلحہ کا فروغ، اسلحہ کے قوانین کی عدم موجودگی، کرونا وائرس کی وباء کے اثرات، سیاسی فضا میں با معنی انداز میں کسی تبدیلی سے گریز اور امریکی معاشرے میں تشدد کے عنصر میں اضافہ شامل ہیں
گن وائلنس کا کوئی جواز فراہم کرنا یا اس کی وجوہات کا بیان نہ تو اس سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے لیے کسی مرہم کا باعث ہے، نہ ہی دیگر امریکیوں کو کوئی اطمینان دلا سکتا ہے کیونکہ ایسے المناک واقعات سبھی کو متاثر کرتے ہیں
اس سال جو واقعات پیش آئے ہیں، ان کی نوعیت کئی طرح کی ہے۔ گھریلو یا پڑوس کے جھگڑوں سے لے کر اسکولوں، ملازمت کے مقامات پر فائرنگ یا پبلک مقامات پر اندھادھند گولیاں برسا دینے کے واقعات نے شہروں اور دیہات سب کو متاثر کیاہے جن میں کبھی تو لوگوں کو قاتل کا علم ہوا اور کبھی وہ اس کے بارے میں کچھ نہ جان سکے
فائرنگ میں چوبیس گھنٹے میں چار یا چار سے زیادہ لوگ مارے جائیں تو ایف بی آئی اسے قتلِ عام کا درجہ دیتا ہے
لیکن بندوق کا استعمال اس سال جن 14000 لوگوں کی موت کا سبب بنا ان میں سے، ‘گن وائلنس آرکائیو’ کے مطابق جو اعدادوشمار جمع کرنے کے لیے نیوز میڈیا اور پولیس رپورٹس سے مدد لیتا ہے، نصف تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے خودکشی کی۔ اور ایسے واقعات زیادہ تواتر سے ہوئے جن میں چار سے کم لوگ ہلاک ہوئے
فائرنگ سے ہلاکتوں کے واقعات نے لوگوں کے دلوں میں شدید خوف پیدا کر دیا ہے۔
مجانز ہاپکنز یونیورسٹی میں گن وائلنس کا حل تلاش کرنے کے سینٹر میں پروفیسر ڈینیل ویبسٹر کہتے ہیں ”لوگ اب بھی اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں مگر انہیں یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ ان کے بچے کو گولی تو نہیں لگ جائے گی؟“
حقیقت یہ ہے کہ کولمبین کے بیس سال بعد، سینڈی ہوک میں بچوں کے ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ کے دس سال بعد، لاس ویگس میں شوٹنگ کے پانچ سال بعد، بفلو نیویارک کی سپر مارکیٹ میں فائرنگ کو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا اور یو والڈی ٹیکساس کے ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ بھی قریب کا واقعہ ہے اور اسی اختتامِ ہفتہ امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں شاپنگ مال میں مسلح شخص نے فائرنگ کر کے آٹھ افراد کو ہلاک اور سات کو زخمی کر دیا۔یہ سب واقعات کے بعد ایک ہی سوال کی گونج سنائی دیتی ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟
کسی کے پاس شاید اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ صدر بائیڈن جو بندوقوں پر سخت کنٹرول کے حامی ہیں، اکثر جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں کہ آخر کانگریس نیم خودکار رائفلوں پر پابندی عائد کرنے سے گریزاں کیوں ہے؟
واضح رہے کہ گزشتہ سال بائیڈن نے ایک بل کو قانون کی شکل دی تھی، جس کے تحت اسلحہ کے کم عمر خریداروں کے کوائف کی کڑی چھان بین، گھریلو تشدد میں ملوث افراد کو اسلحہ کے حصول سے روکنا اور ریاستوں کے لیے ایسے قوانین کا حصول ممکن بنانا ہے جو پولیس کو عدالتوں سے اس درخواست کا اختیار دیں کہ وہ تشدد پر مائل افراد سے ان کا اسلحہ واپس لے سکیں
تاہم یہ تمام قانون سازی اور دیگر اقدامات بندوقوں کے اس تشدد یا لوگوں کی تکلیف میں کمی نہیں کر سکے
اسٹیفن برگر کے والد رچرڈ برگر کی عمر اب اسی سال ہے۔ وہ اپنے دن اپنے پوتوں کے ساتھ گزار رہے ہیں، جن میں سے ایک فٹبال کا گول کیپر ہے جو انہیں اپنے بیٹے اسٹیو کی یاد دلاتا ہے، جو باسکٹ بال کا دیوانہ تھا۔ ان کا خاندان اسٹیفن کے ہائی اسکول کو سالانہ ایتھلیٹک اسکالر شپس بھی دیتا ہے، لیکن بیٹے کی موت کے پانچ سال بعد بھی رچرڈ برگر کا وہی سوال ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کوئی شخص ہاتھ میں گن لے کر لوگوں سے ان کی زندگیاں اور ان کے پیاروں سے ان کی خوشیاں چھین لیتا ہے؟
یہ خبر بھی پڑھیں:
فائرنگ سے امریکی بچوں کی ہلاکتیں، حادثوں میں اموات سے بھی بڑھ گئیں