کراچی کی باتیں

امر جلیل

اللہ سائیں کے فضل و کرم سے ہم نے انگریز کو ہندوستان چھوڑ کر جانے سے پہلے برصغیر کے بٹوارے پر راضی کر لیا۔ انگریز نے ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ہندوستان کا بٹوارا کیا۔ اس طرح ہمیں پاکستان ملا، بلکہ ہم نے انگریز سے پاکستان حاصل کیا۔ انگریز کو برصغیر کے بٹوارے پر راضی کرنا کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں تھی۔ ہم نے بر صغیر کی تاریخ الٹ پلٹ کر رکھ دی۔ ایک موروثی مکان کے بٹوارے کی خاطر فیملی کے ارکان آپس میں لڑ پڑتے ہیں، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں، قتل و غارتگری پر اتر آتے ہیں۔ انیس سو سینتالیس میں تو ایک ملک کا بٹوارا ہوا تھا۔ برصغیر میں خوفناک فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان فسادات میں ہم نے دل کھول کر جانوں کی قربانی دی۔ ہمارے آباو اجداد شہید ہوئے۔ ہندو اور سکھ جہنم رسید ہوئے۔ انیس سو سینتالیس میں لگی ہوئی آگ کی چنگاریاں برصغیر میں آج تک سلگ رہی ہیں۔ مروجہ حالات کے پیش نظر سلگتی ہوئی چنگاریاں قیامت تک سلگتی رہیں گی۔

ایک آزاد وطن کی خاطر ہم نے بے حساب قربانیاں دیں۔ ہم نے اپنا تاریخی ورثہ دیرینہ دشمن کے دیس میں چھوڑ دیا۔ ہمارے آباو اجداد نے یہ نیک کام اچھا نہیں کیا۔ تاج محل جیسا ورثہ ہم نے ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ تب ٹیکنالوجی بہت ترقی کر چکی تھی۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد کی بات ہے، مصر میں اسوان ڈیم بنانے کے لئے یوینسکو کے تعاون سے فرعون کے دیوہیکل مجسمے اور منسلک عمارتیں اپنی اصلی جگہ سے اٹھاکر محفوظ جگہ منتقل کی گئی تھیں۔ دنیا بھر سے سیاح آج تک سائنس دانوں کا غیر معمولی کارنامہ دیکھنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں مصر آتے رہتے ہیں۔ یونیکسو کی مدد سے ہم بھی تاج محل کراچی لا سکتے تھے۔ غیر ملکی سیاح لاکھوں کی تعداد میں تاج محل دیکھنے کے لئے ہندوستان آتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کے خزانے بیرونی کرنسی ڈالر، پائونڈ اور یورو سے بھرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم تاج محل اٹھا کر کراچی لے آئے ہوتے، تو آج ہمارے خزانے ڈالر ، پائونڈ اور یورو سے کچھا کھچ بھرے ہوئے ہوتے۔ مگر ہمارے آباو اجداد نے ایسا نہیں کیا۔ اس بات کو پون صدی گزر چکی ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

بہرحال ہم نے اپنے لئے ایک آزاد وطن حاصل کر لیا۔ پاکستان مل جانے کے بعد ہم نے انگریزوں سے چن چن کر بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ بدلہ لینے کا ہمارا طریقہ اہنسا پر مبنی تھا، یعنی بغیر جنگ و جدل اور خون خرابے کے غنیم اور حریف کو، یعنی دشمن کو نیست و نابود کرنا۔ وہ کام ہم نے بخوبی کیا۔ کراچی میں انگریز کے دور کی چند بچی کھچی عمارتوں میں سے ایک عمارت وکٹوریا میموریل کے نام سے بن کر تیار ہوئی تھی۔دیدہ زیب تھی وہ عمارت، آج تک ہے۔ انگریز کی اکثر بنائی ہوئی عمارتوں پر دو چیزیں نمایاں ہوتی تھیں، ایک گنبد اور دوسرے گھڑی، جس کو گھڑیال کہا جاتا تھا۔ انگریز کے دور میں صرف انگریز نے اینگلو اورینٹل عمارتیں نہیں بنوائی تھیں، کراچی کو دیدہ زیب بنانے میں پارسی اور ہندوئوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ فقیر کی رائے میں کراچی کی سب سے خوبصورت عمارت میونسپل کارپوریشن ڈی جے سائنس کالج، سندھ ہائی کورٹ اور ہندوجیم خانہ کی تھی، ہندو جیم خانہ بھی سیٹھ گوپال گوردھنداس موہاٹا نے بنوایا۔ جیم خانہ کے ساتھ کرکٹ گرائونڈ ہوتا تھا۔ اسی گرائونڈ پر جے نائومل کھیلتے تھے۔ جے نائومل انیس سو چھبیس کی آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے لئے سلیکٹ یعنی منتخب ہوئے تھے۔ آج کل ہندو جیم خانہ گرائونڈ پر پولیس کے بے رونق اور بھدے سیکڑوں فلیٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ کراچی پولیس کی قبضہ گیری کی پہلی واردات ہے۔

تاریخ کا ایک طالب علم برنس روڈ کے اطراف وکٹوریا میموریل کے نام سے ایک دیدہ زیب عمارت کی کھوج میں لگ گیا۔ انگریز نے رانی وکٹوریا کی گولڈن جوبلی کے موقع پر رانی کے لئے دویادگار بنائی تھیں، ایک کلکتہ میں اور دوسری کراچی میں کراچی کے لئے ایک خوبصورت عمارت میوزیم کے لئے بنوائی تھی۔ میوزیم کی خوبصورت عمارت، جس پر ایک گنبد بھی بنا ہوا تھا، برنس روڈ کے قرب و جوار میں تھی، بلکہ آج تک اپنے جاہ وجلال سے اپنی جگہ موجود ہے۔ برنس روڈ کو بھائی لوگوں نے انگریز سے بدلہ لینے کے لئے غائب کر دیا۔برنس روڈ کو نیا نام محمد بن قاسم روڈ دیا۔ اب آپ وکٹوریا کی یاد میں بنا ہوا عظیم الشان میوزیم دیکھنے کے لئے برنس روڈ ڈھونڈتے پھریں۔ دیواروں سے سر ٹکرائیں، آپ کو نہ ملے گا برنس روڈ اور نہ ملے گا یادگار میوزیم۔۔ انگریز سے ہمیں بدلہ تو لینا تھا، اس لئے میوزیم کی بیش بہا نوادرات ہم نے نکال کر باہر پھینک دیے اور اس کی جگہ ہم نے کوئی سرکاری دفتر کھول دیا۔ اس کے بعد اس دیدہ زیب عمارت میں کئی دفاتر کھلے۔ آج کل وہاں سپریم کورٹ کی ذیلی عدالت کا دفتر کھلا ہوا ہے۔ وہاں پہنچنے کے لئے آپ کو برنس روڈ نہیں ملے گا۔ آپ کو وہاں پہنچنے کے لئے محمد بن قاسم روڈ سے آنا پڑے گا۔

سپریم کورٹ کے زیر استعمال عالیشان عمارت انگریز کے دور کی ان چند باقی بچ جانے والی عمارتوں میں سے ایک ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہمارے بدلے کی بھاوئوں سے محفوظ رہی ہیں۔ دوسری عمارتوں میں موہٹہ پیلس، سندھ اسمبلی، سندھ ہائی کورٹ ، کراچی میونسپل کارپوریشن، سینٹ پیٹرک اسکول، کراچی گرامر اسکول، بی وی ایس پارسی اسکول، ماما پارسی گرلز اسکول، گورنر ہائوس کراچی پورٹ ٹرسٹ، ہندو جیم خانہ جسے بھائی لوگوں نے کھنڈر بنادیا تھا، ازسر نو موہٹہ پیلس کی طرح خوبصورت بنایا گیا۔ پارسیوں کے ذاتی استعمال میں آنے والی عمارتیں اب تک تباہی سے بچی ہوئی ہیں۔ ورنہ بھائی لوگوں نے تو کراچی کی ایک شناخت بولٹن مارکیٹ کو سرے سے غائب کر دیا ہے۔ برنس روڈ، فرئیر روڈ، جمشید روڈ، صدر کے چپے چپے پر انگریز، پارسی، اور ہندوئوں کی لاجواب عمارتیں ہم نے اجاڑ کر رکھ دی ہیں۔ حشر نشر کی کہانیاں جاری رہیں گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close