دریائے سندھ کی جگمگاتی لہروں پر سندھ کا قدیم مندر ’سادھو بیلو‘

غلام مصطفٰی سولنگی

جھلسا دینے والی گرمی کے باوجود بھی سکھر میں جون کی ایک صبح بے حد ٹھنڈی اور ہوادار تھی۔ بندر روڈ کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹی سی کشتی ہچکولے کھا رہی تھی۔ ٹھنڈی صبح نے گہری سانس لی۔ بادبان کھلا، چپو چلنے لگا اور بھگوان داس کی پُرسوز آوازگونج اٹھی:

میری کشتی پار لگا میرے مولا

توہی پالن ہار ، تو ہی رکھوالا

یہ سندھو ماتا سدا بہتی رہے

یہ ہے امن و محبت کی آشا

سب کے دلوں میں محبت ڈال

سب کو بنا دے تو پیارا

تو ایک ہے، تو رحمان ہے

ہم سب کو بھی ایک بنا

میرے مولا۔ میرے مولا۔۔

اچانک بھگوان داس کی آواز رُک گئی۔ ان کی آنکھوں میں ہلکے سے آنسو دریائے سندھ کے پانی کی طرح چمک رہے تھے۔ ان کے سر پر ہرے رنگ کا رومال لپٹا ہوا تھا،جس کے پلو سے آنسو پونچھتے ہوئے وہ بولے۔’’سائیں بابا! اللہ پاک ایک ہے تو سب انسانوں کو بھی ایک اور نیک ہونا چاہئے نا! خدا تو سراپا محبت ہے، لیکن ہم انسانوں کے اندر میں زہر کی بیلیں کیوں اُگ آئی ہیں؟ ہم کیوں ایک دوسرے سے نفرت کر رہے ہیں؟ ہم کیوں ایک دوسرے کو مار رہے ہیں؟ بس دعا کریں کہ ہم ایک دوسرے پر رحم کریں۔ ایک ہو جائیں۔ نفرت کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔‘‘

بھگوان داس تھوڑے سے جذباتی ہو گئے۔ وہ ابھی کچھ کہنے ہی والے تھے کہ کشتی ایک سیڑھی سے آ کر ٹکرائی۔ پہلا قدم دوسری سیڑھی پر رکھا گیا۔ چار سیڑھیاں چڑھ کر میں نے دائیں ہاتھ پر موجود مندر کے پرُشکوہ داخلی دروازے کے اوپر درمیان میں لگی ہوئی ایک بھاری بھرکم گھنٹی کو ہاتھ سے ہلایا۔ وہ زور سے بجنے لگی۔ اس کی آواز کی گونج پورے مندر میں پھیل گئی۔ بائیں طرف آم کے درختوں پر کچے آم لگے ہوئے تھے، ہلکی ہوا کے دوش پر یہ آم بھی ہل رہے تھے۔

محسوس ہوا کہ گھنٹی کے ساتھ وہ بھی بج رہے ہیں، جس دروازے سے اندر آیا، اس کے سامنے سادھو بیلہ مندر تھا۔ ایک عجیب، پرُاسرار اور پُرسکون دنیا، لگتا نہیں کہ سکھر جیسے مصروف شہر سے تھوڑا سا ہٹ کر ایسی خاموشی اور دل و دماغ کو فرحت و سکون دینے والی جگہ بھی ہو سکتی ہے۔ برگد کے ایک قدیم اور گھنے درخت کے نیچے ایک درجن سے زائد رکھے ہوئے پاٹڑوں (مٹی کا پلیٹ نما برتن) میں گوپال داس پانی ڈال رہا تھا۔ کئی پرندے ان کے ساتھ ساتھ بڑی بے خوفی سے پُھدک رہے تھے۔

انہوں نے ایک تھیلی سے چاول، باجرہ اور جوار نکالے اور پورے صحن میں پھیلا دیئے ۔ پرندوں کو صبح کی خوراک مل گئی تھی۔ ان سے فار غ ہو کر گوپال داس نے برگد کے تنے پر اگربتیاں جلائیں۔ مندر کی پور ی فضا خوشبو سے معطر ہوگئی۔ گھومنا پھرنا اپنی جگہ، لیکن سادھو بیلہ کو تاریخ کے جھروکوں سے دیکھنا مناسب رہے گا۔

سنہری اور تابناک ماضی والا شہر، سکھر، دریائے سندھ کے دائیں کنارے آباد ہے۔ اپنے محل و قوع اورحسن میں یکتا، بالائی سندھ کا سب سے بڑا اور سندھ کا تیسرا بڑا شہر، جو پاکستان کے تین صوبوں یعنی پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے۔ صدیوں سے سندھ کی تاریخ کے کئی نشیب و فراز دیکھنے والا سکھر، تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے بہت ہی اہم شہر ہے۔ سندھ کی تاریخ کی ایک تیز دھارا دریائے سندھ کی صورت میں اس شہر کے ساتھ ساتھ بہہ رہی ہے۔ شہر کی سب سے نمایاں اور اونچی عمارت ’’معصوم شاہ جو منارو‘‘ کی چوٹی پر چڑھ کر دیکھا جائے تو دریائے سندھ کے بیچوں بیچ سادھو بیلہ دکھائی دے گا، جہاں شہر دریا کی چاندی ماضی کو چھو کر گزرتی ہے۔

سادھو بیلہ، سکھر کے قریب اور بکھر کے مغرب میں ایک خوبصورت جزیرہ ہے، جہاں ایک مشہور اور تاریخی مندر یا تیرتھ آستان ہے ۔ یہ مندر بابا بنکھنڈی چند شرما نے بنوایا تھا۔ یہ1803ء میں اپنا آبائی وطن نیپال چھوڑ کر روہڑی میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ بیس برس بعد اس جزیرے پر آ کر انہوں نے یہ مندر تعمیر کروایا، جسے مذہبی اور تاریخی طور پر زبردست اہمیت حاصل رہی ہے۔

شرق بابا بنکھنڈی، 1763ء میں پیدا ہوئے۔ ایک سو سال کی عمر میں یعنی 1863ء میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ والد کا نام رام چند تھا۔ بابا بنکھنڈی کا اصل نام بھال چند تھا۔ انہوں نے 9 برس کی عمر میں اپنے گھر کو الوداع کہا اور بن کے راہی بن گئے۔ اس لئے ان کے گرو نے ان کا نام بنکھنڈی رکھ دیا۔ وہ ذات کے برہمن تھے اور اُداسی پنتھ سے تعلق رکھتے تھے۔ اداسی پنتھ کے معنی ہیں، وہ مذہبی یا روحانی رہنما جو شادی نہ کرے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو ختم کردے اور دنیا تیاگ دے۔ اداسی پنتھی ویرانوں اور جنگلوں میں رہ کر پورے دھیان سے پتسیا کرتے ہیں۔

بابا بنکھنڈی خود تو نیپال کے تھے لیکن ان کے گرو کا تعلق ہندوستان کی ریاست پٹیالہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں پھلیلی سے تھا۔ ان کا نام پوج سوامی میلارام صاحب منڈلیشور تھا۔ بابا بنکھنڈی جب سندھ میں آئے تو عمر 60 برس تھی، انہوں نے کچھ عرصہ روہڑی میں قیام کیا اور بعد میں آکر سادھو بیلہ کو آباد کیا۔ شروع شروع میں ان کے ساتھ صرف ایک ہی چیلہ تھا، جس کا نام تلسی داس بھاٹیا تھا۔ ان دنوں سندھ پر تالپور حکمران راج کر رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ والیِ ٔ خیرپور ریاست میر سہراب خان تالپور اس سادھو سے ملنے اور ان سے دعا کروانے اکثر سادھو بیلہ آیا کرتے تھے۔ میر سہراب خان اور بعد میں انگریز حکمرانوں نے یہ جزیرہ، مندر کے لئے مختص کر دیا تھا۔

جزیرہ دریائے سندھ کے پانی کے درمیان ایک جنگل کی صورت میں موجود تھا، جسے بابا بنکھنڈی نے آباد کیا، لہٰذا اس کا نام ’سادھو بیلہ‘ پڑ گیا، اس جزیرے پر آنے کے دوسرے دن بابا بنکھنڈی نے یہاں برگد کے تین درخت لگائے، جوآج بھی موجود ہیں، ان کے نام برہما، وشنو اور مہیش رکھے۔

بابا بنکھنڈی نے سادھو بیلہ میں آکر اپنے جگت گرو بابا سری چند کی تپسیا کی، وہ چند صاحب گرونانک کے بڑے صاحبزادے تھے۔ انہوں نے سناتن دھرم کو رائج کرنے کے سلسلے میں اُداسی پنتھی تحریک چلا کر ہندو دھرم کو بے حد مضبوط کیا۔ انہوں نے بابا بنکھنڈی کو دعا دی تھی کہ تمہارا آستان ایک دن دنیا کا مشہور تیرتھ آستان بن جائے گا۔

بابا بنکھنڈی نے 40 سال سادھو بیلہ میں گزارے، اس دوران انہوں نے وہاں کوئی مندر یا کوئی اور عمارت تعمیر نہیں کروائی، صرف تیرتھ میں سنگاسن گدی صاحب اور دھونی صاحب بنوائی، اس کے علاوہ پورنا دیوی، ہنومان، گرو سری چند، ستنارائن اور مہادیو کیلاش کی مورتیاں بنوا کر رکھوائیں۔ شریر چھوڑنے (روح پرواز کرنے) سے پہلے انہوں نے اپنے دو خاص چیلوں بھائی ہرنارائن داس اور بھائی ہرپرشاد کو نصیحت کی تھی کہ ’’سادھو بیلہ ایک بہت بڑا تیرتھ آستان بنے گا، لہٰذا وہاں پکے مندر اور سادھوؤں کی رہائش کے لئے پکی کٹیائیں بنوانا۔‘‘ بعد میں ایسا ہی کیا گیا۔

بابا بنکھنڈی کے بعد جو بھی سادھو بیلہ کے گدی نشین بنے، وہ بھی بڑے درویش تھے۔ ان میں سوامی وشنداس، سوامی ہرنارائن داس، سوامی ہر پرشاد، سوامی موہن داس، سوامی سنت داس، سوامی اچل پرشاد، ہراج کرن داس، سوامی جیرام داس اور سوامی گنیش داس کے نام قابل ذکر ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سادھو بیلہ کے مہنت سوامی ہرنام داس تھے، انہوں نے عام لوگوں کی بھلائی کے بہت کام کئے۔ ان کے ہی دنوں میں سادھو بیلہ کی ترقی کے لئے کئی منصوبے تیار کئے گئے۔ جزیرے کے چاروں اطراف سنگ مرمر کے گھاٹ اور پتھروں کی دیواریں بنوائی گئیں تاکہ دریا کا پانی مندر کے علاقے کو متاثر نہ کرے۔

سادھو بیلہ کے مرکزی مندر میں شریمید بھاگوت اور گروگرنتھ کے ساتھ سری چند بابا، رام کرشن اور دوسرے کئی دیوتائوں کی مورتیاں رکھی گئی ہیں، اس کے علاوہ ایک بڑی مورتی بھی ہے، جسے ترلوک ناتھ کہتے ہیں۔ کچھ اور بھی مورتیاں رکھی گئی ہیں، جن کو گنیش، کارتک، سوام ، پارپتی اور رشی کہا جاتا ہے۔ مندر کی تعمیر منفرد اور خوبصورت ہے، اسے دیکھنے کے بعد یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس مندر جیسا منفرد اور نرالا طرزِ تعمیر سندھ میں موجود مندروں میں سے شاید ہی کسی مندر کا ہو۔

اس مندر کے قیام سے لے کر آج تک اس کی تعمیر کئی مرتبہ کروائی گئی اور ہر دفعہ اس کا طرز بھی بدلتا رہا ہے۔ مندر کی چھت پر راجستھانی طرز نظرآئے گا تو دیواروں پر مغلیہ طرز نظر آتا ہے۔ مغلیہ طرزِ تعمیر کا ایک زبردست نمونہ سنگ مرمر کا ایک شاندار گنبد بھی ہے، پورا مندر سنگ مرمر، پتھروں اور پکی اینٹوں سے بنوایا گیا ہے۔ بڑی اراضی پر پھیلے ہوئے باغات اس مندر کے حسن کو بے مثال کرنے کا باعث ہیں۔

جب بابا بنکھنڈی نے سادھو بیلہ کا جزیرہ آباد کیا تو یہاں بہت بڑا جنگل تھا، جس میں شیروں سمیت کئی جنگلی جانور تھے، بعدازاں لوگوں کے آنے جانے سے یا تو وہ سادھو بیلہ چھوڑ گئے یا پھر آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے۔ ان جانوروں کی یاد میں سنگ مرمر کے پتھر سے بنوایا گیا ایک شیر کا مجسمہ رکھا گیا ہے، جوبے حد حسین اور انسانی ہاتھوں کا کرشمہ ہے۔

سادھو بیلہ مندر میں ایک شاندار کتب خانہ بھی قائم کیا گیا ہے، جس میں ہندو دھرم کے متعلق ہزاروں کتب ہیں، جو سندھی، اردو، انگریزی، ہندی، گرمکھی اور سنسکرت زبانوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ ہندو دھرم کے عام مطالعے اور تحقیق کے حوالے سے یہ کتب خانہ ایک چھوٹے سے ریسورس سینٹر کا درجہ رکھتا ہے۔

مندر میں ہر جمعے کے دن ایک خاص تقریب ہوتی ہے، جس میں شمالی سندھ کے مختلف شہروں اورگائوں دیہات کے ہندو بھائی شریک ہوتے ہیں اور ان کی روحانی تربیت کی جاتی ہے۔

ہرسال جون کے وسط میں بابا بنکھنڈی کی برسی منائی جاتی ہے، جس میں پوری دنیا سے ہزاروں ہندو یاتری شریک ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر یاتری اپنے گھروں سے گندم بھون کر لے آتے ہیں۔ جسے سندھی زبان میں ستو، کہا جاتا ہے۔ سارے یاتری ستو کھا کر اور چائے پی کر مندر کے آنگن میں بھجن گاتے ہیں۔ یہ سارے یاتری پوجا کرتے ہیں۔ دریائے سندھ میں مور کے پر ڈبو کر ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر ترشی نمشکار کا اشارہ کرتے ہیں۔

اس وقت سادھو بیلہ کی شاخیں دنیا بھر میں ہیں۔ ہندوستان کے شہروں ہردوار، ممبئی، دہلی، واراناس، بندابن وغیر ہ میں بھی سادھو بیلہ مندر برسوں سے قائم ہیں۔ نیو جرسی (امریکا) میں بھی 8ایکڑ اراضی پرمشتمل سادھو بیلہ مندر تعمیر کیاگیا ہے،اس کے علا وہ سادھو بیلہ کے نام سے الہاس نگر (ہندوستان) میں ایک بہت بڑا کالج قائم کیا گیا ہے۔ یورپ اورایشیا کے کئی ممالک میں سادھو بیلہ کی شاخیں کام کر رہی ہیں۔

دریائے سندھ کی جگمگاتی لہروں پرموجود سادھو بیلہ ایک حسین اور پرسکون جگہ ہے۔ بندر ر وڈ پر سے دیکھا جائے تو لگتا ہے جیسے سندھو ماتا نے ایک پیارے اور پر امن بچے کو اپنی گود میں بٹھایا ہوا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close