ان دنوں پاکستان اور بھارت کے حوالے سے جن خبروں کا شہرہ ہے، ان کا تعلق دونوں ملکوں کی روایتی کشیدگی سے ہرگز نہیں ہے۔ پاکستانی خاتون سیما کا بھارت جا کر سچن سے ملنا اور اس کے فوراً بعد بھارتی لڑکی انجو کا پاکستان آ کر نصراللہ سے شادی کرنا، ایسے دو واقعات تھے، جو شہہ سرخیوں پر چھائے رہے
یہ دونوں کہانیاں اپنی جگہ لیکن بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں سرحد پار محبت کی ایک اور کہانی منظر عام پر آئی ہے، جو کسی فلم سے بھی زیادہ فلمی ہے، جس کی ابتدا ایک ’رانگ نمبر‘ پر اتفاقیہ طور پر کی گئی فون کال سے ہوئی
اس کہانی کے کردار گلزار خان کا تعلق پاکستان سے ہے جبکہ دولت بی بھارت سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ دونوں اب نندیال ضلع کے گادی ویمولا گاؤں میں پانچ بچوں کے ساتھ ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں، جس کے لیے دونوں کو کئی مشکلات، کٹھن حالات اور کڑے امتحان سے گزرنا پڑا
گلزار خان 2011 میں بھارت میں داخل ہوئے تھے لیکن آٹھ سال بعد شہریت سے متعلق مختلف الزامات میں انہیں دو بار جیل جانا پڑا۔ گذشتہ ماہ تلنگانہ ہائی کورٹ نے گلزار کی ملک بدری کے کیس کا فیصلہ ہونے تک انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا
اس کہانی کی ابتدا 2009 میں اس وقت ہوئی، جب پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے رہنے والے گلزار سعودی عرب میں پینٹنگ کنٹریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے
تبھی ان کے ساتھ کام کرنے والا ایک بھارتی شہری چھٹی پر اپنے ملک چلا گیا۔ سعودی عرب سے چھٹی پر بھارت روانہ ہوتے وقت ان کے کولیگ نے انہوں درخواست کی کہ وہ ان کے ساتھ رابطے میں رہیں
چند ماہ بعد ایک دن جب گلزار نے اپنے ساتھ کام کرنے والے دوست کو بھارت میں فون کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ گلزار نے سوچا کہ شاید ان سے اپنے ساتھی کا نمبر نوٹ کرنے میں غلطی ہوئی ہے، اس لیے انہوں نے کچھ ملتے جلتے نمبروں پر کال کرنے کی کوشش کی
اسی کوشش کے دوران تقدیر نے ان کا رابطہ دولت بی سے کروا دیا۔۔ کیا پتہ تھا کہ آگے چل کر غلطی سے ملنے والی یہ کال محبت کی ایک ایسی کہانی کو جنم دے گی، جس کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی ہونگی
گلزار نے دولت بی کو فون کر کے بتایا کہ ان کا نام گلزار خان ہے اور وہ پنجاب کے رہنے والے ہیں
اتفاقی طور پر ملنے والی یہ کال مزید کالوں کی وجہ بنی۔۔ بات چیت ہونے لگی اور جلد ہی دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے
یوں یہ سلسلہ چل نکلا اور دونوں تین سال تک باقاعدگی سے فون پر بات کرتے رہے، جس کے بعد گلزار نے دولت کو شادی کی پیشکش کر دی۔ تاہم اُس وقت دولت بی ذہنی دباؤ کی وجہ سے ان کی اس بات کو ماننے سے کترا رہی تھیں
دولت نے ان سے بہت دن تک جھوٹ بولا کہ ان کے شوہر ہیں اور ان کے چار بچے ہیں۔ ایک دن گلزار نے ان سے کہا کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں سے ان کی بات کرائیں
لیکن حقیقت یہ تھی کہ دولت بی کے بچے تو تھے لیکن ان کے شوہر کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہو چکا تھا
اگرچہ دولت بی نے گلزار کی طرف سے کی گئی شادی کی پیشکش کو ٹالنے کی کوشش ضرور کی، لیکن ان کے دل میں بھی گلزار کے لیے جذبات جنم لے چکے تھے کیونکہ وہ باتوں سے انہیں ایک اچھے انسان لگے اور دھیرے دھیرے مستقبل میں ایک ممکنہ ساتھی کے طور پر نظر آنے لگے
تاہم دولت بی کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے پڑوسی اور جاننے والے ہر وقت گلزار کے ساتھ فون پر رہنے کی وجہ سے باتیں بنانے اور انہیں طعنے دینے لگے
دولت بی نے گلزار کو بتایا کہ لوگ انہیں طعنے دے رہے ہیں، وہ اتنی تنگ آ گئی کہ انہوں نے گلزار سے کہا ”اچھا ہے کہ میں مر جاتی ہوں۔“ لیکن گلزار نے انہی تسلی دی اور سمجھاتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے لیے اپنی جان نہ دے۔ گلزار نے انہیں یقین دلایا کہ وہ کسی بھی طرح ان کے پاس آئے گا
اس کے بعد گلزار نے جو کیا، وہ واضح طور پر غیر قانونی تھا۔ ایسا نہیں کہ وہ اپنے اس اقدام کے نتیجے سے واقف نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ایسا فیصلہ کر چکے تھے جو ناممکن کی حد کو چھونے تک مشکل تھا۔۔ اس نے دولت بی سے ملنے کے لیے بھارت جانے کی ٹھان لی
گلزار کے لیے اصل مشکل یہ تھی کہ وہ ایک پاکستانی شہری تھے، جبکہ بھارت اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات حسب روایت اس قدر تلخ تھے کہ دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے شہریوں کا داخل ہونا کوئی آسان کام نہ تھا
گلزار نے شادی کے لیے بھارت کا ویزا لینے کی کئی بار کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ پھر ایک دن انہوں نے ایک جاننے والے بھارتی شہری کا شناختی کارڈ لیا، شناختی کارڈ لے کر وہ سعودی عرب کی مقامی پولیس کے پاس گئے اور اس کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ وہ بھارتی شہری ہیں
انہوں نے سعودی پولیس سے کہا ”یہ میرا کارڈ ہے، میرا پاسپورٹ کھو گیا ہے۔ میں انڈین ہوں، میں یہاں نوکری کرنے کے لیے آیا تھا، اب انڈیا واپس جانا چاہتا ہوں“
اس بات پر سعودی پولیس نے انہیں قید میں ڈال دیا، جہاں وہ بارہ دن بند رہے
واضح رہے کہ سعودی عرب میں بڑی تعداد میں بھارتی اور پاکستانی شہری قانونی طور پر کام کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ غیر قانونی راستے بھی اختیار کرتے ہیں، جنہیں حکومت وقتاً فوقتاً ملک بدر کرتی رہتی ہے۔ اس لیے گلزار کو ایک ایسا بھارتی سمجھا گیا، جو سعودی عرب میں غیر قانونی راستے سے داخل ہوا تھا
یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں بھارتی سفارتخانے نے گلزار کو ایک عارضی پاسپورٹ جاری کیا اور انہیں تقریباً ایک سو ساٹھ بھارتی شہریوں کے ساتھ ممبئی واپس بھیج دیا
وہ اس سے پہلے بھی بھارت آنے کے خواہاں تھے کیونکہ انہوں نے دیکھا تھا کہ بعض بھارتی وزٹ ویزا پر پاکستان کا دورہ کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنا خواب ایک ایسے طریقے سے پورا کیا، جس نے انہیں مشکل میں ڈال دیا تھا
ممبئی ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد انہوں نے دولت بی کے گھر کے قریب ترین شہر حیدرآباد کے لیے ٹرین پکڑی
گلزار کے پاس صرف ڈیڑھ سو ریال تھے، جو انہوں نے ممبئی کے ہوائی اڈے پر بھارتی کرنسی میں تبدیل کرائے۔ جب تک وہ دولت بی کے گھر پہنچے، ان کے پاس ابھی بھی تقریباً پانچ سو بھارتی روپے باقی تھے
گلزار نے بھارت آنے کے تقریباً دو ہفتے بعد دولت بی سے شادی کر لی۔ اس سے قبل ایک بار وہاں دولت بی کے رشتے داروں کی شکایت پر پولیس نے گلزار سے پوچھ گچھ کی لیکن اس کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا اور کوئی مقدمہ درج نہیں کیا
دولت بی کے لیے وہ فرشتہ بن کر آئے تھے۔ ان کے والدین، شوہر اور بڑے بھائی کی ایک کے بعد ایک وفات ہو گئی تھی جبکہ ذہنی طور پر معذور چھوٹا بھائی لاپتہ ہو گیا تھا
دولت بی کو گلزار میں ایک مثالی شوہر نظر آ رہا تھا کیونکہ وہ انہیں مزاج سے اچھے لگے، جو سابقہ شوہر سے ہونے والے بچوں کو بھی اپنے بچوں جیسا سمجھتے تھے
دن گزرتے گئے، گلزار اس جگہ سے واقف ہو گئے اور ان کے دولت بی سے مزید چار بچے ہو گئے۔ اس دوران انہوں نے تھوڑی بہت تیلگو زبان بھی سیکھ لی۔ وہ مقامی شراب پینے لگے اور بطور پینٹر دوبارہ کام کرنے لگے۔ گلزار اب خود بھی اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھنے لگے تھے
ادہر گلزار نے کئی سال تک پاکستان میں مقیم اپنے خاندان سے رابطہ معطل کیا ہوا تھا۔ ان کے گھر والوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ وہ ڈر رہے تھے کہ کہیں ان کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہو گیا ہو۔ اہلِ خانہ کو لگتا تھا کہ گلزار سعودی عرب میں ہی ہیں، لہٰذا انہوں نے وہاں ان کی تلاش جاری رکھی ہوئی تھی
گلزار کے خاندان نے ان کے ایک بھائی کو بھی سعودی عرب انہیں ڈھونڈنے کے لیے بھیجا، مگر وہ ناکام واپس آیا
لیکن پھر ایک دن اچانک گلزار نے پاکستان میں اپنی والدہ اور خاندان، جس میں چار بہنیں اور ایک بھائی شامل ہیں، سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ وہ بھارت چلے گئے ہیں
دراصل برسوں تک دور رہنے کے بعد گلزار کو اب گھر کی یاد ستانے لگی تھے۔ انہوں نے نہ صرف خود اپنے گھر والوں سے بات کی، بالکل اپنی بیوی اور بچوں کی بھی ان سے بات کرائی۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنی نئی فیملی کے ساتھ پاکستان جائیں
گلزار نے سوچا کہ ’پاکستان جا کر تھوڑا پیسہ لے کر آؤں، یہاں حالت اچھی نہیں ہے۔ گھر بنانا ہے، بچے پڑھ رہے ہیں۔‘
اور پھر گلزار 2019ع میں پاکستان جانے کے ارادے سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دلی کے لیے نکلے، لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ حیدرآباد کے ٹرین اسٹیشن پر ریاست تلنگانہ کی پولیس ان کا انتظار کر رہی ہے۔ گلزار کو فوراً گرفتار کر لیا گیا
دراصل بھارت کی انٹیلیجنس ایجنسیاں ان کے ذریعے پاکستان میں کی کئی کالز کی نگرانی کر رہی تھیں
پولیس نے حراست میں ان سے ان کے ملک کے بارے میں سوالات پوچھے اور انہوں نے یہ قبول کر لیا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔ ”میں نے انہیں سب کچھ ایمانداری سے بتایا۔ جب انہیں میری بات پر یقین نہ آیا تو میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے کچھ فاصلے پر پیشاب کر رہا تھا اور دیکھا کہ آپ لوگوں نے میری فیملی کو گھیر لیا ہے۔ اگر مجھے کچھ غلط کرنا ہوتا تو میں وہاں سے بھاگ جاتا۔ میں آپ لوگوں کے سامنے اپنی مرضی سے آیا“
گلزار کہتے ہیں ”میں اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگا تو مجھے کس نے مرد بولنا ہے؟ میں نے سوچا میں نے پیار کیا ہے، دیکھیں گے کیا ہوتا ہے“
ان پر انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی)، فارنرز ایکٹ، اور پاسپورٹ ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت جعلی آدھار کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے کا جرم عائد کیا گیا
بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر بھارت میں داخل ہوئے تھے۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق بھارتی حکومت کا کہنا ہے ”گلزار نے اقبال پور کے رہائشی محمد عادل کی دستاویزات میں جعلسازی کی، اسے جعلی طریقے سے اصلی دستاویز کے طور پر استعمال کیا، ایمرجنسی سرٹیفکیٹ حاصل کیا اور 10 جنوری 2011 کو بھارت میں داخل ہوئے“
وہ کہتے ہیں ”مجھے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ میں نے غلطی کی، اس کی مجھے سزا ملی“
ادہر دولت بی پولیس اہلکاروں سے جواب طلب کر رہی تھیں۔ پولیس نے انہیں بتایا کہ ان کے شوہر پاکستان سے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”میں ان سے لڑائی کرنے لگی کہ نہیں، وہ پنجاب سے ہیں۔ پھر پولیس والوں نے بتایا کہ نہیں، پاکستان میں بھی پنجاب ہے اور وہ وہیں سے ہیں۔۔۔۔“
اس وقت تک دولت بی کو معلوم نہیں تھا کہ گلزار پاکستانی پنجاب سے ہیں۔ انہیں معلوم ہوا کہ وہ درحقیقت پاکستانی پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے گاؤں کولووال کی مسیحی بستی سے تعلق رکھتے ہیں
دولت بی کو تبھی یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی کنیت ’خان‘ بتائی تھی، جس کی وجہ سے وہ انہیں مسلمان سمجھ رہی تھیں لیکن گلزار نے حقیقت چھپا کر رکھی تھی کہ ان کا نام دراصل گلزار مسیح تھا
مگر یہ جان کر بھی دولت کا ماننا یہ رہا کہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے اور اس پر سمجھوتہ کرنے کو تیار تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’کیا فرق پڑتا ہے اس سے، کہ وہ مسیحی ہیں۔‘
راولپنڈی میں مقیم گلزار کی بڑی بہن شیلا بتاتی ہیں کہ جب بھارت میں گلزار کے خلاف مقدمہ درج ہوا، تب جا کر انہوں نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا، جس پر حکام نے کہا کہ وہ معاملے کی تحقیقات کریں گے۔ اس کے بعد پولیس تفتیش کی غرض سے ان کے آبائی گھر بھی گئی
شیلا کا کہنا ہے ”حکام ہمارے گھر آئے۔ سب سے پوگھ گچھ کی اور پوچھا کیا آپ کا بھائی اُدھر (انڈیا میں) ہے؟ ہم سے پوچھا گیا کہ وہ کیسے گیا؟“
ادھر دولت بی، جو اب بھارت کے ایک مقامی اسکول میں کام کرتی ہیں، نے گھر واپس آ کر گلزار کی ضمانت کے لیے اپنے گاؤں والوں سے مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کیے۔ انہیں ضمانت مل گئی لیکن فروری 2022 میں غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرنے کی ایک مہم کے دوران انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا
دولت بی نے دوبارہ ان کی رہائی کے لیے تقریباً اَسی ہزار روپے جمع کیے
ان کے وکیل ایم اے شکیل کا کہنا ہے کہ وہ پہلی مرتبہ گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تھے اور اسے چیلنج کیا گیا تھا کہ جب تک گلزار کے ملک بدری کے کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، ان کی ضمانت کا احترام کیا جائے
وہ کہتے ہیں ”گلزار ضمانت پر پہلے سے تھے۔ لیکن ایک الگ گورنمنٹ آرڈر کے تحت ان کو پھر سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ہم نے اس آرڈر کو تیلنگانہ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور کورٹ کے آرڈر سے وہ جیل سے باہر آئے“
بھارت میں جیل سے باہر بھی گلزار کی زندگی غیر یقینی سے دوچار ہے۔ ان کے خلاف 2019ع میں درج کیس زیرِ سماعت ہے، جو کہ ان کی قسمت کا فیصلہ کرے گا
لیکن وہ اکیلے پاکستان جانے کے بجائے اپنے نئے خاندان کے ساتھ ملک واپس جانے کی امید کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”یہاں لوگ کہہ رہے ہیں کہ تم اکیلے جاؤ، اور پھر واپس آ کر بچوں کو لے جانا۔ میں گیا تو پھر بعد میں کیا ہوگا، کیا معلوم؟ میرے چھوٹے بچے ہیں، پڑھ رہے ہیں، برباد ہو جائیں گے۔۔ اگر مجھے اُدھر (پاکستان) بھیجتے ہیں تو میرے بچوں کو بھی میرے ساتھ جانے دیں، اگر مجھے اِدھر (بھارت میں) رکھ رہے ہیں تو مجھے بچوں کے ساتھ ادھر ہی رکھ دیں۔ مجھے کوئی آدھار، کوئی پاسپورٹ نہیں چاہیے۔۔ میری اس حکومت سے بس اتنی ہے سی درخواست ہے۔۔۔“
نہ دولت بی گلزار کا ساتھ چھوڑنے کو تیار ہیں اور نہ ہی گلزار انہیں اور بچوں کو چھوڑنا چاہتے ہیں، لیکن دوسری طرف بھارتی قانون ہے، جو اپنا فیصلہ سنائے گا۔۔ کیا جانیے کہ یہ ان کی تقدیر انہیں اب کہاں لے جائے۔۔