واشنگٹن : امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ وہ وعدے اور فرائض پورے کرنے پر طالبان حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں، بصورت دیگر ایسا ممکن نہیں
انٹونی بلنکن نے افغانستان کی خبر رساں ایجنسی ‘طلوع نیوز’ کو بتایا کہ ‘میری امید اور امید سے بڑھ کر توقع یہ ہے کہ افغانستان کی آئندہ حکومت بنیادی (انسانی) حقوق برقرار رکھے گی اور اگر وہ ایسا کرتی ہے تو یہ وہ حکومت ہوگی جس کے ساتھ ہم کام کرسکتے ہیں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم ان کے ساتھ کام نہیں کریں گے
امریکا کے طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘یہ مکمل طور پر اس پر انحصار کرتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں نہ کہ اس پر کہ وہ کیا کہتے ہیں اور ہمارے اور باقی دنیا کے ساتھ ان کے تعلقات کی رفتار ان کے اقدامات پر منحصر ہے’
دوسری جانب عبوری حکومت سے متعلق امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اعلان دیکھ لیا ہے اور اب اس کا جائزہ لے رہے ہیں. ہم نے نوٹ کیا کہ اعلان کردہ ناموں کی فہرست ان لوگوں پر مشتمل ہے، جو طالبان اراکین ہیں یا ان کے قریبی ساتھی ہیں جبکہ ان میں کسی خاتون کا نام شامل نہیں ہے
امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکا کو حکومت کی فہرست میں موجود کچھ افراد کی وابستگیوں اور ٹریک ریکارڈ پر تشویش ہے
واضح رہے کہ عبوری کابینہ نے سربراہ ملا محمد حسن اخوند، اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں جبکہ وزیرداخلہ سراج الدین حقانی امریکی ایف بی آئی کو مطلوب ہیں۔ ایف بی آئی نے سراج الدین حقانی کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر پچاس لاکھ ڈالر کی انعامی رقم کا اعلان بھی کر رکھا ہے، لیکن منگل کو انعام بڑھا کر ایک کروڑ ڈالر کردیا تھا
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ طالبان کی عبوری حکومت ہے، حالانکہ ہم طالبان کو ان کے لفظوں سے نہیں ان کے عمل سے پرکھیں گے، ہم اپنی توقعات واضح کر چکے ہیں کہ افغان شہری ایک جامع حکومت کے مستحق ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم اپنی واضح توقعات کا بھی اعادہ کرتے ہیں کہ طالبان اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ افغان سرزمین کسی ملک کو خطرہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی اور افغان عوام کی حمایت میں انسانی رسائی کی اجازت دی جائے، دنیا میں جو انہیں قریب سے دیکھ رہے ہیں
جب انٹرویو لینے والے نے انٹونی بلنکن سے پوچھا کہ کیا امریکا، صدر اشرف غنی کے افغانستان سے فرار ہونے کے حوالے سے علم رکھتا تھا یا انہیں سہولت فراہم کی گئی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی نے فرار ہونے سے قبل رات گئے فون پر صدر سے بات کی تھی. انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ موت سے جنگ لڑنے کو تیار تھے، 24 گھنٹوں سے کم وقت میں وہ افغانستان چھوڑ گئے، تو میں اس حوالے سے کچھ نہیں جانتا اور ہم نے انہیں سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے یقینی طور پر کچھ نہیں کیا ہے.
یہ بھی پڑھئیے:
-
افغانستان کے نئے وزیراعظم ملا حسن اخوند کی زندگی پر ایک نظر
-
پاکستان، ایران، چین، روس طالبان سے معاہدے پر کام کر رہے ہیں : امریکی صدر
-
طالبان نے پنجشیر کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا
-
امریکا 9/11 کے بارے میں خفیہ دستاویزات منظر عام پر لائے گا
-
برطانوی وزیرخارجہ کی وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات، طالبان کو تسلیم نہیں کرتے، دیگر ممالک بھی نہ کریں
-
جو بائیڈن افغان انخلا کے ساتھ امریکا کے عالمی کردار کے خاتمے کے بھی خواہاں
-
اب چین کے ساتھ مل کر افغانستان کی معاشی خوشحالی کی جنگ لڑیں گے، طالبان
-
چین اور ایران کا افغانستان میں مل کر کام کرنے پر اتفاق