ہائے رے ملیر تیری قسمت

مقبول داد

تمہید کے طور پر صرف اتنا عرض کرتا چلوں کہ وادیِ ملیر کو دریافت ہوئے اب بہت عرصہ گزر چکا ہے، اس لئے دلائل و براہین سے اس کے وجود کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ملنے کا پتہ یہ ہے کہ وادی میں دو ندیاں بہتی ہیں۔۔ اور اب ان کے نیچے ریت اور پتھر گٹر کے پانی میں لیٹے اور تیرتے رہتے ہیں۔ بہنے کا شغل عرصے سے بند ہے۔

ایک زمانہ تھا، جب مادرِ وطن ملیر سے محض دو صوبائی اسمبلی، ایک قومی اسمبلی اور کچھ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے ہوتے تھے۔ اس دور میں کیا کمال ترقیاتی کام ہوتے تھے۔ کمیونٹی سینٹرز کا جال بچھا دیا گیا۔ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز کھولے گئے۔ گاؤں گاؤں گھر گھر میں گنگا جمنا جتنا پانی۔ زراعت عروج کے آسمانوں پر بلڈنگ کلچر اور زہریلی فیکٹریوں پر قہقہے مار کر ہنستی تھی۔ ملیر ندی سے ریتی بجری چوری کرنا کفر کے مترادف ہوتا تھا۔ انسانی غلاظت اور گٹر کا پانی سڑکوں کے بیچ محوِ رقص نظر نہیں آتے تھے۔ کچھ 55 بسیں اور میری یاد کے مطابق اِکّا دُکّاS1 کی منی بسیں ہوا کرتی تھیں، اور ذاتی گاڑیاں صرف زرعی زمین کے مالکوں کے پاس ہوا کرتی تھیں۔ گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہوتا تھا۔۔

اور ایک زمانہ یہ ہے کہ مادر وطن ملیر کو ناجائز طور پر حاملہ بنا کر اس کی کوکھ سے گڈاپ، ابراہیم حیدری اور ملیر ٹاؤن نام کے تین ناجائز بچے نکالے گئے۔ لیڈروں کا سمندر موجود ہے، جس میں مخصوص نشستوں پر تین خواتین ایم پی ایز، چھ گبھرو جوان مرد ایم پی ایز، تین قابلِ عزت مرد ایم این ایز، ایک عظیم الشان ڈپٹی میئر کراچی، ان گنت یو سی چیئرمین اور وائس چیئرمین، سینکڑوں وارڈ کونسلرز اور تین نت نئے بغیر نتھ اتروائی میونسپل کارپوریشنز کے سربراہان! لیڈروں کی بہتات مگر مسائل کا انبار۔۔

حالت زار پر کیا تبصرہ کریں۔ ملیر ٹو میمن گوٹھ روڈ صدیوں گزرنے کے بعد بھی ڈبل روڈ نہیں بن سکا۔ یہ وہی سڑک ہے، جسے شیر شاہ سوری نے بنایا تھا۔ یہ سڑک آثارِ قدیمہ میں شمار ہوتی ہے اور بے حد احترام کی نظروں سے دیکھی جاتی ہے۔ وہ قدیم تاریخی گڑھے اور خندقیں جوں کے توں موجود ہیں، جنہوں نے کئی سلطنتوں کے تختے الٹ دیے تھے۔ اس سڑک میں آج بھی عزت کے طور پر ایک بھی اسٹریٹ لائٹ نصب نہیں ہے۔ اس تاریخی ورثے کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے کیا کہنے۔۔

لیکن ملیر اور تھدو ندی کے ساتھ یہ سلوک روا نہ رکھا گیا۔۔ کہ ان کی حالت دیکھ کر حالِ دل بیان کرنے کو الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔۔ انہیں نوچ نوچ کر اتنی ریتی بجری نکالی گئی ہے کہ اب ندی سے زیادہ ہیرو شیما کے مناظر پیش کرتی ہیں۔ ملیر ندی کے سینے پر ایچ ڈی اے اور بحریہ ٹاؤن کے مکینوں کے لیے ملیر ایکسپریس وے بنائی جا رہی ہے۔ تھدو ندی کی شادی کم عمری میں زبردستی بحریہ ٹاؤن سے کرا دی گئی ہے۔ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے نامی بلاؤں نے کاٹھوڑ اور گڈاپ کی قدرتی خوبصورتی کو سبوتاژ اور تاریخی پہاڑوں کو روند کر ترقی کے نام پر فطری مناظر کا قتل عام کیا ہے۔ زراعت بستر مرگ پر لیٹی موت کا انتظار کر رہی ہے۔ GFS، صائمہ اور دوسرے ملیر دشمن بلڈرز کی نظروں سے محفوظ جو باقی کچھ زرعی زمینیں بچ گئی ہیں، وہ زہریلے پانی کی وجہ سے صرف گھاس اگانے کے ہی قابل ہیں۔ فیکٹریوں کے دھوئیں اور ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سانس لینے کے لئے صاف آکسیجن تک میسر نہیں ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ملیر کے لوگ پھیپھڑوں کی حفاظت اور سانس لینے کے لئے سلینڈر اور ماسک ساتھ لے کر گھومیں گے۔

ہزاروں گاؤں ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ پورے ڈسٹرکٹ میں شو پیس کے طور پر بھی ایک ماڈل گاؤں نہیں ہے، جہاں زندگی جیسے عذاب کو گزارنے کے لئے سارے سہولیات میسر ہوں۔ ملیر میں آج بھی بچے مین ہولز میں گر کر مر رہے ہیں۔ پیپلز بس سروس کورنگی اور اورنگی کے گھڑوں اور خندقوں میں چل سکتی ہے مگر ملیر میں یہ سروس بھی موجود نہیں ہے۔ رکشوں کا سیلاب ہے مگر پھر بھی منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ نفرتیں اتنی ہیں کہ اب 55 نمبر بس میں چھوٹے بڑوں کے لئے اور صحتمند لوگ مریضوں کے لئے سیٹ خالی نہیں کرتے۔
ملیر میں کوئی سرکاری یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ کچھ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا قیام ضرور ہوا ہے، مگر وہاں کی سالانہ فیس ہماری زندگی کی جمع پونجی سے بھی تین گنا زیادہ ہے۔ ملیر کے ہونہار طالب علموں کو بھی ان یونیورسٹیوں میں شودر سمجھا جاتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے والے گڈاپ کے بے شمار نوجوان پوائنٹ بس کے لیے ہمارے نمائندوں کے سامنے چیخ چیخ کر تھک چکے ہیں۔۔ گڈاپ کا تمام علاقہ اکیسویں صدی میں آج بھی گیس کی سہولت سے محروم ہے

ملیر کی آبادی میں 300 گنا اضافے کے باوجود اور جام گوٹھ جیسے علاقے میں فلیٹ بننے اور آباد ہونے کے بعد بھی خود سے پوچھیں کہ ملیر میں آخری سرکاری اسکول، کالج یا لائبریری کب بنی ہے؟ ایک لائبریری ہے سید ہاشمی ریفرنس کتابجاہ، جس کے لئے بھی یہ منتخب نمائندے آج تک سندھ گورنمنٹ سے کوئی گرانٹ منظور نہیں کروا سکے۔ ہاں مگر کچھ فرضی این جی اوز کو ملیر کے نام پر ہر سال سندھ گورنمنٹ کی طرف سے گرانٹ کے طور پر کروڑوں روپے ضرور ملتے ہیں۔

سیاہی اور الفاظ ختم۔۔ بس یہی دکھ ہے کہ وادیِ ملیر میں اب کوئی حزب اختلاف بھی باقی نہیں رہا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close