الفاظ کا سفرنامہ ۔ زبانیں (پہلا حصہ)

سعد اللہ جان برق

اس زمین پر ایک ایسا زمانہ بھی گزرا ہے، جب ہر طرف عظیم الحبثہ جانداروں کا راج تھا۔ اس دور کو طبعیاتی اصطلاح میں ’’جوراسک دور‘‘ کہا جاتا ہے، ان بڑے بڑے ’’ڈینوسار‘‘ قسم کے جانوروں کی خوراک چھوٹے جانور تھے چنانچہ چھوٹے جانوروں نے بھی جان بچانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔

کچھ نے زیرِ زمین غاروں میں پناہ لی، کچھ نے بتدریج ارتقائی مراحل طے کر کے فضاء میں اڑنا شروع کر دیا اور کچھ جانداروں کے دوڑنے کی رفتار غیرمعمولی حد تک تیز ہو گئی۔

ان کمزور جانوروں کی ایک شاخ نے درختوں پر چڑھ کر کر جان بچانے کا سلسلہ شروع کیا، جنہیں اصطلاحاً ’’شجریشن‘‘ جانور کہا جاتا ہے چونکہ وہ رات کی خاموشی میں درختوں سے زمین پر اتر کر خوراک ڈھونڈتے تھے، اس لیے ’’شب گرد‘‘بھی کہلاتے تھے۔

یہ بندر اور مانس سے بھی پہلے کے جاندار تھے، ایسے جانوروں کے باقیات آج بھی دنیا کے دور دراز حصوں میں پائے جاتے ہیں، جیسے مڈغاسکر کے لیحور، آئی آئی اور وٹارسر وغیرہ۔ چونکہ درختوں پر چڑھ کر جان بچانا بجائے خود ایک ’’سوچ‘‘ ہے، اس لیے ان جانوروں میں سوچنے اور ذہن سے کام لینے کا سلسلہ شروع ہو گیا،ل۔ جب یہ سلسلہ ایک مرتبہ چل پڑا تو ترقی کرتے کرتے یہ مقام تک پہنچا، جسے ہم آج کل عقل و شعور یا ذہن کہتے ہیں، کیونکہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس جسمانی عضو سے زیادہ کام لیا جاتا ہے، وہ طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے اور جس عضو سے کام نہیں لیا جاتا یا کم لیا جاتا ہے، وہ کمزور ہوتے ہوتے معدوم ہوجاتا ہے، لیکن مخلوقات کی اس شاخ کو صرف ’’عقل‘‘ نہیں ملی اور بھی بہت کچھ مل گیا۔

مثلاً درختوں پر چڑھتے اترتے ان کے اگلے دو پیر ہاتھ بن گئے، پنجے، انگلیاں پکڑ اپنے ’’جسم‘‘ کھینچ کر دراز ہونے لگے، جسم کے بال جھڑ گئے، تھوبڑے جپٹے ہونے لگے لیکن بہت بڑی چیز جو ملی وہ زبان ہے۔

ہنگامی طور پر تو یہ بڑے بڑے جانور سے ڈر کر قریبی درختوں پر چڑھ جاتے تھے، لیکن پھر ایک دوسرے کی خیر خبر معلوم کرنے کے لیے ’’آوازیں‘‘ دیتے تھے، آج بھی کچھ جانور ایک دوسرے کی آواز کے جواب میں آوازوں کا سہارا لیتے ہیں، جیسے مرغے مرغیاں، کتے، بھیڑ بکریاں اور کچھ پرندے۔

کہیں ایک بولتا ہے تو چاروں اطراف ہم جنسوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں، لیکن ان بچاروں کے پاس عقل کی وہ دوسری صفت نہیں ہے، جو ان آوازوں کا کوڈ کھول سکیں یا ان آوازوں کو معنی و مفہوم دے سکیں، جب کہ انسانی اجداد کی اس خالص شاخ کے پاس وہ ’’چیز‘‘ تھی، اس لیے بے معنی آوازوں کو معنی دیتے رہے یہاں تک کہ ان کو زبان کی یہ دوسری بڑی نعمت بھی مل گئی، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔

ابتدا میں یہ زبان چند مختصر الفاظ پر مبنی تھی، لیکن جیسے انسان کی ضرورتیں بڑھتی گئیں، نئی نئی چیزیں اس کی زندگی میں آتی گئیں، نئے نئے مسائل پیدا ہوتے گئے، الفاظ بھی بڑھتے گئے اور زبان سے زبانیں بنتی اور نکلتی رہیں۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ’’علم لسانیات‘‘ پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالی جائے۔

جدید لسانیات کی ابتدا تو ایک انگریز عالم ولیم جونز کے اس لیکچر سے ہوتی ہے، جو اس نے کلکتہ کی ایشیاٹک سوسائٹی کو سنسکرت کے بارے میں دیا۔ اس نے اپنے لیکچر میں یہ انکشاف کیا کہ سنسکرت، ژند اوویستا یونانی، لاطینی، جرمنی اور کچھ دوسری زبانیں الگ الگ ہوتے ہوئے بھی آپس میں حد درجہ مماثلت رکھتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کی سب کسی ایسے مشترکہ ماخذ سے نکلی ہوں، جو اب موجود نہیں ہے۔

سرولیم جونز کے اس لیکچر سے یورپ اور پھر امریکا کے بہت سارے علماء اس ’’مشترکہ ماخذ‘‘ کی تلاش میں جت گئے اور انیسویں صدی میں بہت ساری کاوشوں کے بعد اس مشترکہ ماخذ کو ’’ہند یورپی زبان‘‘ کا نام دیا گیا، جو آریاؤں کے اجداد اپنے اصلی وطن میں بولتے تھے، پھر آریاؤں کے آبا و اجداد ’’وروس‘‘ کے اصلی وطن کی تلاش شروع ہوئی اور اس کا تعین ’’یورپ میں کہیں‘‘ کیا گیا۔

لیکن ایک مشہور لسانی ماہر ’’ایف مکس مولر‘‘ نے مضبوط دلائل و شواہد سے ثابت کیا کہ آریاؤں کے یہ اجداد ’’وروس‘‘ وسطی ایشیا میں اور جنوبی ایشیا میں ہندوکش کے سلسلہ ہائے کوہ میں رہتے تھے، پھر جیسے جیسے کثرتِ آبادی اور قلتِ خوراک کا مسئلہ پیدا ہوتا گیا، یہاں سے انسانوں کے گروہ نکلتے اور پھیلتے گئے اور ان کی زبان بھی شاخوں میں بٹتی رہی۔ فلپ کے حتی نے اپنی کتاب ’تاریخِ شام‘ (ترجمہ غلام رسول مہر) میں لکھا ہے کہ اب تک اس خطے کوہ ہندوکش اور اس سے ملحقہ بالائی زمینوں سے پانچ خروج یا یلغاریں ریکارڈ کی گئی ہیں۔

اس نے بڑے دلچسپ پیرائے میں ان یلغاروں کا ذکر کیا کہ یہ خطہ علماء تاریخ و تمدن کے نزدیک زمین کا ’جوف الارض‘ یعنی ماں کی کوکھ یا رحمِ مادر کی طرح ہے۔ جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں نو مہینے تک پلتا ہے اور جب اس کے لیے ماں کے پیٹ کی خوراک ناکافی ہوجاتی ہے تو باہر نکل آتا ہے، اسی طرح اس جوف الارض میں بھی ایک خروج ایک میلنیم یعنی ہزار سال میں تیار ہو جاتا تھا، پھر قلتِ خوراک کے باعث باہر نکل پڑتی تھی، اس نے اس سلسلے کی آخری اور پانچویں خروج چنگیزی مغلوں کی یلغار کو کہا ہے۔

چنگیزی یلغار کو تقریباً اتنا ہی عرصہ ہوچکا ہے، جو دوسری یلغار کو درکار ہوتا ہے اور یہ چھٹی یلغار شاید چینیوں کی شکل میں شروع ہو بھی چکی ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close