بچپن میں کہانیاں سنتے تھے.. ان میں سے ایک کہانی یوں شروع ہوتی تھی، کہ ایک جن تھا، اس کی جان ایک طوطے میں بند تھی.. جن اس طوطے کو ایک پنجرے میں بند کر کے اس کی حفاظت کرتا تھا ـ میں اسے بس ایک کہانی سمجھتا تھا، مگر آج اس کہانی کو حقیقت میں دیکھ رہا ہوں، ہمارا پیارا ملک پاکستان اور اس کی جان ایک شخص یعنی ملک ریاض میں بند ہے، اور پاکستان کے تمام ادارے اس ایک شخص کی حفاظت پر مامور ہیں.. وہ چاہے جو بھی کرے اسے سب اجازت ہے!
سیالکوٹ کا ملک ریاض آٹھویں پاس جس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا، ایک معمولی ٹھیکیدار، آج پاکستان کے تمام اداروں کی جان کیسے بنا؟ یہ ایک مسٹری ہے.. مگر یہ طے ہے کہ یہ پاکستان کا وہ قیمتی راز ہے جسے آج کھوجنا ناممکن ہے، کیونکہ ملک ریاض نیشنل انٹرسٹ قرار دیا جاچکا ہے. وہی ملک ریاض جس نے ببانگ دہل کہا تھا کہ ”میں اپنی فائلوں کو پر لگا دیتا ہوں“ "جس سے میری فائلیں اڑ کے جاتی ہیں، اور کلیئر ہو جاتی ہیں“ اس نے پہیوں کی بات کی تھی.. مطلب رشوت ہی ہے ـ
ملک ریاض کتنا لاڈلہ ہے، اس کی مثال کچھ یوں ہے "آپ اسے طاقت ور بھی کہہ سکتے ہیں یا طاقت وروں کا لاڈلہ بھی کہہ سکتے ہیں” اتنا لاڈلہ کہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ اس کے خلاف دیا، فیصلہ دے کر ایک عمل درآمد بینچ بنا دیا کہ وہ اس فیصلے پر عمل کرائے، پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی عمل درآمد بینچ قانون سے ماورا آئین سے ہٹ کر اس فیصلے کا سودا کرتا ہے، پاکستان کے تمام آئین جاننے والے سکتے میں آ جاتے ہیں، کہ یہ کیسا فیصلہ ہے کہ جس میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحباں فیصلے کی بولی لگانا شروع کرتے ہیں اور پھر ایک رقم میں بولی لگ جاتی ہے، یہ پہلی بار تو نہیں ہوا جب سے ملک ریاض ملک ریاض بنا، بحریہ ٹاؤن واقعی میں بحریہ ٹاؤن بنا.
ویسے فوج کا ایک ادارہ ہے، جسے بحریہ کہتے ہیں. اس نے بحریہ کے نام کو لے کر کیس بھی کیا تھا، اب مجھے نہیں پتہ اس کیس کا کیا ہوا. تو میں کہہ رہا تھا کہ جب سے ملک ریاض ایک ٹائیکون بنا تو سب حکمران اس کے قریب آئے کیونکہ ملک صاحب اصل حکمرانوں کا بنایا ہوا وہ بت تھا، کہ جس سے دور رہنا کسی بھی برائے نام حکمران کے لیئے ممکن نہیں تھا. پرویز مشرف تو بڑے صاحب تھے وہ تو ملک صاحب کے ان داتا تھے اور انہیں کچھ کہہ کر میں بھی گستاخ نہیں بننا چاہتا، زرداری صاحب کے قریبی دوست ملک ریاض، نواز شریف کے قریب ملک ریاض اور عمران صاحب کے کابینہ کا باقائدہ قرار دیا گیا قومی انٹرسٹ یعنی قومی اثاثہ ملک ریاض!! ویسے شہزاد اکبر کا شکریہ جو ہمیں ہی نہیں پورے پاکستان کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ ملک ریاض ایک قومی اثاثہ ہیں. ان کے بارے میں بات کرنا یا اس کے راز کو کابینہ کے سامنے دکھانا، قومی اثاثے کو نقصان پہچانے کے برابر ہے! ویسے برطانیہ والے بھی بہت سادہ ہیں انہیں کیا پتہ ان کی نظر میں جو برا ہے وہ ہمارے نظر میں بھی برا ہو، خیر انہوں نے اپنا خرچہ نکال کر باقی پیسہ، جو کہ پاکستان کے ٹیکس سے چوری شدہ تھا، اسے واپس پاکستان کے حوالے کیا. یہ اور بات ہے کہ انہیں یہ پتہ ہی نہ تھا کہ ملک ریاض ایک قومی اثاثہ ہیں اور قوم کے پیسوں کا حقدار بھی قومی اثاثہ ہی ہوتا ہے اس لیئے قوم کا پیسہ قومی اثاثے کے پاس پہنچا دیا گیا، اور جس اکاؤنٹ میں پیسے گئے وہ اکاؤنٹ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کے حکم سے بنا تھا، جہاں ملک ریاض کو چار سو ساٹھ ارب روپے جمع کرنے ہیں. اب برطانیہ سے جو ناجائز پیسے ضبط کر کے بیجھے گئے وہ ملک ریاض کے تھے، تو ظاہر ہے وہ اسی اکاؤنٹ میں ہی جانے تھے ـ اب ان میں سے کتنے اِدھر اُدھر ہوئے، کسے پتہ.. کسے خبر.. ویسے بھی ہم یہ پوچھ کر اپنا ایمان گنوانا نہیں چاہتے اس لیئے چاہتے ہیں کوئی اور یہ سوال پوچھ کر گناہ گار بنے، ہم کوئی منصور ہیں، جو سولی پہ لٹکیں؟ اس لیئے چپ رہتے ہیں ـ
اب جو بھی ہے، ملک ریاض ہے.. اب تمام پپٹ حکمراں ملک ریاض کے بغیر ادھورے ہیں.. چاہے وہ کل کے ہوں، آج کے ہوں، یا آنے والے کل کے ہوں.. اور یہ مملکت خدا دادِ پاکستان بھی بغیر بحریہ ٹاؤن کے ادھورا ہے، اس کی تاریخ ادھوری ہے، اس کی ترقی ادھوری ہے ـ
کہتے ہیں سرمایہ ہے تو سب کچھ ہے، مگر پاکستان میں اس کا الٹ ملک ریاض کا دست شفقت سر پہ ہے تو سب کچھ ہے، اس لیئے پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں، ان کے قائد، الیکٹرونک میڈیا، ایک دو گستاخ چینلز کو چھوڑ کر.. تمام پرنٹ میڈیا اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ ملک ریاض قومی اثاثہ ہیں ان کے بارے میں کچھ بھی کہنا گستاخی کے برابر ہے ـ
ویسے جو بھی اس تحریر کو ملک ریاض کے خلاف سمجھے، وہ گستاخ ہے! کیونکہ ہم نے یہ مضمون ملک ریاض صاحب کے حق میں لکھا ہے ـ جہاں رہیں سلامت رہیں اور ہماری سلامتی کے لیئے دعا کریں ـ کیونکہ ہم بھی مسلمان اور پاکستان کے وفادار ہیں!!
یہ بھی پڑھئیے: