سعودی عرب نے خطی (لینیئر) شہر کا عجیب و غریب منصوبہ بنایا ہے۔ دی لائن نامی شہر کسی قطار کی طرح بالکل سیدھا ہوگا، جس کی لمبائی 170 کلومیٹر کے لگ بھگ ہوگی۔ اسے فطری ماحول کے نزدیک بسایا جائے گا جبکہ یہاں گاڑیاں اور سڑکیں نہیں ہوں گی
چند ماہ قبل سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے مستقبلیاتی شہر کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’دی لائن‘ مصنوعی ذہانت سے بھرپور ایک اسمارٹ شہر ہوگا جہاں انسانی آبادی کا اژدہام، ٹریفک، آلودگی اور فرسودہ تعمیرات نہیں ہوں گی
اسے بحیرہ احمر اور اطراف کی پہاڑیوں سے گزار کر اوپری وادیوں سے ملایا جائے گا
مصنوعی ذہانت سے بھرپور اس شہر میں عام افراد اور کاروباری حلقے کی زندگی آسان اور سہولیات سے بھرپور بنائی جائے گی
شہر میں سو فیصد صاف اور ماحول دوست توانائی استعمال کی جائے گی اور سڑکوں کی بجائے تیز رفتار ہائپر ٹرانسپورٹ دستیاب ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں ٹریفک حادثات بہت عام ہیں اور ہرسال دس لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں
دس لاکھ افراد کے لیے بسائے جانے والے اس شہر میں کاریں اور سڑکیں نہیں ہوں گی، بلکہ ایک سیدھا شہر ہوگا جس کے مرکز میں تیزرفتار ٹرانسپورٹ چلے گی
شہر کو کچھ اس طرح بنایا جائے گا کہ ضروریاتِ زندگی کی ہر شے پانچ منٹ کی مسافت پر ملے گی جبکہ شہر کے ایک سے دوسرے کنارے تک جانے کے لیے 170 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں صرف بیس منٹ لگیں گے
مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت دستیاب جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی یہ شہر نہیں بنایا جاسکتا۔ دعوے کے مطابق 170 کلومیٹر کا فاصلہ صرف بیس منٹ میں طے کرنے کے لیے 463 کلومیٹر طویل ٹرین یا ٹرانسپورٹ نظام درکار ہوگا، جو فی الحال بہت مشکل ہے
رہا سوال ’’ہائپرلوپ‘‘ کا تو اس کی رفتار 463 کلومیٹر فی گھنٹہ تک تو پہنچی ہے لیکن مسافروں کے بغیر!
یہی وجہ ہے کہ جدید شہری منصوبہ بندی کے ماہرین اس منصوبے کو متنازع اور محال قرار دے رہے ہیں۔ دیگر ماہرین نے کہا ہے کہ جب نقشے سے شہر عملی شکل اختیار کرتے ہیں تو وہ کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں.