ہمارا مستقبل

مستظہر اقبال

جیسے عمارت مضبوط یا شکستہ بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے، اسی طرح قومیں اچھے یا برے اخلاق اور کردار پر کھڑی ہوتی ہیں۔ کسی ملک کے کل کو دیکھنا ہو، اس کے اسکول جاتے بچوں کا اخلاق و کردار دیکھ لیں۔ اگر جھوٹ، بدزبانی، فحش گوئی اور نقل اس چھوٹی عمر میں ہی در آئی ہے، تو جان لیں کہ آنے والا کل بھی بہت اچھا نہیں ہے، یعنی ہمارے بچے وہ آئینہ ہیں، جس میں ہم آنے والے کل کو دیکھ سکتے ہیں۔

اپنے پرائمری مکمل کر جانے والے اور مڈل، میٹرک اور گیارہویں بارہویں والے بچوں کا اخلاقی حوالے سے تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مستقبل میں کیا تباہی ہونے والی ہے۔ ہمارے ٹین ایج بچے ذو معنویت میں کمال رکھتے ہیں۔ یہ کیسے ہوا کہ ان کا ذہن ایسا پراگندہ ہو گیا کہ ان کی اکیلے میں کی جانے والی باتیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لڑتے بھڑتے دیکھ اور سن لیں تو ہم ضرور شرمسار ہو جاتے ہیں، اگر راہ چلتے کوئی بحث مباحثہ ہو جائے تو کمال کا بدزبان پاتے ہیں۔ ماں، بہن کی گالیاں بالکل عمومی ہیں، گالیوں میں انتہائی غلیظ الفاظ کا استعمال اثریت کے لیے لازم ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ جو بچہ بدزبان نہ ہو اور آپ کو شرمسار کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو، اس کے لیے ’ممی ڈیڈی‘ کا سلینگ مستعمل ہے۔

چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھوٹ بالکل عام ہے، بلکہ زندگی کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ استاد اور والدین سچ پر سزا دیتے ہیں اور بہترین بہانہ گھڑنے پر ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ سماجی تجربہ کر کے دیکھ لیں، اندازہ ہو جائے گا کہ جھوٹ کی خرابی سے ہمارا کوئی بھی بچہ یا بڑا محفوظ نہیں ہے، ہر کوئی حسبِ ذائقہ و ضرورت جھوٹ کا سہارا لیتا ہے اور اس کو مصلحت اور کام نکلوانے کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
اس خرابی کی تمام تعلیم اور آگہی بچے نے ماحول، والدین اور اساتذہ سے لی ہے۔

جب اچھائی اور برائی کی بنیادی تعریف بدل جائے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے کہ ٹیڑھی بنیاد آرٹ کا حصہ قرار پاتی ہے۔ اسی آرٹ کے حصے کے حوالے سے استاد ہونے کی حیثیت سے کچھ اندرونی باتیں بھی ذکر کرنا مناسب ہے۔ بالکل عمومی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں کی طرف سے تعلیمی بورڈ میں داخلہ بھیجتے وقت طلباء کی ترتیب سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے تحت بھیجی جاتی ہے کہ کس طرح ایک دوسرے کی ’مدد‘ کر پائیں گے، اپنے بچوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ والدین فکر مند ہیں کہ ان کا بچہ پڑھنے میں تو بہت اچھا ہے لیکن امتحان میں معروضی سوالات میں موجود کمی بیشی پوچھ بتا کر پوری نہیں کر سکتا، لہٰذا یہ عظیم مسئلہ بھی استاد محترم کو ہی حل کروانا چاہیے، یہ بات کہتے ہوئے اب شرم بھی مفقود ہے۔

اسکول اور کالج مالکان پڑھائی کے علاوہ بھی ہر جائز و نا جائز حربہ آزمانا بالکل درست سمجھتے ہیں، جس سے نمبرز میں اضافہ ہو سکے یا بورڈ میں پوزیشن حاصل کی جا سکے، کیوں کہ اگلے تعلیمی سال میں نئے داخلوں کا انحصار بھی نمبرز پر ہی ہے۔ اگر کوئی اسکول کالج کسی بورڈ کے امتحان کے لیے سنٹر بن جائے تو مالکان اور سنٹر سپرنٹنڈنٹ کی آؤ بھگت مہمان کی طرح نہیں دیوتا کی طرح شروع ہو جاتی ہے، کہ طلباء کو کوئی اضافی امداد بہم پہنچانے میں سہولت ہو سکے۔ امتحانی ڈیوٹیوں کے حالات دیکھ لیں، چَھٹی، ساتویں کے بچے بھی اہتمام کے ساتھ ’بوٹی‘ بنانے اور چلانے کا کمال رکھتے ہیں، پکڑے جائیں تو جو مسکینیت، لجاجت اور منت ان کے پاس ہوتی ہے، کوئی بھی کسی بھی طرح کے کام کے لیے راضی ہو جائے۔ اسی طرح والدین اور طلباء اگر ایک ادارے میں کسی بھی وجہ سے چند ماہ کی فیس نہ دے پائیں تو دوسرے ادارے میں جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لے کر داخلہ حاصل کر لینے کو کمال سمجھتے ہیں۔

ٹھیلے پر موجود دس، بارہ سالہ بچہ بھی کمال مہارت سے خراب سبزی اور پھل کو خریدے گئے صحیح سے تبدیل کرنے کی مہارت رکھتا ہے۔ ہماری نئی نسل کی گھٹی میں دھوکہ اور جھوٹ کیسے شامل ہو گیا؟ یہ سب ہم بڑوں کا کمال ہے، ہم نے اپنے عمل سے بتایا ہے کہ جو بغیر شک کے بہتر جھوٹ بول سکے، جو زیادہ کمال سے دھوکہ دے سکے، جو بد ترین اور فحش ترین گالم گلوچ کر سکے اور جو سب سے زیادہ بدزبان ہو، کامیابی اسی کی ہے اور باقی سب کی زندگی مشکل ترین ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ جلد یا بدیر یہ تمام زندگی بچانے والے ہنر سیکھ لیں۔

پرانی نسل تو چلو جلد گزر جانے والی ہے مگر نئی نسل سے کیا امید وابستہ کریں؟ کیا اسکولوں، کالجوں کے پڑھنے والے اور کیا مزدوریاں کرنے والے بچے، سب کے سب پوری طرح تربیت یافتہ ہیں کہ کس طرح بے ایمانی اور دھوکہ کر کے کامیاب ہونے کی اداکاری کرنی ہے۔ کوئی مایوسی سی مایوسی ہے؟ دور تک اندھیرا ہے اور روشنی کی کوئی کرن دکھائی ہی نہیں دے رہی۔۔ بلکہ اب تو یہ عالم ہے کہ شاید بحیثیت قوم ہم روشنی کی تلاش میں ہی نہیں ہیں۔ ڈر ہے ایسا وقت نہ آ جائے کہ روشنی کا لفظ صرف کتابوں میں پڑھا جا سکے اور دکھایا، بتایا اور سمجھایا نہ جا سکے۔

(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close