KURRA CHEE

امر جلیل

یہ ہندوستان میں ہماری آمد اور ہندوستان پر چھا جانے سے پہلے کی بات ہے۔ تب ہندوستان اقوام عالم کے لئے دلکش اوردلفریب ملک تھا۔ سب کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ دنیا کے اس خطہ میں ازلی اور اوائلی کشش تھی۔ ہندوستان ایک تو دولتمند اور قابلِ دید ملک تھا، دوسرے یہ کہ دلفریب اور موہ لینے والا ملک تھا۔ ملک گیری کی ہوس میں جنگجو ممالک وقفہ وقفہ سے ہندوستان پر حملہ آور ہوئے۔ پورچوگیز والے آئے۔ ڈچ آئے۔ فرانس والے آئے۔ برطانیہ والے آئے۔ سکندر اعظم کی سربراہی میں یونانی آئے۔ عرب آئے۔ غزنوی آئے۔ افغانی آئے۔ ترک آئے۔ روایت ہے کہ یورپ سے جنگجو قبائل ھن Hun نے بھی قسمت آزمائی کی تھی۔ ان اقوام نے سندھ پر توجہ نہ دی۔ میں یورپ والوں کی بات کر رہا ہوں، ورنہ انگریز سے بہت پہلے عربوں نے سندھ فتح کیا تھا۔مگر انگریز زیادہ ہوشیار تھے۔ ہندوستان پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے بعد انگریزوں نے سندھ کے حکمرانوں سے اچھے تعلقات قائم کیے اور حیلے بہانوں سے اپنا وفد مستقل طور پر سندھ میں چھوڑ دیا۔ انگریزوں نے مستند دستاویزات تیار کیں۔ دستاویز میں سندھ کے چپے چپے کا تجزیہ کیا۔ دبے لفظوں میں کولاچی کو جدید بندرگاہ میں تبدیل کرنے کی بات کی۔ حالانکہ سندھ کے حکمراں لمبے عرصہ تک افغانوں کو پابندی سے بھتہ دیتے رہے تھے، لیکن افغانوں کو سندھ میں شکارپور سے آگے کچھ سجھائی نہیں دیا۔ سندھ مغلوں کے تحت بھی رہا۔ مگر مغلوں کو کولاچی کی اہمیت سمجھ میں نہیں آئی۔ ایک مرتبہ میروں سے اجازت لے کر انگریز نے دریائے سندھ کے راستے افغاستان پر حملہ کیا تھا، مگر شکست کھا کر لوٹ آئے تھے۔ اس کے بعد افغانستان اور سندھ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے۔

ایک مرتبہ راجا رنجیت سنگھ نے سندھ کے حاکموں کو سندھ پر حملہ کی دھمکی دی تھی۔ گھبرا کر سندھ کے حاکموں نے انگریز سے معاہدہ کر لیا کہ اگر سندھ پر کبھی سکھوں نے حملہ کیا تو انگریز سندھ کا دفاع کرے گا۔

اٹھارہ سو تینتالیس میں سر چارلس نیپر نے لڑتے ہوئے سندھ فتح کیا۔ پہلے سے تیار دستاویزات میں دی گئی تجاویز کے مطابق کولاچی کو جدید بندرگاہ میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ تعمیراتی کام سمندر کے کھارے پانی سے نہیں ہوتا۔ سفارتی تعلقات کے دوران انگریز نے پتہ چلا لیا تھا کہ کولاچی کے آس پاس میٹھے پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ یا ذریعہ نہیں تھا کہ جس سے اتنے بڑے تعمیراتی کام میں ہاتھ ڈالا جائے۔ لہٰذا کولاچی سے تیس پینتیس میل دور ڈملوٹی نام کے مقام پر انگریز نے پانچ کنویں کھدوائے۔ دریائے سندھ کے پانی سے کنوئیں خود بخود بھرنے لگے۔ ڈملوٹی سے کیماڑی کے علاقہ تک پائپ لائنیں بچھا دیں۔

اس طرح کراچی کی بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ اس جگہ کو کیماڑی کا نام دیا گیا۔ جب اتنے بڑے پیمانے پر کام شروع ہوتا ہے، تب اس پر سینکڑوں مزدور، مستری، بڑھئی، انجینئر اس کام سے جڑ جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لئے کالونی بنائی گئی۔ انگریز دلجمعی سے کام کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ ان کی چھوٹی بڑی کوٹھیاں بنیں۔ کاغذی کارروائی کے لئے دفتر بنے جہاں انگریز بندرگاہ پر ہونے والے کام کاج کا حساب کتاب رکھتے تھے۔ یہ تھی جدید شہر کراچی کے بننے کی ابتدا۔

انگریز افسران کے لئے کلب بنایا گیا۔ کالونی میں رہنے والے مزدوروں، بڑھئی ،راج مستریوں، کاریگروں کی سہولت کے لئے چھوٹی بڑی دکان کھل گئی۔ ایک چھوٹا سا بازار بننے لگا۔ کالونی میں رہنے والے اپنے بال بچوں سمیت بندرگاہ کے قریب آباد ہو گئے۔ بچوں کے لئے اسکول کھولے گئے۔ اس دوران انگریز نے اپنے وضع کردہ منصوبہ کے مطابق بندرگاہ سے مال لے جانے اور لانے کے لئے ریل کی پٹریاں بچھانی شروع کردیں۔ کراچی کا خوبصورت سٹی اسٹیشن بنا۔ کچھ عرصہ بعدانگریز نے ریل کی پٹریاں کوٹری تک بچھا دیں۔ بندرگاہ پرمال بردار اور پیسنجر جہازوں کی آمدورفت کے لئے ڈیک بنوا لیے۔ کراچی سے بمبئی، سورت، کلکتہ اور مدراس کے ساحلوں تک رابطہ قائم ہوا، گوا، بمبئی ، کلکتہ،سورت ،مدراس سے لوگ جوق درجوق کراچی آنے لگے۔

آہستہ آہستہ کراچی میں کاروباری مراکز کھلنے لگے۔ گوا سے زیادہ تر کرسچن کراچی آئے اور صدر کے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں آباد ہو گئے۔ انہوں نے صدر میں ہی اپنا خوبصورت مرکز بنایا جو آج بھی گوئن ایسوسی ایشن کے نام سے صدر میں جہانگیر پارک کے قریب ، بمبینو سینما کے سامنے موجود ہے۔ گوئنز نے اپنا عالیشان کرکٹ گرائونڈ بھی بنایا۔ وہ کرکٹ گرائونڈ پاکستان بننے کے بعد بھی پرانی نمائش کے قریب فعال تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے صدر پر کرسچن چھا گئے۔ بمبئی اور کلکتہ سے ایرانی بہت بڑی تعداد میں آئے، اپنے ساتھ اپنا کاروبار بھی لے آئے۔ کراچی میں ایرانی ہوٹل کھلنے لگے۔ وہ لوگ کہلوانے میں پارسی آتے تھے۔ کراچی میں پارسیوں کی دیدہ زیب کالونیاں بننے لگیں۔ پارسیوں نے دل کھول کر کراچی پر خرچ کیا۔ خوبصورت پارک اور عمارتیں بنوائیں۔ اس دوران اندرون سندھ سے تعلیم یافتہ اور کاروباری ہندو بڑی تعداد میں کراچی میں آئے اور برنس روڈ اور فریئر روڈ پر عالیشان فلیٹ بنوائے جو آج بھی موجود تو ہیں مگر بے توجہی کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔

لوگوں کی سہولت کے لئے انگریز نے کراچی میں ٹرام کی پٹریوں کا جال بچھا دیا ۔ہم لوگوں نے ٹرام بند کرکے، پٹریاں اکھاڑ دیں۔ انگریز کے دور کی جتنی خوبصورت عمارتیں تھیں ہم نے بدصورت کر دیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی میں بیس پچیس سینما چلنے لگے۔ تین چار تھیٹر کام کرنے لگے۔ اس کے بعد کراچی نے پھر کبھی مڑکر نہیں دیکھا، اوائلی دور میں انگریز کراچی کو انگلش میں اس طرح لکھتے تھے، Kurra chee

بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close