مریم نواز کی آڈیو ٹیپ: مریم نواز کے اعتراف کے بعد ایک نیا بکھیڑا کھڑا ہو گیا

نیوز ڈیسک

اسلام آباد: وزارت اطلاعات و نشریات نے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے گذشتہ روز کیے جانے والے ان انکشافات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کر دی ہے جن کے مطابق ن لیگی رہنما نے چند نجی چینلز کو اشتہارات نہ دینے کا حکم دیا تھا

واضح رہے کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر مسلم ن رہنما مریم نواز کی ایک آڈیو ریکارڈنگ لیک ہوئی تھی، جس میں انہیں چند پاکستانی ٹی وی چینلز کا نام لیتے ہوئے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اب ان کو کوئی اشتہارات نہ دیے جائیں گے

مریم نواز کی آڈیو میں ُسنا جا سکتا ہے کہ وہ کہہ رہی ہیں ”آج سے سما کے اشتہار بلکل بند ہیں۔ ٹھیک ہے؟ ٹوئنٹی فور چینل کو، سما کو، نائنٹی ٹو کو.. اور کیا نام ہے اس کا.. اے آر وائی کو.. کوئی ایڈ نہیں جائے گا، بالکل“

جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران، جہاں وہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ سے متعلق گفتگو کر رہی تھیں، ان سے سوال کیا گیا کہ جس آڈیو کو ان سے منسوب کیا جا رہا ہے، کیا وہ درست ہے؟ تو مریم نواز نے اس کی تصدیق کی

اس اعتراف کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جوابی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ مریم نواز نے ن لیگ کے دور حکومت میں سرکاری اشتہارات من پسند چینلز اور صحافیوں میں بانٹے جو غیر قانونی ہے اور اعلان کیا کہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کرے گی

وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مریم نواز کے انکشافات پر تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی نون لیگ کے دور حکومت میں میڈیا کو جاری کیے جانے والے اشتہارات میں بےضابطگیوں اور میڈیا سیل کے ذریعے من پسند صحافیوں اور مختلف میڈیا گروپس کو نوازنے سے متعلق اپنی رپورٹ مرتب کرے گی

بیان میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز کی سرپرستی میں قائم میڈیا سیل کے ذریعے قومی خزانے سے وفاقی حکومت کے 9 ارب 62 کروڑ 54 لاکھ 3 ہزار 902 روپے خرچ کیے گئے اور مذکورہ میڈیا سیل سے پنجاب کی ایڈورٹائزمنٹ کو کنٹرول کرنے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی میڈیا سیل کے ذریعے سرکاری رقوم کے غیر قانونی استعمال کے معاملات کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ مرتب کرے گی

اپنی پریس کانفرنس میں اس آڈیو کی تصدیق مریم نواز نے کہا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ وہ جوڑ جوڑ کر بنائی گئی ہے یا وہ میری آواز نہیں ہے، وہ میری ہی آواز ہے

ایک اور سوال کے جواب میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں تب میری پارٹی کا میڈیا سیل چلا رہی تھی۔ وہ بہت پرانی ہے

اس پریس کانفرنس کے دوران مریم نواز کے ساتھ بیٹھے سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز رشید مریم نواز کو یہ کہتے سنائی دیے کہ ’یہ آج کی بات نہیں ہے، اس پر نہ کرنا بات۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے گذشتہ روز مریم نواز کی پریس کانفرنس کے جواب میں دعویٰ کیا کہ ن لیگ کے دور میں مریم نواز نے میڈیا سیل کے ذریعے پندرہ سے اٹھارہ ارب روپے وفاق اور پنجاب کی سطح پر تقسیم کیے

انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے میڈیا سیل کے ذریعے دس ارب روپیہ صرف اسلام آباد میں اپنے من پسند چینلز کو بیچا۔ پنجاب میں بھی اشتہارات کو یہی سیل کنٹرول کر رہا تھا۔ میں چینلز کے نام نہیں لیتا۔ کچھ چینلز کے انہوں نے نام لیے، جن کو انہوں نے سزا دی۔ کچھ چینلز کے نام انہوں نے نہیں لیے۔ کل ملا کر پندرہ سے اٹھارہ ارب روپیہ صحافیوں میں، مختلف میڈیا گروپس میں بانٹا گیا اور مریم نواز کا آج کا اعتراف واضح طور پر غیر اخلاقی تو ہے ہی، غیر قانونی بھی ہے

وفاقی وزیر اطلاعات نے میڈیا کو ایک فہرست بھی فراہم کی جس کے مطابق ن لیگ دور حکومت میں پانچ سالوں کے دوران (2013 تا 2018) ٹی وی چینلز کو دیے جانے والے اشتہارات کی رقم کا تخمینہ پیش کیا گیا تھا

اس فہرست کے مطابق نواز شریف دور میں جنگ اور جیو گروپ کو سب سے زیادہ اشتہارات دیے گئے، جو تقریباً تین ارب روپے کے قریب بنتے ہیں جب کہ دنیا اور ایکسپریس گروپ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں

جن چینلز کا نام مریم نواز کی آڈیو ٹیپ میں آتا ہے ان میں سے سما نیوز تقریبا اٹھارہ کروڑ روپے کے ساتھ تیرہویں، 92 نیوز تیرہ کروڑ کے ساتھ سولہویں، اے آر وائی نیوز ساڑھے آٹھ کروڑ روپے کے اشتہارات کے ساتھ بائیسویں اور چینل 24 ساڑھے سات کروڑ کے ساتھ فہرست میں آخری نمبر پر ہے

فواد چوہدری نے اعلان کیا کہ حکومت اس معاملے کی سنجیدہ تحقیقات کروائے گی کیوں کہ ایک نجی شخص کا پبلک فنڈز کو کنٹرول کرنا ایف آئی اے کے تحت جرم بنتا ہے

فواد چوہدری کے دعوے کے بعد ن لیگ کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ مریم نواز نے جس آڈیو کی تصدیق کی اس میں سرکاری اشتہارات کا تذکرہ ہو رہا تھا

نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ”یہ پبلک منی نہیں تھی، بلکہ پارٹی فنڈز تھے جن کی بات ہو رہی ہے اور اس میں کوئی غیر قانونی بات نہیں۔ یہ 2015ع کی نہیں ہے، 2009 یا 2010 کی بھی بات ہو سکتی ہے۔“

اہم بات یہ ہے کہ مریم نواز اور مریم اورنگزیب اپنی گفتگو کے دوران اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہیں کہ یہ ٹیپ کس وقت اور تاریخ کی ہے

بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جب یہی سوال سابق وزیر اطلاعات اور ن لیگ کے سنیٹر پرویز رشید کے سامنے رکھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے مطابق انہیں اب یہ نہیں یاد کہ یہ ٹیپ کس وقت کی ہے

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ان کو مریم نواز نے یہی کہا کہ وہ پارٹی کے لوگوں سے بات کر رہی تھیں اور پارٹی کے اشتہارات کی بات ہو رہی تھی

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ مجھے مریم نے کہا کہ آپ اس وقت وزیر اطلاعات تھے، کیا میں نے کبھی آپ کو کہا کہ کس کو اشتہار دینا ہے اور کس کو نہیں؟ اور واقعی ایسا کبھی نہیں ہوا

پرویز رشید کے مطابق مریم کی آڈیو میں کوئی سرکاری اہلکار نہیں، بلکہ ایک سیاسی جماعت کا ورکر الیکشن مہم کے دوران بات کر رہا ہے، جس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کا ووٹ بینک کون سا چینل دیکھتا یا کون سا اخبار پڑھتا ہے یہ فیصلہ کرے کہ اس نے کس کو اشتہار دینا ہے

پرویز رشید سے جب سوال کیا گیا کہ تحریک انصاف حکومت کی جانب سے اشتہارات کی جو لسٹ دکھائی جا رہی ہے اس کے مطابق جن چینلز کے نام آڈیو میں ہیں، ان کو ن لیگ کے دور حکومت میں کم اشتہارات دیے گئے تو پرویز رشید نے جواب دیا کہ یہ تو کسی بھی چیز کا ثبوت نہیں

سابق وزیر اطلاعات نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے دور میں وزارت اطلاعات میں اشتہارات دینے کا فیصلہ صرف یہ دیکھ کر کیا جاتا تھا کہ کون سا چینل زیادہ دیکھا جا رہا ہے

سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید کے مطابق ہر ڈپارٹمنٹ اپنے اشتہار کے لیے خود لسٹ دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس اشتہار کو کس پروگرام میں اور کہاں چلانا ہے، وزارت تو صرف اشتہار جاری کرتی ہے اور اس کی ادائیگی کرتی ہے

اس سوال پر، کہ کیا مریم نواز کا چند چینلز کو اشتہارات نہ دینے کا فیصلہ ون لیگ کے میڈیا کی آزادی کے موقف کی تردید نہیں، پرویز رشید نے کہا ”جب ملک میں دھرنے کر کے ایک منتخب حکومت کو تنگ کیا گیا، تو اس وقت میڈیا کا ایک بڑا حصہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں عوام کی ذہن سازی کے لیے استعمال کیا گیا اور یہ بیانیہ بنایا گیا کہ سیاست دان کرپٹ ہوتے ہیں، باریاں لیتے ہیں تو اس کشمکش کے جواب میں دوسری طرف موجود لوگ بھی وہ کرتے ہیں جو ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جن پر حملہ ہوتا ہے وہ بھی اپنی سی کوشش کرتے ہیں“

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ نہتی جمہوریت کا مقابلہ ایک ایسی طاقت کے ساتھ ہوتا ہے جس کے پاس وسائل بھی ہیں، جو مذہبی جذبات اور صحافت کا بھی استعمال کرتی ہے تو ایسے میں جب ایک فریق کو نشانہ بنایا جائے گا تو دوسرے فریق کی بھی بات کریں اور پھر لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں کہ کون چھوٹی غلطیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اور کون بڑی غلطیاں کر رہا ہے۔ کیا کسی کو کم اشتہار ملنا بڑا جرم ہے یا کسی صحافی کو اغوا کر لینا؟

پرویز رشید نے دعویٰ کیا کہ اشتہارات تو مالکان کو دیے جاتے ہیں، ان سے صحافیوں کا تعلق نہیں۔ ہمارے دور حکومت میں کسی نصرت جاوید، حامد میر، طلعت حسین یا عنبر شمسی کو نوکری سے برخاست نہیں کیا گیا۔ مالکان کی آزادی علیحدہ بات ہے، صحافیوں کی آزادی سے متعلق ن لیگ کا ریکارڈ 2013 سے 2018 تک بے داغ تھا

سما چینل کے سینیئر صحافی ندیم ملک کا نام بھی مریم نواز کی آڈیو میں سُنا جا سکتا ہے. برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں مریم کی یہ آڈیو ریکارڈنگ سنہ 2014 کے اواخر یا سنہ 2015 کے شروع کی ہو سکتی ہے کیونکہ اُس وقت دھرنے کی کوریج کے دوران سما پر کافی دباؤ آیا اور دھرنے کی کوریج کرنے والے ہمارے اسٹاف کو پنجاب پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرتے ہوئے مارا بھی، چینل کے مالک کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بُلا کر خصوصاً میری شکایت بھی کی۔’

ندیم ملک کا کہنا تھا کہ ان کو صحافت کرتے ہوئے تیس سال ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے ایسی کوئی حکومت نہیں دیکھی، جو آزادانہ رپورٹنگ کرنے والے میڈیا سے خوش رہی ہو۔ موجودہ حکومت ہو یا ن لیگ کی سابق حکومت، آزاد صحافی کسی کو بھی قابل قبول نہیں

سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ صحافی تنظیموں کا ہمیشہ یہی مطالبہ رہا ہے کہ سرکاری اشتہارات کی تقسیم حکومت کے ہاتھ سے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا شفاف اور آزادانہ طریقہ کار ہو، کیونکہ یہ کرپشن کا بھی ذریعہ ہے اور ایک حربے کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے

مظہر عباس کہتے ہیں کہ جہاں حکومت اس بات کی تحقیق کر رہی ہے کہ کیا واقعی مریم نواز نے سرکاری اشتہارات کی بات کی، وہیں بہتر ہو گا کہ یہ بھی طے کر لیا جائے کہ سرکاری اشتہارات حکومت کے ہاتھ سے نکال کر نیا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ ہمارے ہاں پالیسیوں میں شفافیت ہونی چاہیے کیوں کہ یہ سیاسی رشوت کے زمرے میں آتا ہے

مریم نواز کے اعتراف پر مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اگر ان کا کہنا مانا جائے کہ وہ پارٹی فنڈز کی بات کر رہی تھیں تو ہر سیاسی جماعت کو یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ کس کو اشتہار دیتا ہے، لیکن کسی بڑی سیاسی جماعت کو یہ زیب نہیں دیتا اور بہتر ہو کہ ان اداروں کو بھی اشتہار دیے جائیں جو کسی سیاسی جماعت کے خلاف بات کرتے ہیں

مظہر عباس نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی جانب سے جن تحقیقات کا اعلان کیا گیا ہے وہ شفاف اور آزادانہ ہوں اور ان میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے اس دعوے کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ نون لیگ کی جانب سے چند صحافیوں کو نوازا گیا

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر اپنے بیان میں کہا کہ مریم نواز کس حیثیت میں عوام کے ٹیکس سے دیے جانے والے اشتہارات کو اپنے ذاتی مفاد اور چوری کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہی تھیں، میڈیا کی آزادی پر ان کی منافقت کھل کر سامنے آگئی ہے

وزارت اطلاعات و نشریات نے  مریم نواز کے انکشافات پر تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم کردی ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی ن لیگ کے دور حکومت میں میڈیا کو جاری کئے جانے والے اشتہارات میں بے ضابطگیوں اور میڈیا سیل کے ذریعے من پسند صحافیوں اور مختلف میڈیا گروپس کو نوازنے سے متعلق اپنی رپورٹ مرتب کرے گی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close